مطا لعۂ کتاب : اہمیت وضرورت اورفوائد

وخیرجلیس فی الزمان کتا ب 

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی، نئی دہلی 
جب مطالعہ کا لفظ بولاجاتاہے تواس کا عام مفہوم غیردرسی کتابوں کا پڑھناپڑھانالیاجاتاہے۔ ایک طالب علم، عالم اورداعی کے لیے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ بڑے لوگوں کی سوانح کا مطالعہ کیاجاتاہے تومعلوم ہوتاہے کہ ان کی شخصیت سازی میں دوسرے عوامل کے ساتھ ہی مطالعہ کا بڑاکردارہوتاہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے بڑے انسانوں کی صحبت کے اثرات حاصل ہوجاتے ہیں بلکہ یہ بھی ہوتاہے کہ بڑی شخصیتوں کے نہ رہنے پر ان کی کتابیں ہی ایک حدتک ان کا بدل بن جاتی ہیں۔اس لیے مطالعہ کرنابہت اہم ہے اورساتھ ہی ہمارے لیے یہ جاننابھی اہم ہے کہ انسان کون کون سی کتابیں پڑھے اوران کا مطالعہ کرے۔ جب ہم مطالعہ کالفظ بولتے ہیں توعموماًاس کے مفہوم میں درسی کتابوں کے علاوہ دوسرے علوم کامطالعہ آتاہے۔ جس میں عام معلومات، ہمارے اپنے مضمون سے متعلق معلومات، عام انسانی تاریخ، مختلف زبانوں، مختلف قوموں، تہذیبوں اورمختلف افکارونظریات کے متعلقات سب آجاتے ہیں۔اگرہم دین کے طالب علم ہیںیاعالمِ دین ہیں اوراس کی نشرواشاعت کا کام کررہے ہیں اگرہم دین کے داعی ہیں، وضعی افکارونظریات کے ناقداوران کے مقابلہ میں اسلام کی فکری برتری ظاہرکرنے کا نشانہ رکھتے ہیں۔اگربندگان خداکوتوحیدکی دعوت دینے، آخرت کے انجام سے ڈرانے کا مشن رکھتے ہیں، دنیاوی زندگی کو خدائی نظام کے تحت فلاح وکامرانی سے ہمکنارکرنے کی طرف انسانوں کوبلانے کا مشن رکھتے ہیں توان تمام امورمیں مطالعہ ہمارے لیے بے حدمفیدومعاون چیز ثابت ہوتاہے۔ اسی طرح استادومربی کا انسان کی شخصیت سازی میں بڑاکردارہوتاہے، کتا ب بھی بے زبان استادہوتی ہے۔ استادتوعمرطبعی پاکراللہ کوپیاراہوجاتاہے مگرکتاب کودوام مل جاتاہے کہ وہ سیکڑوں وہزاروں سال تک لوگوں کومستفیدکرتی رہتی ہے۔
تاریخ اسلام کا ہرطالب علم جانتاہے کہ نبی ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب امی قوم تھے اورپورے عرب میں لکھنے پڑھنے کا کوئی خاص رواج نہ تھامگرجب قرآن کا نزول ہواتواس کی پہلی ہی آیت اقرأ(پڑھو)کے پیغا م کولے کرآئی۔ اس نے علم بالقلماورن والقلم ومایسطرون کہ کرقلم کے ذریعہ لکھنے کی حوصلہ افزائی کی اورعلم واشاعت علم کی ایک عظیم الشان تحریک اٹھادی جواپنے جلومیں وہ اسلامی تہذیب لے کرآئی جس کا نشانِ امتیاز ہی پڑھنااورپڑھاناتھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس تحریک میں خودبڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔قرآن کریم کوپوری طرح آپؐ کے عہدمیں ہی لکھ کراورتدوین کراکرمحفوظ کردیاگیا۔احادیث کے مختصرذاتی مجموعے بھی بعض صحابیوں نے مرتب کیے۔
