بخشش ونجات کے لیے اسلام ضروری کیوں؟

گزشتہ کچھ عرصے سے تبدیلئ مذہب کا مسئلہ ملکی پیمانے پر اہمیت اختیار کرگیاہے۔ عیسائی مشنریوں کی پیہم کوششوں کے نتیجے میں ملک کے غریب اورپس ماندہ طبقات مالی منفعت کی امید، راحت وآسائش کے حصول یا دیگر اسباب سے عیسائیت قبول کررہے ہیں۔ اس مظہر نے ہندومت کے مفکرین اورعَلم برداروں کو پریشان کردیاہے اور وہ اسے روکنے کے لیے ہر ممکن تدابیر اختیار کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اسی طرح خاص طورپر جنوبی ہند میں قبول اسلام کے کثرت سے واقعات رونماہوئے تھے۔ اس موقع پر بھی ہندو رہ نماؤں نے اسی طرح واویلا مچایاتھا اور تبدیلئ مذہب پر پابندی کا مطالبہ کیاتھا۔ ان حضرات کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ اس کے اسباب اپنے اندرون میں تلاش کرنے کی بجائے خارج میں تلاش کرتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ تبدیلئ مذہب کا الزام دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو دینے کی بجائے وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہندومت کے وہ کیاداخلی تضادات، سماجی نابرابری اور دیگر عوامل ہیں جن کی بناپر اس کے ماننے والے ہدایت، نجات، مساوات اورعزت نفس وغیرہ کی تلاش میں دیگر مذاہب کے سائے میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔
اس موضوع پر سوچنے والے بعض حضرات کو ایک خلش رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اللہ سارے انسانوں کا خداہے تو مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے اس کے یہاں اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروؤں کی تخشش کیوں نہیں ہوگی؟ مسلمان بخشش ونجات کے لیے اسلام قبول کرنا کیوں ضروری قرار دیتے ہیں؟ یہ تو تنگ نظری ہے۔
یہاں اسلامی نقطۂ نظر سے اس کی کچھ وضاحت کی جارہی ہے۔
تمام انسان ابتدامیں ایک امت تھے
کہاجاتا ہے کہ انسانیت کی ابتدا تاریک دور سے ہوئی۔ پہلے انسان تہذیب وتمدن سے ناآشنا اوراعلیٰ افکار واقدار سے بے بہرہ تھا۔ جوں جوں اس کا شعور پختہ ہوا اور اسے تجربات حاصل ہوئے اسے جینے کا سلیقہ آیا، برے بھلے کی تمیز ہوئی اوروہ علم وثقافت سے بہرہ ورہوا۔ اس کے برعکس قرآن یہ نقطۂ نظرپیش کرتاہے کہ ابتدا میں انسان علم وشعور سے بہرہ مند تھے، ان کے درمیان فکری ہم آہنگی تھی، وہ ایک خدا کو ماننے والے اوراس کے حکموں پر چلنے والے تھے، لیکن بعد میں نفسانی خواہشات اوردیگر اسباب سے ان کے درمیان اختلافات رونماہوئے۔ ان کے راستے جداجدا ہوگئے اور بہت سے لوگ سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔ اس وقت اللہ تعالی نے ان کی رہنمائی کے لیے اپنے برگزیدہ بندوں کو بھیجا۔ اوران کے ساتھ اپنی کتاب بھی نازل کی، تاکہ واضح ہوجائے کہ کون لوگ حق پر ہیں اورکن لوگوں نے اپنے لیے غلط راہ اختیار کرلی ہے؟ سورۂ یونس میں ہے :
وماکان الناس الا امۃ واحدۃ فاختلفوا.(یونس: 19)
’’ابتدا ءً سارے انسان ایک ہی امت تھے، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنالیے‘‘۔
دوسری جگہ اسی بات کو کچھ تفصیل سے بیان کیاگیاہے :
کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبین مبشرین ومنذرین وانزل معھم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ.(البقرۃ: 213)
’’ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے(پھر یہ حالت باقی نہ رہی اوراختلافات رونماہوئے) تب اللہ تعالی نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اورکج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے اوران کے ساتھ کتاب برحق نازل کی، تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونماہوگئے تھے ان کا فیصلہ کرے‘‘۔
دیگر مذاہب اسلام سے انحراف کا نتیجہ ہیں
قرآن کہتاہے کہ راہِ حق سے انحراف اور باہمی اختلاف کے نتیجے میں لوگوں نے طرح طرح کے مذاہب ایجاد کرلیے۔یہ مذاہب انسانوں کے خود ساختہ ہیں۔ اللہ تعالی کا پسندیدہ طریقۂ زندگی تو صرف وہ ہے جسے اسلام پیش کرتاہے، دیگر مذاہب انسانوں کی افتادِ طبع اورذہنی اپچ کا نتیجہ ہیں۔ اللہ تعالی کی جانب سے واضح ہدایات اور روشن تعلیمات آجانے کے بعد بعض لوگوں نے محض اپنی خواہشات ، مفادات، باہمی عداوتوں اور دیگر اسباب سے نئے نئے طریقہائے زندگی وضع کرلیے اورانہیں مذاہب کی شکل دے دی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
ان الدین عند اللہ الاسلام ومااختلف الذین اوتوا الکتاب الامن بعدماجاء ھم العلم بغیابینھم.(آل عمران: 19)
’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے، اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جنہیں کتاب دی گئی تھی ، ان کے اس طرزعمل کی کوئی وجہ اس کے سوانہ تھی کہ انہوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایساکیا‘‘۔
نزول قرآن کے زمانے میں یہودیت اور عیسائیت کی شکل میں دوبڑے مذاہب رائج تھے۔ حضرت موسیؑ اورحضرت عیسی ؑ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر تھے۔ انہوں نے’اسلام‘ کی طرف دعوت دی تھی، لیکن ان کے پیروؤں نے بعد میں ان کی تعلیمات مسخ کردیں، ان میں غلط عقائد وتصورات اور گمراہ کن خیالات شامل کردیے۔ اس طرح حق وباطل کو گڈمڈ کرکے مروجہ یہودیت اورعیسائیت کی شکل میں مذاہب گھڑلیے۔ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ا نے ان کے سامنے حقیقی اسلام پیش کیاتو انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اوراپنے خود ساختہ عقائد وافکار پر جمے رہے۔ قرآن نے ان کے اس رویے پر سرزنش کی ہے :
یااھل الکتاب لم تکفرون بآیات اللہ وانتم تشھدون.یااھل الکتاب لم تلبسون الحق بالباطل وتکتمون الحق وانتم تعلمون. (آل عمران: 70،71)
’’اے اہل کتاب! کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو، حالانکہ تم خود ان کا مشاہدہ کررہے ہو؟ اے اہل کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھاکر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو‘‘؟۔
دوسرے موقع پرقرآن کہتاہے :
یااھل الکتاب لاتغلوا فی دینکم ولاتقولوا علی اللہ الا الحق.(النساء: 171)
’’اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو اوراللہ کی طرف حق کے سواکوئی بات منسوب نہ کرو‘‘۔
اسلام کا یہی نقطۂ نظر یہودیت اورعیسائیت کے علاوہ دیگر مذاہب کے سلسلے میں بھی ہے۔ وہ انہیں راہِ حق سے انحراف کا نتیجہ اورانسانی ذہن کی پیداوار قرار دیتاہے۔
