معذور ہیں، مگر بے بس نہیں یہ لڑکیاں

اس میں کوئی شک نہیں کہ مصیبت کی گھڑی میں کسی اپنے کا ساتھ ہونا بہت ضروری ہوتا ہے

رخسار کوثر

(پونچھ، جموں)

میں آج بھی اس اذیت کوجب یاد کرتی ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ہر بیٹی یہ جانتی ہے کہ ایک دن ماں باپ کا گھر چھوڑ کر ہمیں سسرال جانا ہے لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہاں اس کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا۔مگر پھر بھی ہر بیٹی کی یہ خواہش ہوتی ہے اور وہ یہ خواب دیکھتی ہے کہ اس کا سسرال بالکل ویسا ہو جیسے اس کے ماں باپ کا گھر ہوتا ہے۔ جموں و کشمیر کے ضلع راجوری سے تعلق رکھنے والی تعظیم اختر کہتی ہیں کہ میں بہت غریب گھر کی بیٹی ہوں۔ اس لیے جیسے ہی میرے گھر ایک رشتہ آیا میرے ماں باپ نے ہاں کہہ دیا۔ میری شادی کے فوراً بعد میرے سسرال والے مجھ سے برا سلوک کرنے لگے لیکن میں نے اپنے ماں باپ کو نہیں بتایا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ میری وجہ سے پریشان ہوں۔ وقت گزرتا گیا میں ظلم سہتی گئی، مجھے لگ رہا تھاکہ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن حالات بدتر ہوتے گئے۔جب میں ماں بننے والی تھی تو زچگی کے وقت مجھے ہسپتال لے جایا گیا۔

کہتے ہیں کہ جب قسمت ساتھ نہ دے تب مدد کے سارے راستے بند ہوتے ہیں۔ زچگی کے دوران مجھے ایکسپائر انجکشن دیا گیا جس کی وجہ سے پورے جسم میں زہر پھیل گیا،میرے ہاتھ پاؤں اور ہونٹ اسی وقت نیلے ہو گئے، سسرال والے فکر نہ کرتے ہوئے مجھے اسی حالت میں گھر لے گئے، کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھایا۔ 13 دن کے بعد جب میرے والد آئے انہوں نے میری حالت دیکھی تو وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے آئے۔جب ہسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹروں نے ڈانٹتے ہوئے پاپا کو بولا اتنی دیر لگائی یہاں لانے میں! اب مر ہی جانے دیتے بیٹی کو! جسم میں زہر اس قدر پھیل چکا ہے کہ بچنا مشکل ہے۔ اگر بچ بھی گئی تو ہمیں مجبوراً اس کی دونوں ٹانگیں اور دونوں بازو کاٹنے پڑیں گے۔ اس وقت میرے پاپا کے پاس کچھ بھی نہیں تھا! ڈاکٹر کی یہ بات سن کر میں بھی ہمت ہار چکی تھی، مجھے اپنے سسرال اور خاص کر اپنے شوہر کی سخت ضرورت تھی لیکن اس مشکل گھڑی میں میرے سسرال والوں نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا اور میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی، جس بچے کو میں نے اتنی تکلیف سے جنم دیا اس کی شکل تک نہیں دیکھنے دی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ اب میرا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں رہا۔