صدراول میں پڑھنے پڑھانے، کتابیں لکھنے اوران کی اشاعت کا عمومی ماحول بن گیااورایساماحول سارے معاشرہ میں عام ہوگیاکہ لوگ کتابیں پڑھنے میں فخرمحسوس کرنے لگے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ الٰہی تصورحیات کے جلومیں جوتحریک اکتشاف قرآن کے دیے ہوئے علمی منہج سے برپاہوئی، جووحی ربانی اورانفس وآفاق میں غوروفکرسے عبارت تھا۔ اس نے انسانی ذہن کو استقرائی طریقہ سے نکال کراسے استخراجی منہج سے آشنا کیااورانسانی عقل کوتجربہ ومشاہدہ اورتحلیل وتجزیہ کی راہ پر ڈال دیاجس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے روم اورہندویونان کے قدیم علوم کو اپنی آغوش میں لے لیا، یوں کہیے کہ انسانی تہذیب کی کل جمع پونجی تحلیل وتجزیہ کی میز پر لے آئی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے عالم اسلام کا وسیع وعریض خطہ اکتشافی تمدن کی ضیاء باریوں سے جگمگا اٹھا۔
اگراسلامی تہذیب کوامام ابوحینفہ، شافعی، مالک اوراحمدبن حنبل، بخاری ومسلم پر ناز ہے۔ وہ ابن حزم، ابن تیمیہ، امام غزالی اورابن خلدون پر فخرکرتی ہے توالکندی، ابن سینا،  ابوبکر زکریا رازی، ابن الہیثم، عباس بن فرناس، الخوارزمی، جابربن حیان، البتانی، ابوریحان البیرونی، ابن رشد، ابن نفیس، ابوعبیدالجوزجانی، عبدالرحمن، الخازنی، کمال الدین الفارسی، ابوالقاسم الزہراوی، یحی المغربی، جمشید الکاشی،، یاقوت الحموی، ابن جبیراندلسی، ابن بطوطہ،  شریف الادریسی، ابن العوام، ابن بطلان، ابن مسکویہ اور تقی الدین اوران جیسے سینکڑوں علماء واساطین پربھی فخرکرسکتی ہے جوکہ علوم وفنون کی دنیامیں اسلامی تہذیب کے نمائندے تھے کہ آج کی ساری سائنسی ترقی اورچمک دمک جن کی کاوشوں کی رہین منت ہے۔ ان میں سے کتنے تھے جوقرآن وحدیث اورفقہ جیسے علوم کے بھی ماہرتھے کہ تب علم دین اورعلم دنیاکی ثنویت قائم نہ ہوئی تھی اور یہ علماء علمِ دنیابھی دینی جزبہ اورضرورت کے تحت ہی حاصل کرتے تھے۔لیکن افسوس غیروں کو توچھوڑیے آج خودمسلمانوں کی نئی نسلیں بھی ان کے نام اورکام سے واقف نہیں۔  ان اصحاب علم وفکرواختراع کے کتنے ہی کارنامے تومغربی علماء وسائنس دانوں کی طرف منسوب کردیے گئے ہیں۔  نتیجہ یہ ہے کہ آج اسلام اورسائنس میں دنیاکو تضادنظرآتاہے کہ ر وایتی علماء اسلام کے اجارہ دار بن کررہ گئے ہیں۔
اسی زمانہ کی با ت ہے جب اسلامی تہذیب کا عروج تھاکہ ایک مشہورآدمی مہلب نے اپنے بیٹوں کووصیت کرتے ہوئے کہا:بیٹو!بازارمیں دوہی جگہ ایسی ہیں جہاں تم کھڑے ہوسکتے ہو، کھانابنانے والے کی دکان یاجلدساز کی دکان‘‘حسن اللولؤکہتے ہیں:میں نے 40سال اس عالم میں گزارے کہ سونے، قیلولہ کرنے یایونہی آرام کے لیے ٹیک لگانے کے وقت بھی میرے سینہ پر کتاب رکھی رہتی تھی‘‘۔ابوالجہم کہتے ہیں کہ :کتاب پڑھ کروہ سرمستی طاری ہوتی ہے جواورکسی چیز کی لذت یاحصول کامیابی سے بھی زیادہ شدیدہوتی ہے۔ ‘‘مجھے جب کوئی اچھی اورمفیدکتا ب جاتی ہے توپڑھتے ہوئے یہ دیکھتارہتاہوں کہ کتنے ورق ہوگئے، کہ ڈرلگارہتاہے کہ کتاب ختم ہوجائے گی اورمیں اس کے فائدوں سے محروم ہوجاؤں گا۔۔۔کتاب بڑی اورضخیم ہوتوپھرمیری خوشی کا کہاپوچھنا!
