مضامین فلم: بھولی بسری باتیں، کچھ حقائق، کچھ نئے انکشافات

مبصر:  وصیل خان 

نام کتاب:  مضامین فلم
مصنف و ناشر:  محمد خالد عابدی
قیمت:  300/- روپئے
صفحات : 192
ملنے کا پتہ:  مکتبہ عابدیہ ۵۴۵سول آرام ہاؤس ۵۳،ہوا محل روڈ بھوپال ( ایم پی ) موبائل : 09826532258

ایک زمانہ تھا جب تفریحات کے ذرائع محدود تھے اس وقت فلم کو تفریحات کے میدان میں سب سے بڑا درجہ حاصل تھالوگوں کی بیشتر تعداد فلموں سے حظ اٹھایا کرتی،کام کاج کی مشغولیات سے ذرا بھی فرصت ملتی تو خصوصاً نوجوانوں کی ٹولیاں فلمیں دیکھنے یا فلموں کے تعلق سےبات چیت کو معراج گفتگوسمجھا کرتی تھیں لوگوں کی زندگیوں میں فلموں کے اثرات اتنے زیادہ تھے کہ وہ فلم اداکاروں کو ہی اپنا آئیڈیل سمجھتے، لباس چال ڈھال یہاں تک کہ بات چیت میں بھی نوجوان ان کی تقلید کو ہی باعث مسرت سمجھتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ لکھنے پڑھنے والوں کا بھی ایک طبقہ فلموں سے وابستہ ہوگیا  بعد میں فلمی صحافت کے نام سے متعدد رسائل و اخبارات وجود میں آنےلگے جو صرف فلموں کی نمائندگی کیا کرتے۔

ایک طرف اگر انگریزی میں پکچر پوسٹ، اسکرین، سنے بلٹز جیسے متعدد معیاری رسائل  تھے تو دوسری طرف اردو میں شمع، روبی اور کہکشاں جیسے مستند جریدے بڑے طمطراق سے شائع ہوا کرتے تھے لیکن حالات کبھی یکساں نہیں رہتے، رفتہ رفتہ انٹرنیٹ کا زمانہ آیا تو جس طرح مختلف شعبوں میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئیں ، فلموں کی بھی ماہیت تبدیل ہوگئی اور سنیماگھروں میں شائقین کی وہ بھیڑ باقی نہ رہی، تفریحات کے اتنے پہلو نکل آئے کہ فلموں کا کریز بے حد کم ہوگیا، فلمیں آج بھی بنتی ہیں اور شائقین بھی موجود ہیں اس کے باوجود اس شعبے سے وہ جنون رخصت ہوگیا جو ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ پریس شو، پریمئرشواور تھیٹروں میں سلورجبلی اور چیئریٹی شوکی تقریبات کی وہ دھوم بھی ختم ہوگئی جو کبھی نہایت اہتمام اور جوش و خروش سے منعقد کی جاتی تھیں ۔ مندرجہ بالا باتیں اس لئے یاد آگئیں کہ ابھی حال میں ’ مضامین فلم ‘ کے عنوان سے خالد عابدی کی کتاب ہمیں موصول ہوئی، خالد عابدی آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ایک فلمی صحافی ہیں جو ایک طویل عرصے سے اس موضوع پر لکھ رہے ہیں ۔

غالباً ۲۰۰۹میں ان کی پہلی کتاب ’ہماری فلمیں ‘ کے عنوان سے نہ صرف منظر عام ہوئی تھی بلکہ اسےخاطر خواہ پذیرائی بھی ملی تھی ’بقول مصنف اس کتاب پر انہیں متعدد ستائشی خطوط بھی موصول ہوئے تھے۔ سابقہ کتاب تو ہم نہیں دیکھ سکے لیکن دوسری کتاب کا مطالعہ سابقہ کتاب کے معیار کا پتہ ضرور دیتا ہے۔ زیر نظر کتاب میں واقعات نگاری میں صحت کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ وہ گوشے بھی سامنے آجائیں جو ابھی تک نگاہوں سے اوجھل رہے ہیں جن پر دیگرفلمی صحافیوں نے کم ہی توجہ دی ہے۔

 کتاب میں کچھ ایسی ادبی شخصیا ت کا بھی تذکرہ موجود ہے جنہوں نے ادب کے علاوہ فلموں پر بھی اپنے اثرات مرتب کئے ہیں اور ادب کی صحت مند آبیاری کی ہے، ان میں خمار بارہ بنکوی، فیض احمد فیض، تاج بھوپالی، آغاجانی کاشمیری، جاں نثار اختر، کمال امروہوی، ساحر لدھیانوی، مجروح سلطانپوری، راجندر کرشن، شکیل بدایونی، ایس ایچ بہاری، حسرت جے پوری، کیفی اعظمی، راجہ مہدی علی خاں ، تنویر نقوی، نخشب چارچوی، کیف بھوپالی اور مہندرناتھ وغیرہم شامل ہیں جن کی فلمی و ادبی خدمات مسلم ہیں لیکن نئی نسل انہیں فراموش کرتی جارہی ہے۔ ایک طرح سے یہ کتاب ماضی سے حال کو جوڑنے میں کامیاب ہے۔ کچھ انکشافات ایسے بھی ہیں کہ اگرمصنف ان کا تذکرہ نہ کرتے تو موجودہ نسل ان سے  ناآشنا ہی رہتی۔ مصنف نے ان کا تذکرہ کرکے ماضی اور حال کو مربوط کرنے کا اہم کام کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ موصوف نے اپنےموضوع سے پورا پورا انصاف کیا ہے اور ایک ایسی کتاب سے متعارف کیا ہے جس کے توسط سے قاری فلموں کے ماضی اور حال سے پوری طرح ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔

جہاں تک زبان واسلوب کا تعلق ہے مصنف کی کمزوری صاف نظر آتی ہے، اظہار بیان میں وہ چمک دمک اور شوخی نہیں ہے، اگر مصنف اس جانب بھی توجہ مبذول کرتے تو کتاب کا ادبی رخ بھی نکھرجاتا اور اس کی جاذبیت اور تاثیر مزید بڑھ جاتی۔ مجموعی طور پر فلمی شائقین کیلئے یہ کتاب بہر صور ت معلومات افزا اور قابل مطالعہ ہے۔

تبصرے بند ہیں۔