معانی و مطالب (تنقیدی مضامین)

’’معانی و مطالب ‘‘پروفیسر فاروق بخشی کے اُن تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً ملک کے اخبارات و رسائل کے صفحہ ء قرطاس کی زینت بنے اور دادِ تحسین حاصل کی۔اس کے علاوہ اس مجموعے میں ایسے بھی مضامین شامل ہیں جو اُردو اکادمیوں کے سمیناروں میں پڑھے گئے۔ معانی و مطالب کے 160؍صفحات میں پروفیسر فاروق بخشی نے کُل 21؍مضامین شامل کیے ہیں۔یہ مضامین جدید ،قدیم اوریادِ ماضی کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔کئی مضامین ایسے بھی ہیں جن میں پروفیسر فاروق بخشی صاحب نے اپنے دل کی باتوں کوقاری سے shareکیا ہے اور کئی مضامیں میں اپنے رفقا کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔بخشی صاحب بنیادی طور پر شاعر ہیں لیکن تنقید میں طبع آزمائی کرنا اُن کا شوق نہیں بل کہ جُنون ہے۔فلِ وقت پروفیسر صاحب موہن لال سُکھاڈیا یونی ورسٹی ،اُدے پور(راجستھان) میں صدر شعبہ ء اُردو ہیں اور تقریباً30برسوں سے درس و تدریس کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔معانی و مطالب (اشاعت جنوری 2014)سے قبل اُن کی مطبوعات ’پلکوں کے سائے‘(شعری مجموعہ 1979)،’اُداس لمحوں کے موسم(شعری مجموعہ2003)،’وہ چاند چہرہ سی ایک لڑکی(شعری مجموعہ2012)،’مفاہیم(تنقیدی مضامین2004)،’ساغر نظامی حیات اور کارنامے(تحقیقی مقالہ2007)،ماضی،ایک تجزیاتی مطالعہ(تنقید2004)،منظرِ عام پر آکر ناقدینِ ادب سے دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔
پروفیسر فاروق بخشی کو یہ فخر حاصل ہے کہ دہلی یونی ورسٹی کے پہلے صدر شعبہ ء اُردو پروفیسر خواجہ احمد فاروقی سے لے کر موجودہ صدر شعبہ ء اُردو پروفیسر ابنِ کنول تک سے ان کے مراسِم ہیں۔اِنھیں یہ بھی امتزاج حاصل ہے کہ جہاں انھوں نے آبروئے میرٹھ ،حفیظ میرٹھی سے اپنے کلام پر اصلاح لی وہیں زمانہ ء طالبِ علمی کے دوران ڈاکٹر بشیر بدر جیسے شہرت یافتہ اور بہ کمال فن کار کی زیرِ نگرانی تربیت پائی۔اگر انھوں نے میرٹھ میں پدم شری حکیم سیف کے دولت کدے پر مشاعرے سُنے تو راجستھان میں مشاعروں کا انعقاد بھی کیا۔الغرض!بخشی صاحب کسی نظریے، تحریک سے بہ قاعدہ وابستہ اور متاثر نہیں رہے۔اس بات کی وضاحت اُنھوں نے خود کی ہے۔البتّہ ان نظریات اور تحریکات سے مثبت پہلو اخذ کرنے کی صلاح وہ دوسروں کو ضرور دیتے ہیں۔پروفیسر صاحب دبستانِ میرٹھ کے نمائندہ شاعر اور نقاد ہیں۔
معانی و مطالِب میں شامِل مضامین کی فہرست میں’ادب اور پاپولر لٹریچر:تفریق اور مماثلت‘،’محبِ وطن اختر شیرانی:تحریکِ آزادی کے تناظر میں‘،’لہو کی بارش میں بھیگی ہوئی کہانیاور اس کا کہانی کار‘،’احساس کا سفیر:وِپُل چترویدی‘،’ہوز مدان سرحدی:ایک مہمہ جہت فن کار ‘،’متاعِ فیضیؔ کے آیئنے میں حکیم فیضیؔ ‘،’مشعلِ آزادی،فکر وفنی تجزیہ‘،’راجستھان کی اُردو شاعری میں حُب الوطنی اور قومی یک جہتی کے عناصر‘،اُٹھ ساقی تلوار اُٹھا،ایک تجزیہ‘؛’تیرے وجود کو پھولوں بھری رِدا لکھوں‘،’ترقی پسند تحریک کی متاعِ گمِ گشتہ:ڈاکٹر عبدالعلیم‘،’تصوف فکر و فلسفہ‘،’جدید اُردو نظم اور تانیثی اظہار کے اسالیب‘،بشیر بدر:میرٹھ کے تناظُر میں‘،ہزار امکان کا شاعر:فرؔ ید پربتی‘،شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا‘،راجستھان میں اُردو تنقید و تحقیق کی آبرو :پروفیسر فیروز احمد‘،بچوں کے افسانہ نگار :خسرو متین‘،یادگارِ دہلی:وقار مانوی‘،سایوں کے سائے میں ش ک نظام‘،اور ’ابنِ صفیء :دلیر مجرم سے آخری آدمی تک‘،قابلِ مطالعہ مضامین ہیں۔