تمام صالح بندے اسلام پر عمل پیراتھے
اللہ کی مکمل اطاعت، اس کے احکام کی بے چوں وچرا تعمیل اوراس کے سامنے مکمل خود سپردگی اور سرافگندگی کانام اسلام ہے۔ اس اعتبار سے دیکھاجائے تو کائنات کی ابتدا ہی سے اللہ کے تمام صالح بندے، خواہ وہ انبیاء ہوں یاغیر انبیاء’اسلام‘ پر عمل پیراتھے۔ قرآن انبیاء کی تاریخ پر روشنی ڈالتاہے تو صراحت کرتاہے کہ وہ سب مسلم تھے۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوت پیش کی اوران کی سرکشی پر انہیں تنبیہ کی تو فرمایا:
فان تولیتم فماسالتکم من اجر ان اجری الا علی اللہ وامرت ان اکون من المسلمین.(یونس: 72)
’’تم نے میری نصیحت سے منہ موڑا(تو میرا کیانقصان کیا) میں تم سے کسی اجر کا طلب گار نہ تھا۔ میرا اجرا تو اللہ کے ذمہ ہے اورمجھے حکم دیاگیاہے کہ (خواہ کوئی مانے یانہ مانے) میں خود مسلم بن کر رہوں‘‘۔
یہودی اورعیسائی دونوں مدعی ہیں کہ صرف وہی حضرت ابرہیم علیہ السلام کے وارث اورسچے پیروکار ہیں ،حالانکہ وہ ان کی دکھائی ہوئی راہ اوران کے بتائے ہوئے طریقے سے کوسوں دور ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ تو صرف اللہ پر ایمان رکھنے والے ، اسی کی عبادت کرنے والے اور’مسلم‘ تھے :
ماکان ابراھیم یہودیا ولانصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما.(آل عمران:67)
’’اورابراہیم نہ یہودی تھانہ عیسائی، بلکہ ایک مسلم یک سو تھا‘‘۔
حضرت ابراہیم اوران کے پوتے حضرت یعقوبؑ دونوں نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ زندگی بھر اسلام پر قائم رہنا اوراسلام ہی پر تمہاراخاتمہ ہو :
یٰبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلاتموتن الا وانتم مسلمون.(البقرۃ: 132)
’’میرے بچو! اللہ نے تمہارے لیے دین پسند کیاہے، لہذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا‘‘۔
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم بد اعمالیوں کا شکار تھی۔ اس لیے اللہ تعالی نے اس پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس وقت صرف حضرت لوطؑ کا گھرانا مسلمان تھا۔ اسے بچالیاگیا، یقیہ پوری بستی کو تلپٹ کردیاگیا:
فماوجدنا فیھا غیربیت من المسلمین وترکنا فیھا آیۃ للذین یخافون العذاب الالیم.(الذاریات:36۔37)
’’اور وہاں ہم نے ایک گھر کے سوامسلمان کا کوئی گھر نہ پایا۔ اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی ان لوگوں کے لیے چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہوں‘‘۔
فرعون اوراس کے کارندے اسرائیلیوں پر ظلم ڈھاتے تھے۔ حضرت موسیٰ کی دعوت قبول کرنے کے بعد ان کے مظالم میں اضافہ ہوگیا۔ اس پر حضرت موسی نے انہیں صبر اورتوکل کی تلقین فرمائی اوراسے ایمان اوراسلام کا تقاضا قرار دیا:
وقال یاقوم ان کنتم آمنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین.(یونس: 84)
’’لوگو! اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہوتو اس پر بھروسہ کرو ،اگر مسلمان ہو‘‘۔