مطالعہ کے فائدے:

1۔ مطالعہ میں وقت لگانے سے لایعنی چیزوں میں پڑنے سے آدمی بچ جاتاہے۔ ساتھ ہی وسوسے، رنج وتفکرات دورہوجاتے ہیں۔
2۔ گفتگواوربات چیت کا طریقہ آجاتاہے، زبان فصیح ہوجاتی ہے اوربولنے یالکھنے میں غلطیاں نہیں ہوتیں۔

3۔ معلومات بڑھتی ہے جس کے ذریعہ عقل روشن ہوتی ہے دل کی صفائی ہوتی اورذہن کھلتاہے۔
4۔علم میں اضافہ ہوتاچلاجاتاہے جس کے لیے قرآن رب زدنی علماکی دعاکرناسکھاتاہے، نیز اس سے فہم کوجلاملتی ہے۔
5۔ مشاہیرکے سوانح، تجربوں، حکیموں کی حکمت کی باتیں اورعلما کے اجتہادفکرسے واقفیت ہوتی ہے۔
6۔ علم ہضم کرنے کا ملکہ پیداہوتاہے اورمختلف ثقافتوں اورتہذیبوں سے آشنائی ہوتی ہے جن سے انسان کی زندگی میں ہمیشہ واسطہ پڑتارہتاہے۔ کتاب بہترین واعظ، سچی دوست سب سے مؤثرتنبیہ کرنے والی اورزندگی کی بے لوث ساتھی ہے۔ عربی میں مثل مشہورہے :وخیرجلیس فی الزمان کتاب(کتاب سب سے بہترین ہم نشین ہے)
مطالعہ کے لیے انتخا ب: مطالعہ کے لیے بہترین وقت علی الصباح، عصربعداورسونے سے پہلے کا بتایاجاتاہے، ویسے یہ اپنے اپنے ذوق اورحالت وسہولت پر منحصرہے۔ تاہم آج کتابوں کی بھرمارہے اورزیادہ ترکتابیں بچوں اورنوجوانوں کے اخلاق کوبگاڑنے والی ہیں۔پھرسب کتابوں کوپڑھابھی نہیں جاسکتااس لیے کچی عمرکے نوجوان کے لیے مطالعہ کرنے کے لیے کسی بھی مضمون کی نمائندہ کتابوں اورعمدہ تحریروں کا انتخاب کرناچاہیے۔جس میں استاد، ساتھی اوربزرگ رہنمائی کرسکتے ہیں۔مثلااردوبہتربنانے کے لیے بلکہ فکرصالح پیداکرنے کے لیے بھی نوخیز طلبہ کے لیے مائل خیرآبادی کابچوں کا سیٹ بہت مددکرتاہے۔
البتہ جن طلبہ کوپڑھنے پڑھانے اورمطالعہ کا وافرذوق ملاہے وہ خوداپنے ذوق کے مطابق انتخاب کرسکتے ہیں۔میرے تجربہ میں اردوکی حدتک ابن صفی کے ناول زبان بہتربناتے اورنسیم حجازی کے تاریخی ناول پڑھنے والے کے اندرتاریخ کا گہراشعورپیداکرتے ہیں۔مطالعہ کا شوق پیداکرنے اوراس کے فائدے عام کرنے کے لیے گروپ اسٹڈی یااجتماعی مطالعہ کا طریقہ بھی اپنایاجاسکتاہے۔ کسی ایک کتاب یاکسی خاص موضوع کوگفتگواورمذاکرہ کا موضوع بنانابھی اس سلسلہ میں مفیدہواکرتاہے۔ اس کے علاوہ مطالعہ کا ذوق پیداکرنے کی بہت سی نئی تکنیکیں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ہمارامذہبی طبقہ ناولوں اورکہانیوں سے بہت زیادہ الرجک ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اچھے اورنمائندہ ناول فکرسازی میں زبردست کرداراداکرتے ہیں۔ہمارے مدارس میں توتعصب کا یہ حال ہے کہ اگرطالب علم کے پا س جماعت اسلامی کا لٹریچریااس قبیل کی کوئی چیز نکل آئے تویہی ’’جرم ‘‘مدرسہ سے اس کے اخراج کی کافی وجہ بن جاتی ہے۔
گلاتوگھونٹ دیااہل مدرسہ نے ترا کہاں سے صدالاالہ الااللہ !