ان مظامین میں قاری کو ورق گردانی کرتے ہوئے پروفیسر فاروق بخشی کی تنقیدی بصیرت و توضحات کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مظامین میں انھوں نے بے باک اور بے لوث طریقے سے اردو ادب کے خاموش اور سرگرم خدمت گزاروں کی تحریروں کوتنقیدی زاوئے سے پرکھا ہے۔بخشی صاحب کے فن کا کمال یہ ہے کہ اپنے رفیقوں اور اساتذہ کے کام اور کلام پر بھی مفکرانہ اور مدبرانہ انداز میں مدلل بحث کی ہے۔یہ تمام باتیں اُن کی ادبی صلاحیت اور رتنقید پر ان کے عبور کی غماز ہیں۔کسی بھی موضوع پر قلم اُٹھانے سے قبل اُس کا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کرنا ان معمول رہا ہے۔اس بنا پر ان کے مظامین میں قارے غوطہ زن ہو جاتا ہے۔ان کا مظمون ’ادب اور پاپولر لٹریچر‘ اس کی عمدہ مثال ہے۔اس مضمون میں پروفیسر فاروق بخشی نے پاپو لر ادب اور عوامی ادب میں تفریق اور مماثلت پر عالمانہ انداز میں بحث کی ہے۔مقبولِ عام ادب اور عوامی ادب کے رقیق رشتے کو قاری کے سامنے رکھا ہے۔اسی طرح انھوں نے اپنے دوسرے مضمون میں اختر شیرانی کے ’شاعرِ رومان ‘سے ’محب وطن ‘ شاعر بننے کی دل چسپ روداد بیان کی ہے۔اُٹھ ساقی تلوار اُٹھا کا تجزیہ تحریکِ آزادی کے حوالے سے کیا گیا ہے۔اختر شیرانی کے جذبہء وشقِ وطن کی ترجمانی اُنھیں کی زبانی۔
عشق و آزادی بہارِ زیست کا سامان ہے
عشق میری جان آزادی میرا ایمان ہے
عشق پر کر دوں فدا میں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے
’لہو کی بارش میں بھیگی ہوئی کہانی اور اس کا کہانی کار ‘ میں پروفیسر فاروق بخشی نے ڈاکٹر کرشن کمار تورؔ کے افسانوی مجموعے پر تجزیہ کیا ہے۔ان کہانیوں میں پنجاب کی خالصتان تحریک سے متاثرہ لوگوں کے درداور حقیقت کو بیان کیا ہے کہ کیسے پنجاب کے لوگوں نے خالصتان تحریک کے دوران لہو کی بارش کو اپنی آنکھوں سے آسمان سے ہوتے دیکھا تھا ۔بخشی صاحب نے اپنے تنقیدی مجموعے میں 5مضامین میرٹھ کی ادبی فضا کے نام موسوم کئے ہیں۔متاعِ فیضی ؔ کے حوالے سے حکیم فیضیّ ظہری کی ادبی شخصیت ،جلال انجم کا حکیم صاحب کے شعری مجموعے کو شائع کرانے کی تڑپ،حکیم صاحب سے بخشی صاحب کے ذاتی تعلقات کو اس مضمون میں خاص جگہ دی گئی ہے۔مضمون میں فاروق بخشی صاحب نے میرٹھ کے شان دار (ادبی) ماضی کے سنہری دور کو خوب صورت انداز میں یاد کیا ہے۔اس مضمون کے ورق گردانی کرتے ہوئے قاری مہرٹھ کی گلیوں اور محلّوں کی سیر کرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔اسی طرح بشیر بدر ؔ کے میرٹھ کالج میرٹھ میں گزارے گئے ایام اور میرٹھ کی ادبی سرگرمیوں میں اٰن کی کارکردگی کا جائزہ اور اپنے اُستادکی شخصیت کا خاکا انھوں نے اپنے مضمون ’بشیر بدرؔ ؛میرٹھ کے تناظر میں‘ پیش کرنے کی کاوش کی ہے۔علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی بد قسمتی اورمیرٹھ کالج میرٹھ کی خوش بختی پر اس مضمون میں طویل گفتگو ہے۔اسی مضمون میں فاروق بخشی نے میرٹھ کالج میں اپنی تعلیم وتربیت اور میرٹھ کے شاعروں سے بشیر بدر ؔ کی معرکہ آرائی کا بھی بیان کیا ہے۔اس مضمون میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ فاروق بخشی نے m.a englishمیں فارم بھرا تھا،لیکن دور بیں اُستاد بشیر بدر نے اپنی مرضی سے ان کا داخلہ m.a urduمیں کرایا تھااور کہا تھا کہ ’فاروق صرف تُم اٰردو کے لیے بنے ہو‘۔میرٹھ میں 1987کے فرقہ وارانہ فسادات میں بشیر بدر کا مکان بلوائیوں نے جلا ڈالا تھا،جس سے بد دل ہو کر بشیر بدرؔ صاحب نے میرٹھ کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہ دیا تھا۔لیکن میرٹھ میں اُن کے قیام کی باز گشت آج بھی سُنائی دیتی ہے۔