حضرت موسیٰؑ نے اپنی دعوت کی تائید میں فرعون کے دربار میں اللہ کی چند نشانیاں دکھائیں تو فرعون نے انہیں جادو قرار دیا۔ بالآخر ایک مقررہ دن مصر کے جادوگروں سے ان کا مقابلہ ہوا۔ جادوگروں کی شکست ہوئی اورانہیں یقین ہوگیا کہ موسیٰؑ کے ہاتھ سے ظاہرہونے والی چیزیں جادو نہیں، بلکہ اللہ کی نشانی ہے۔ وہ سجدہ میں گر پڑے اورایمان لے آئے۔ فرعون نے انہیں دھمکی دی کہ وہ انہیں دردناک سزادے گا تو انہوں نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں صبر واستقامت اوراسلام پر خاتمہ کی دعامانگی :
ربنا افرغ علینا صبرا وتوفنا مسلمین.(الاعراف: 126)
’’اے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر اورہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں‘‘۔
حضرت سلیمان ؑ کے زمانے میں سبا کی ملکہ بڑی شان وشوکت کے ساتھ اپنے ملک پر حکومت کررہی تھی۔ حضرت سلیمانؑ نے اسے اسلام کی دعوت دی۔وہ اپنے لشکریوں کے ساتھ ان کے دربار میں حاضر ہوئی تو وہاں کی عظمت وشوکت دیکھ کر مبہوت رہ گئی۔ بارگاہ الہی میں حضرت سلیمان کی شکر گزاری دیکھ کر اس کا دل بھی مائل بہ اسلام ہوگیا اوروہ پکار اٹھی :
رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمان للہ رب العالمین.(النمل: 44)
’’اے میرے رب!(آج تک) میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کرتی رہی اوراب میں نے سلیمانؑ کے ساتھ اللہ رب العالمین کی اطاعت قبول کرلی‘‘۔
حضرت عیسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل کے سامنے توحید خالص کی دعوت پیش کی، مگر ان میں سے بیش تر لوگوں نے ان کی دعوت کا انکار کیااوران کی جان کے درپے ہوگئے۔ صرف چند لوگوں کو ایمان کی توفیق ہوی، جب حضرت عیسیٰ ؑ نے اعلان کیا، کہ اللہ کی راہ میں میری کون مددکرتاہے تو اہلِ ایمان پکاراٹھے : نحن انصار اللہ آمنا باللہ واشھد بانا مسلمون.(آل عمران:52)
’’ہم ہیں اللہ کے مددگار ، ہم اللہ پر ایمان لائے، آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلم(اللہ کے آگے سر اطاعت جھکانے والے) ہیں‘‘۔
یہ محض چند مثالیں ہیں جن سے واضح ہوتاہے کہ اللہ کے نیک بندے، خواہ وہ انبیاء ہوں یاغیرانبیاء، ہمیشہ صرف اللہ کے آگے سرجھکانے والے اوراس کے حکموں پر چلنے والے تھے۔ قرآن صراحت کرتاہے کہ یہ سارے لوگ شاہراہِ اسلام پر گامزن تھے۔
حضرت محمد ا دین اسلام لانے والے آخری پیغمبر ہیں
اللہ تعالی نے ہدایت کے لیے مختلف اوقات اور مختلف علاقوں میں اپنے برگزیدہ بندے بھیجے۔ سب سے آخر میں حضرت محمد ا کو مبعوث کیا۔ یہ سارے پیغمبر اللہ کا دین اسلام لے کر آئے تھے۔ بعض حضرات دانستہ یا نادانستہ طورپر حضرت محمد ا کے لائے ہوے دین کو ’محمڈنزم‘(Muhammadanism)کہتے ہیں، حالاں کہ یہ تعبیر بالکل غلط ہے۔ حضرت محمد ا بھی اسی دین کی طرف دعوت دینے والے تھے جس کی طرف حضرت نوحؑ ، حضرت ابراہیمؑ ، حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت عیسیٰؑ اوردوسرے پیغمبروں نے دعوت دی تھی۔ گزشتہ پیغمبر جو دین لے کر آئے تھے ، اس میں ان کے پیروکاروں نے بعد میں من چاہی تحریفات کرلیں اوراس میں سے کچھ چیزیں نکال کر اورکچھ چیزیں اپنی طرف سے شامل کرکے نئے نئے مذاہب بنالیے، لیکن حضرت محمد ا کا لایا ہوا دین بے کم وکاست موجود اورہر طرح کی تحریفات سے محفوظ ہے۔