میرے پاپا نے مجھے حوصلہ دیا اور ان کے پاس جو بھی مال مویشی تھے انہوں نے بیچ کر میرا علاج کرایا۔ پھر نوبت اتنی آئی کے میری ٹانگیں دونوں کاٹ دیں مگر بازو کو بچا کر انگلیاں کاٹ دیں۔میں نے سوچا کہ فیصلہ میرے ہاتھ ہے۔یا تو میں اپنے ماضی اور اس اذیت کو اپنے سینے کے ساتھ لگا کے بیٹھ جاؤں،یا پھر یہ ساری چیزیں دماغ سے نکال کر آگے بڑھوں۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ بھلے ہی میرا بچہ میرے سے چھین لیا گیا ہے، میرے شوہر نے مجھے چھوڑ دیا، میرے ماں باپ کے پاس کچھ نہیں ہے،میری ٹانگیں نہیں ہیں، میرے ہاتھ مکمل نہیں رہے لیکن مجھ میں ابھی جان تو ہے، ہمت ہے، حوصلہ ہے،میں ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میں نے محسوس کیا میرے اندر پڑھ لکھ کے ماں باپ کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ آج بھی زندہ ہے۔کیوں نہ میں اپنی پڑھائی دوبارہ سے شروع کروں جو پہلے چھوٹ گئی تھی اور شادی کو ایک برا خواب سمجھ کے بھول جاؤں۔ پھر میں راجوری کے ناری نکیتن نام کے ہاسٹل میں رہنے لگی۔ آج بارھویں جماعت کی طالبہ ہوں۔میں نے اپنے ان جذبات کودل کے ایک صندوق میں بند کر دیاہے۔ وہ جذبات جو ایک ماں کو اپنے بچے کے لیے ہوتے ہیں۔ شروع میں مجھے بہت مشکل ہوئی۔میں اپنے بچے کو دیکھنے کے لئے تڑپ رہی تھی، ترس رہی تھی مگر آہستہ آہستہ مجھے صبر آگیا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ اب میں کچھ پڑھ لکھ کر بن جاؤں اور پھر وہ وقت بھی آئے گا جب میں اپنے بچے کو ان سے لے لو نگی۔ ابھی مجھے خود پر دھیان دینا ہے، خود کو مضبوط بنانا ہے اور خود کو کھڑا کرنا ہے۔”

اس ہاسٹل کی وارڈن محترمہ ندھی شرما کہتی ہیں 2018 سے میں یہاں ہوں، بہت بچیاں آتی ہیں جن میں سے کوئی ماں باپ سے محروم یا کسی کے ماں باپ تو ہیں مگر اتنی غربت ہے کہ دو وقت کا کھانا نصیب نہیں ہو پاتا۔میں سمجھتی ہوں کہ ہر لڑکی میں کوئی ہنر ضرور ہوتا ہے۔ لیکن جہاں قسمت ساتھ چھوڑ دے روشنی کے سارے دروازے بند ہو جائیں یہاں تک کہ اپنے جسم سے اعضاء ساتھ چھوڑ دیں اس مقام پر بھی ڈٹ کے کھڑے رہنا اور آگے بڑھنے کی سوچنا ایسی ہمت میں نے تعظیم میں دیکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار صرف ہاسٹل بنا سکتی ہے،بچیوں کو کھانا دے سکتی ہے، تعلیم دے سکتی ہے، ان کی ضروریات کا سامان دے سکتی ہے لیکن ہمت اور حوصلہ نہیں دے سکتی۔مگر یہ ہمت اور حوصلہ تعظیم نے خود اپنے اندر پیدا کیا۔ تعظیم نے یہاں پررہ کر پڑھائی کے ساتھ اسکوٹی چلانا سیکھا، کپڑے پر کروشیا سے ڈیزائن بنانا سیکھا،میں اس کی ہمت اور ہنر کی داد دیتی ہوں اور میں ہر لڑکی کے اندر ایسی ہمت دیکھنا چاہتی ہوں۔ زندگی میں ہر کسی کو بہت پریشانیاں آتی ہیں لیکن کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔

صوفیوں اور اولیاء اللہ کی سرزمین کہلانے والے پونچھ میں بیٹیوں کے حوصلہ اور ہمت کی بہت سی کہانیاں ہیں۔ان ہی میں ایک گاؤں کھنیتر کی پنچائت دلیرہ سے تعلق رکھنے والی بیس سالہ ثمینہ کوثر کی بھی ہے۔ جس نے بارھویں جماعت کے امتحان دیے ہیں۔اپنی دکھ بھری کہانی کو ہمت سے بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پانچ سال کی عمر میں میرے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا۔ ایک روز میں اپنی والدہ کے ساتھ کہیں جا رہی تھی کہ اچانک سے ایک گاڑی نے مجھے دھکامار دیا۔ میں سڑک پر گر گئی اور گاڑی میری ٹانگ کے اوپر سے نکل گئی۔ اس حادثے نے میری زندگی بدل دی،کیوں کہ اس حادثے کے بعد میری ایک ٹانگ کو کاٹنا پڑا۔ اس وقت چھوٹی عمر میں مجھے کوئی خبر نہیں تھی، مجھے کوئی خیال نہیں تھالیکن جب میں بڑی ہوئی تو مجھے اپنی ٹانگ دیکھ کر بہت دکھ محسوس ہونے لگا۔ جب باقی بچوں کو دونوں ٹانگوں کے ساتھ کھیلتے دیکھتی مجھے دکھ ہوتا اور میں روتی کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ہم پانچ بہنیں ہیں، ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے۔ میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہتی تھی کہ میں اپنے ماں باپ کو بیٹے کی کمی محسوس نہ ہونے دوں۔ اسی لیے شروع سے ہی میں نے اپنا ڈریسپ لڑکوں کی طرح ہی رکھا۔