خسرو متین اور بچوں کے ادب سے متعلق بخشی صاحب نے کئی باب وا کیے ہیں۔خسرو متین بہ حیسیت شاعر تو مقبول تھے ہی مگر اُنھوں نے اپنی شناخت بہ حیسیت بچوں کے ادیب کے طور پر بھی قائم کی۔موجودہ دور میں بچوں کے ادب کی صورتِ حال پر بخشی صاحب نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔بخشی صاحم کا خیال ہے کہ انسان کی شخصیت سازی میں ادب کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔اس بات کی وضاحت انھوں نے ابنِ صفی کے مضمون میں کی ہے،راوی نے اپنے ابتدائی زمانے میں ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں کو تفریح کے طور پر پڑھا تھا ،لیکن کرنل فریدی اور عمران سیریز کے ناولوں نے انھیں بہت متاثرکیا۔ راوی کوکرنل فریدی کے سنجیدہ مزاج نے آج تک متحرک کیا ہوا ہے۔سنجیدہ مزاجی پروفیسر صاحب کی ذات میں مکمل طریقے سے پیوست ہو گئی ہے۔ان تما م باتوں کا خلاصہ انھوں نے بے باک طریقے سے کیا ہے۔
پروفیسر فاروق بخشی نے اپنے اُستادِ محترم ،ماہرِ پریم چند پروفیسر قمر رئیس کو ایک مضمون میں تحریری خراجِ عقیست پیش کیا ہے۔تیرے وجود کو پھولوں بھری رِدا لکھوں میں اُستاد اور شاگر کے ذاتی تعلقات پرروشنی ڈالی گئی ہے۔مسئلہ روزگار کے حل میں پروفیسرقمر رئیس کی مدداور رہنمائی کا ذکر ،ذکرِ خیر کے طور پر کیا گیا ہے۔مضمون میں قمر ریئس کی شاعری اور تنقید پر بھی بحث کی گئی ہے۔اکثر مشاعروں میں قمر رئیس اپنا کلام سناتے تھے۔لیکن اُردو اب میں ان کا مقام صرف اور صرف ماہرِ پریم چند کی حیسیت سے متعین کیا جاتا ہے ۔اُردو ادب کے فروغ میں راجستھان کے کردار پر بھی مضمون سپرد قلم کیے گئے ہیں اور ان لوگوں کی کاوشوں کو منظرِ عام پر لانے کی سعی کی گئی ہے جو خاموشی کے ساتھ فروغ اردو کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔راجستھان کی سحر اور سراب آلودہ سنگلاخ زمین میں تنقید و تحقیق کے آبشارے آج بھی روا ں دواں ہیں۔حافظ محمود خاں شیرانی سے لے کر پروفیسر فیروز احمد نے اس کارواں کو آگے بڑھایا ہے۔پروفیسر فیراز احمد نے ’باغ و بہار ‘ کی تدوین کے علاوہ ’راجستھانی اور اُردو‘’نغماتِ آزادی‘’مہدی افادی کی شخصیت اور فن ‘کے علاوہ کتنے ہی تحقیقی مضامیں قلم بند کر سرز مینِ راجستھان کو وقار و افتخار بخشا ہے۔
اس مجموعے میں زیادہ ترمظامین ذاتی معلومات اور تعلقات پر مبنی ہیں۔ذاتی باتوں کو منظرِ عام پر لانا جرأت مندانہ قدم ہے۔اس مجموعے کی کتابت 8سطری ہے ا ۔سرِ ورق پردل کش اور پُر فریب لہروں میں قاری غوطہ زن ہونے کی کوشش کرتا ہے۔کتام کی زبان سادہ سلیس اور رواں ہے۔وطن سے دور رہ کر وطنِ عزیز کی تمام باتوں کو دماغ کے نہاں خانوں سے بالا خانوں تک پہنچانے کا کام پروفیسر صاحب نے بہ حُسن خوبی انجام دیا ہے۔میں اُمید کرتا ہوں کہ پروفیسر فاروق بخشی کا یہ تنقیدی مضامین کا مجموعہ اُردو دُنیا میں اپنے کام ،نام کی وجہ سے اعلا مقام وہ مرتبہ حاصل کرے گا۔

تبصرے بند ہیں۔