حضرت محمد ا کی بعثت کے زمانے میں گزشتہ مذاہب کے ماننے والے موجود تھے۔ ان کی اکثریت نے آپ کی دعوت کو رد کیا،لیکن ان میں کچھ سلیم الفطرت لوگ ایسے تھے جنہوں نے قرآن کی آیات سنیں تو فورا جان گئے کہ یہ اللہ تعالی کاکلام ہے۔ ان پر واضح ہوگیا کہ رسول اکرم ا جن باتوں کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہ برحق ہیں اورخود پہلے سے ان پر ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مشرف بہ اسلام ہونے میں دیر نہیں کی:
الذین آتیناھم الکتاب من قبلہ ھم بہ یومنون.واذا یتلی علیھم قالوا آمنابہ انہ الحق من ربنا ان کنا من قبلہ مسلمین.(القصص:52،53)
’’جن لوگوں کو اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں اورجب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم اس پر ایمان لائے ، یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں‘‘۔
اسلام کسی نسلی مذہب کا نام نہیں
اسلام کے بارے میں یہ تاثر دیاجاتاہے کہ یہ مسلمانوں کا نسلی مذہب ہے۔ انہوں نے ہدایت، نجات، کامیابی اوراللہ کے اجر وانعام کو اپنے مذہب کے ساتھ خاص کرلیاہے۔ یہ تاثر صحیح نہیں ۔ اسلام نام ہے اللہ کی جناب میں خود سپردگی ، اس کے احکام کی مکمل اطاعت اوراس کے بتائے ہوے راستے پر چلنے کا۔ جو شخص بھی اس معیار پر پورا اترے گا وہ اللہ تعالی کے اجر وثواب کامستحق ہوگا۔ اورا گر نسلی مسلمان اسلام کے تقاضوں پر عمل نہیں کریں گے تو وہ قیامت میں اس کی سزا بھگتیں گے۔ یہود مدعی تھے کہ صرف وہی راہِ ہدایت پر ہیں اوراللہ تعالی کے انعامات پر صرف انہی کی اجارہ داری ہے۔ ایساہی دعوی عیسائی اپنے بارے میں کرتے تھے۔ ان سے کہاگیا کہ یہ ان کی خام خیالی ہے جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ ان کے سامنے یہ اصولی بات پیش کی گئی :
بلی من اسلم وجھہ للہ وھو محسن فلہ اجرہ عند ربہ ولاخوف علیھم ولاھم یحزنون.(البقرہ: 112)
’’حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اورعملًا نیک رَوِش پر چلے اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کااجر ہے اورایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یارنج کاکوئی موقع نہیں‘‘
اسلام دین فطرت ہے ، جس طرح آسمانوں اورزمین کی ہر چیز اپنے پیداکرنے والے کی مرضی کے مطابق کام انجام دے رہی ہے اوراس نے جن اصولوں اورضابطوں کا اسے پابند کردیاہے ان سے سرمو انحراف نہیں کررہی ہے، اسی طرح انسان کی فطرت کا بھی تقاضا ہے کہ وہ اللہ کے حکموں پر چلے اورجو طریقۂ زندگی اس کے لیے متعین کیاہے اس پر ٹھیک ٹھیک عمل کرے۔ جو شخص اس راہ سے انحراف کرتاہے اورزندگی گزارنے کے من مانے طریقے اپناتاہے وہ دراصل اپنی فطرت سے بغاوت کرتاہے :
افغیردین اللہ یبغون ولہ اسلم من فی السماوات والارض طوعا وکرھا الیہ یرجعون.(آل عمران: 83)
’’اب کیایہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ)چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان وزمین کی ساری چیزیں چاروناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اوراسی کی طرف سب کو پلٹناہے‘‘۔
صرف اسلام ہی ہدایت اوراخروی نجات کا ضامن ہے