آج میں بیس سال کی ہوں۔ اب بھی میرے ہیر کٹ لڑکوں کی طرح ہیں۔ مجھے اپنی ٹانگ کا دکھ ضرور محسوس ہوتا ہے لیکن حوصلہ کم نہیں ہوتا۔مجھے بہت پریشانی آتی تھیں جب میں اسکول جاتی تھی، کبھی گاڑی نہیں مل پاتی تھی اور پیدل چلنا بھی پرتا تھا، لیکن پھر میری بہن جو مجھ سے بڑی ہے وہ میری ہر چیز میں مدد کرتی تھی۔ میری کتابیں وہی اٹھاتی تھی آج تک میرا ہر کام اور میری ہر پریشانی میں میری بہن میری مدد کرتی ہیں۔ میری وجہ سے میری بہن نے شادی نہیں کی۔ تین بہنوں کی شادی ہوگئی ہے میں نے بہت جگہ دیکھا ہے جب کوئی بیٹی یا بیٹا معذور ہو جاتا ہے اس کو ہاسٹل میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کئی بار میں سمجھ سکتی ہوں کہ ماں باپ کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا لیکن کئی جگہ پر سب کچھ ہونے کے باوجود بچوں کو معذوروں کے ہاسٹل بھیج دیا جاتا ہے۔ میری ماں، باپ اور میری بہنوں نے میرا ساتھ دیا اور میں بھی باقی بچوں کی طرح اسکول جاتی ہوں، ٹیوشن جاتی ہوں اور ہر جگہ میری بہن میرے ساتھ ہوتی ہے ”

اس میں کوئی شک نہیں کہ مصیبت کی گھڑی میں کسی اپنے کا ساتھ ہونا بہت ضروری ہوتا ہے لیکن تعظیم اور ثمینہ کے حوصلہ کی داد دینی پڑے گی۔جس نے اپنے اندر کی ہمت کو ختم نہیں ہونے دیااور حوصلہ کی مثال بن گیں۔ثمینہ کی اگر بات کی جائے تو بہت ساری بیٹیاں شرم محسوس کرتی ہیں کہ ایک ٹانگ کے ساتھ اسکول کیسے جاؤں؟ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی پڑھائی کو جاری رکھا۔تعظیم جیسے مقام پر تو ہر بیٹی خود کشی کر لیتی ہے۔ تعظیم نے بھی خودکشی ضرور کی ہے لیکن اپنی زندگی کی نہیں، اپنی ہمت اورجذبہ کی بھی نہیں بلکہ اس نے اپنی پریشانیوں اوراپنے برے خواب کو مارا۔تعظیم نے بچے کا صدمہ برداشت کیا۔لیکن ہمت نہیں ہاری!آج ہر ماں باپ کوتعظیم کی زندگی سے یہ سبق لینے کی ضرورت ہے کہ صرف غربت کے ڈر سے بچیوں کی شادی میں جلدی نہ کریں کیونکہ لوگ اسے شادی نہیں سودہ سمجھ لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کی تعظیم کے ماں باپ نے اس کا بازو کٹنے سے بچا لیا اوراس کو پھر سے نئی زندگی شروع کرنے کا اور آگے بڑھنے کا موقع دیا لیکن سب سے بڑی ہمت خودتعظیم کی ہے۔جس نے ایک پل کے لئے بھی اپنے حوصلہ کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ سرکار سے امید کی جاتی ہے کہ سسرال والوں کے ظلم ستم اور بے حسی کی وجہ سے معذور ہونے اور ذہنی اذیت جھلنے والی تعظیم اور اس کی جیسی دوسری لڑکیوں کو انصاف دلانے کے لئے سخت اقدامات اٹھائے۔ بہرحال ان لڑکیوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ معذور ضرور ہوئی ہیں مگر بے بس نہیں۔ (یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2020 کے تحت لکھا گیا ہے)

تبصرے بند ہیں۔