پرانے زمانہ میں طبقہ علما اس لحاظ سے بہت ممتازہواکرتاتھاکہ پڑھنے لکھنے، باخبررہنے اوردنیاکے احوال کا ان کا علم معاشرہ کے دوسرے طبقات سے بڑھاہواہوتاتھا۔ افسوس کہ آج معاملہ بالکل الٹ ہوگیاہے۔ آج علما چونکہ معاشرہ کے حاشیہ پر جی رہے ہیں اوراسی پر قانع ہیں اس لیے آج یہ طبقہ سب سے کم پڑھنے والا، سب سے زیادہ بے خبر، افواہوں میں جینے والااورفکروتحقیق سے گریزاں ہے۔مستثنیات کی بات دیگرہے۔ اس چیز کوختم کرنے کے لیے نوجوان علما کوآگے آناچاہیے خاص طورپران کوجوتحریک اسلامی سے یاطلبہ تحریکوں سے وابستہ ہوں اوراپنی باخبری اوروسیع مطالعہ کے ذریعہ اسلامی دعوت اوراسلامی فکر کی خدمت کرنی چاہیے۔
دوسرے مذاہب اورتحریکات اوراسی طرح دوسری شخصیات کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنے کے لیے First hand نالج اورراست مطالعہ کی ضرورت ہے۔ آج کی علمی دنیامیں کوئی چیزاس وقت تک معتبرنہیں ہوتی جب تک آپ جس پر نقدکررہے ہوں اس کوبراہ راست اسی کی کتابوں اورتحریروں، بیانات اورتقاریروغیرہ کی روشنی میں خودپڑھ نہ لیں۔اسلام کے دورعروج میں ہم نے اس فن کوبھی برت کردکھایا۔ابن حزم اورشہرستانی نے دوسرے مذاہب اوراقوام وملل پر کتابیں لکھیں توان مذاہب اوراقوام وتہذیبوں کاپہلے گہرامطالعہ کیایہی وجہ ہے کہ آج ان کی تحریریں مرجع کا کام دیتی ہیں۔ہندوستان کے مذاہب اورفلسفوں کوجاننے کا دنیاکے سامنے پہلاذریعہ ابوریحان البیرونی کی کتاب الہندتھی جس کے لیے اس نے ہندوستان آکرسنسکرست سیکھی، کئی ہندوپنڈتوں اوروِدوانوں کی شاگردی اختیارکی۔ ہندکے مختلف مراکزعلم اورتیرتھ استھانوں کا دورہ کیاتب جاکروہ کتاب تیارہوئی جس کا لوہاآج بھی علمی دنیامیں ماناجاتاہے۔مولانامودودی نے اسلام پراورفکرمغرب کے نقدپر قلم اٹھانے سے پہلے مغربی افکاروفلسفوں کی ’’اچھی خاصی لائبریری ‘‘ذہن میں اتارلی تھی تب جاکران کا قلم اتناطاقتوربناکہ آج بھی مسلم دنیامیں بہت زیادہ پڑھے جانے والے مصنفوں میں سے ایک ہیں۔
اس کے بالمقابل آج ہم دورز وال سے گزررہے ہیں،  ہمارے مدارس اوردارالافتاؤں اورعلماء کے درمیان ایک بہت ہی غلط اوربالکل غیرعلمی رویہ دوسرے مذاہب،  مسالک، یادوسری جماعتوں وشخصیات کے بارے میں بالواسطہ مطالعہ اورسنی سنائی باتوں کے ذریعہ رائے قائم کرنے کا ہے۔ مثال کے طورپرہم پاتے ہیں کہ ہماراہرعالمِ دین مغرب کولعن طعن کرتااورگالیاں دیتاہے لیکن اس کوپڑھنے اورجاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ ہمارے علما ء کی بڑی تعدادمولانامودودی ؒ اورجماعت اسلامی کی فکرکے بارے میں بڑی ناقص معلومات رکھتی ہے کیونکہ وہ اس کے لیے براہ راست مولاناکی تحریریںیاجماعت کا لٹریچرنہیں پڑھتے بلکہ مولاناکے خلاف جولٹریچرلکھاگیاہے مثلافتنہ مودودیت، مودودی خمینی دوبھائی تحفۂ مودودیہ وغیرہ جیسی غیرعلمی اورسوقیانہ کتابوں کوپڑھ کراپنی رائے بناتے ہیں۔اسی طر ح مولاناوحیدالدین خاں کی فکرکوجاننے کے لیے براہ راست ان کی تحریریں نہیں پڑھیں گے بلکہ ان کے خلاف لکھی گئی معاندانہ کتابوں سے ان کے بارے میں رائے قائم کریں گے۔ اسی طر ح سرسیداحمدخاں، جاویداحمدغامدی اوردوسرے مفکروں کے بارے میں عموما ان کے مخالفین کی کتابوں کوپڑھ کررائے قائم کی جاتی ہے جواکثراوقات غلط ہوتی ہے۔