جب یہ واضح ہوگیا کہ دیگرمذاہب اسلام سے انحراف کے نتیجے میں پیداہوئے ہیں تو انہیں اختیار کرکے انسان اللہ تعالی کی خوش نودی ، ہدایت اورنجات سے ہمکنار نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام کو دین کی حیثیت سے اختیار کرے۔ صرف دائرہ اسلام میں داخل ہوکر ہی وہ مرنے کے بعد کی زندگی میں کامیاب وکامران ہوسکتاہے۔ قرآن کہتاہے :
ومن یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخاسرین.( آل عمران: 85)
’’اس فرماں برداری(اسلام) کے سواجو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہر گز قبول نہ کیاجائے گا اورآخرت میں وہ ناکام اور نامراد رہے گا‘‘۔
اسلام ہی وہ شاہراہ ہے جو انسان کو منزل تک پہنچاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مذاہب کی مثال پگڈنڈیوں اور بھول بھلیوں کی ہے جن میں پھنس کر انسان صراط مستقیم سے بھٹک جاتاہے اورمنزل اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے:
قل اندعو من دون اللہ مالا ینفعناولایضرنا ونرد علی اعقابنا بعد اذ ھدانا اللہ کالذی استھوتہ الشیاطین فی الارض حیران لہ اصحاب تدعونہ الی الھدی ائتنا قل ان ھدی اللہ ھو الھدی وامرنا لنسلم لرب العالمین.(الانعام: 71)
’’اے نبی ،ان سے پوچھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان، اورجب کہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھاچکاہے تو کیااب ہم الٹے پاؤں پھر جائیں؟ کیاہم اپناحال اس شخص کا ساکرلیں جسے شیطانوں نے صحرامیں بھٹکادیاہو اور وہ حیران وسرگردان پھر رہاہو، دراں حالے کہ اس کے ساتھی اسے پکاررہے ہوں کہ ادھر آ،یہ سیدھی راہ موجود ہے، کہو’’حقیقت میں صحیح رہنمائی تو صرف اللہ ہی کی رہنمائی ہے اوراس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالک کائنات کے آگے سراطاعت خم کردو‘‘۔
اسلام کی یہ دعوت بالکل دوٹوک اور بے آمیز ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد ا نے جب یہ اعلان کیاکہ انسانوں کی ہدایت اورنجات صرف اسلام کی پیروی میں ہے تو دیگر مذاہب کے علم بردار آپ سے حجت اورمباحثہ کرنے لگے اوراپنے اپنے مذہب کی حقانیت کے دعوے کرنے لگے۔ اس موقع پر رسول اکرم ا کو ہدایت کی گئی کہ اپنی دعوت صاف صاف پیش کردیں اورمخالفین سے لاحاصل بحثوں میں نہ پڑیں:
فان حاجوک فقل اسلمت وجھی للہ ومن اتبعن وقل للذین اوتوا الکتاب والامین أاسلمتم فان اسلموا فقداھتدوا وان تولوا فانما علیک البلاغ واللہ بصیر بالعباد۔(آل عمران: 20)
’’اب اگر (اے نبی) یہ لوگ تم سے جھگڑاکریں تو ان سے کہو: ’’میں نے اورمیرے پیروؤں نے توا للہ کے آگے سرتسلیم خم کردیاہے’’پھر اہل کتاب اورغیراہل کتاب دونوں سے پوچھو‘‘ کیاتم نے بھی اسی کی اطاعت وبندگی قبول کی؟‘‘ اگر کی تو وہ راہ راست پاگئے ، اوراگر اس سے منہ موڑا تو تم پر صرف پیغام پہنچادینے کی ذمہ داری تھی، آگے اللہ خود اپنے بندوں کے معاملات دیکھنے والاہے‘‘۔
اس تفصیل سے واضح ہواکہ اسلام کوئی نسلی مذہب نہیں ہے، بلکہ اس کی دعوت تمام انسانوں کے لیے عام ہے۔ دنیاوآخرت دونوں میں ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ اسے قبول کرلیں اوراس کے سایے میں آجائیں۔

تبصرے بند ہیں۔