یہ ٹرینڈختم ہوناچاہیے۔ذہین آدمی لکیرکا فقیرنہیں ہوتا، وہ اگراپنے مطالعہ وتحقیق سے کوئی رائے قائم کرتاہے، قرآن وسنت سے دلیل دیتاہے تواس کی بات کوسنناچاہیے اس کے دلائل کودیکھناچاہیے اس کے بعداس کورَدیاقبول کرناچاہیے۔لیکن ہمارے ہاں اولِ وہلہ میں ہی اس کومنکرِحدیث کہ دیں گے۔ اوربعض ستم ظریف اس کویہودیوں کا ایجنٹ، مغربیت زدہ، مستشرقین کا زلہ رباوغیرہ جیسے القاب سے اس کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کریں گے۔پھراخبارات ومجلات میں مراسلہ بازی ہوتی ہے ا س کے خلاف مضامین لکھے جاتے ہیں اورزیادہ تراس کے دلائل کے جواب میں نہیں بلکہ ذاتیات پر کیچڑاچھالنے کے لیے۔ یوں منکرحدیث، منکرِقرآن اورنہ جانے کیاکیاکہ کر اس طرح کے لوگوں کوکنارہ اورحاشیہ پر لگادینے کی کوشش ہوتی ہے۔اس طرح دین اورعلمِ دین کے یہ نادان دوست ا س کے ساتھ بدترین زیادتی کربیٹھتے ہیں۔ اوریہ سب نتیجہ ہے براہ راست مطالعہ نہ کرنے کا اورتحقیق کی کمی کا۔ہمارے نزدیک یہ ٹرینڈرکناچاہیے کیونکہ اس سے امت میں صرف انتشارہی پھیلتاہے اورفکراسلامی میں جمود وٹھیراؤپیدا ہوجا تا ہے۔  جس کوعلم کی روشنی، مطالعہ کی عام روش اورتحقیق کے رجحان کی حوصلہ افزائی کے ذریعہ ہی دورکیاجاسکتاہے۔
آج فیس بک، واٹس اپ، ٹویٹراورسماجی رابطوں کی دوسری سائٹوں نے کتاب پڑھنے کے رجحان کوشدیدنقصان پہنچایاہے۔ نئی نسل پوری کی پوری ان سائٹوں کی یرغمال بن کررہ گئی ہے۔ ہرنوجوان اورلڑکا اپنے موبائل کا اسیرہے۔ بلکہ موبائل کے بغیرزندگی کا تصورمحال ہے۔ انگریزی میں ایک بارکسی نوجوان لڑکی نے ایک بلاگ لکھا:Life Without BB(یعنی بلیک بیری کے بغیرزندگی )چنددن اس کے پاس موبائل نہ رہایاخراب ہوگیاتواس پر کیابیتی یہ اس نے اپنے بلاگ میں لکھاتھا۔انٹرنیٹ پر آج معلومات کا سیلاب ہے۔ پوری دنیاآپ کی فنگرٹپس پرہے۔ای لرننگ کا زمانہ ہے۔ یونیورسٹیاں انٹرنیٹ کے ذریعہ فاصلاتی تعلیم دے رہی ہیں۔اس سب کے باوجودنہ کتاب کی اہمیت کم ہوئی ہے اورنہ ہوگی۔ مشرق میں مطالعہ کا رواج کم ہواہے مگرمغرب میں اس کے برعکس کتاب خوانی انٹرنیٹ کے زمانہ میں اوربڑھی ہے۔اصل مسئلہ ذہنیت کا ہے۔ اگرذہن بیدارہو، زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن ہو توجدیدٹیکنالوجی کوہم اپناخادم بناسکتے ہیں اورہمارے اوپربے حسی طاری رہی توپھرمشینوں کے غلام اورٹیکنالوجی کے بندۂ بے دام بن کررہ جائیں گے، جیساکہ آج عمومی مشاہدہ کیاجارہاہے۔ مطالعہ نہ کرنے اورفضولیات میں اپناوقت بربادکرنے کی لت سب سے زیادہ مسلمانوں کولگی ہوئی ہے ان میں بھی عربوں کے پاس چونکہ بے پناہ دولت ہے اسی لیے تعیش کے سامان بھی اتنے ہی زیادہ ہیں۔عرب لوگ آج کس طرح بے خبری کی زندگی جی رہے ہیں اس کا اندازہ یوں کیجئے کہ اسرائیل میں عربوں کے بارے میں ایک جوک چلتاہے جس میں کہاگیاہے کہ’’ اگرعربوں سے کسی رازکوچھپاناہو تواس کوکتاب کے اندربندکردوکیونکہ عرب وہ لوگ ہیں جوکتاب کوکھولتے نہیں!!علامہ یوسف القرضاوی نے اپنے ایک مضمون میں عربوں اورمسلمانوں کی اس عمومی صورت حال کاجائزہ لیاہے اورکس طرح امتِ اقرأامتِ لاتقرأ(جس امت کوپڑھنے کا حکم تھاوہ نہ پڑھنے والی قوم) میں بدل گئی ہے اس کا ماتم کیاہے۔

تبصرے بند ہیں۔