معوذتین: فضائل و برکات

جمشید عالم عبد السلام سلفؔی

     یوں تو پورا کا پورا قرآن انسانیت کے لیے ہدایت و شفا ہے، اس کی ہر آیت تحدی و چیلنج کا درجہ رکھتی ہے، اس کے کسی بھی سورت اور آیت کی تلاوت باعثِ خیر و برکت ہے اور اس کے ہر ہر حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔ لیکن مخصوص طور پر بھی بہت سی آیات اور سورتوں کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہیں ، چناں چہ سورۂ اخلاص کو ثلثِ قرآن کہا گیا ہے وغیرہ۔ اسی طرح معوذتین یعنی سورۂ ناس اور سورۂ فلق کے فضائل و برکات کے سلسلے میں بھی احادیث آئی ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

      سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

(أَلَمْ تَرَ آيَاتٍ أُنْزِلَتِ اللَّيْلَةَ لَمْ يُرَ مِثْلُهُنَّ قَطُّ: {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}، وَ {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ})

 ترجمہ:’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ آج کی رات جو آیتیں مجھ پر نازل کی گئی ہیں وہ اس سے پہلے کبھی دیکھی نہیں گئی ہیں:  ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾‘‘۔ [مسلم کتاب فضائل القرآن وما یتعلق بہٖ باب فضل المعوذتین رقم الحدیث: ۸۱۴]

سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ ہی کا بیا ن ہے کہ:

(اتَّبَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَاكِبٌ، فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَى قَدَمِهِ، فَقُلْتُ: أَقْرِئْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ سُورَةَ هُودٍ، وَسُورَةَ يُوسُفَ. فَقَالَ: ’’لَنْ تَقْرَأَ شَيْئًا أَبْلَغَ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ: {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}، وَ {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ})

       ترجمہ: ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کے پیچھے چلا ، اور آپ سوار تھے تو میں نے آپ کے قدم مبارک پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ، اور آپ سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! آپ مجھے سورۂ ہود اور سورۂ یوسف پڑھا دیجیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا : (لَنْ تَقْرَأَ شَيْئًا أَبْلَغَ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ) ترجمہ: ”اللہ کے نزدیک: ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ سے زیادہ بلیغ سورت تم کوئی اور نہیں پڑھو گے“۔ [نسائی کتاب الافتتاح باب الفضل فی قراءۃ المعوذتین رقم الحدیث: ۹۵۳، و کتاب الاستعاذۃ رقم: ۵۴۳۹]

 سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا:

 (يَا عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، صِلْ مَنْ قَطَعَكَ، وَأَعْطِ مَنْ حَرَمَكَ، وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَكَ‘‘. قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: ’’يَا عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، أَمْلِكْ لِسَانَكَ، وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ، وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ‘‘. قَالَ: ثُمَّ لَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: ’’يَا عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، أَلَا أُعَلِّمُكَ سُوَرًا مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ، وَلَا فِي الزَّبُورِ، وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ، وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهُنَّ، لَا يَأْتِيَنَّ عَلَيْكَ لَيْلَةٌ إِلَّا قَرَأْتَهُنَّ فِيهَا: (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) وَ (قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ) وَ (قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ))

      ترجمہ: ’’اے عقبہ بن عامر! جو تم سے قطعہ رحمی کرے تم اس سے صلہ رحمی کرو، جو تمھیں محروم رکھے اسے عطا کرو اور جو تجھ پر ظلم کرے اسے معاف کردو‘‘۔ کہتے ہیں : میں پھر ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’اے عقبہ بن عامر! اپنی زبان پر قابو رکھو، اپنے گناہوں پر آنسو بہاؤ اور اپنے گھر کو لازم پکڑو یعنی بلا ضرورت کہیں نہ نکلو۔‘‘ کہتے ہیں : پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے میری ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’اے عقبہ بن عامر! کیا میں تمھیں ایسی سورتوں کی تعلیم نہ دوں ؟ کہ ان جیسی سورتیں نہ تورات میں نازل ہوئیں ، نہ زبور میں ، نہ انجیل میں اور نہ قرآن کریم (کے بقیہ حصے) میں ، ہر رات تم ان کی تلاوت ضرور کیا کرو۔ وہ یہ ہیں : ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾‘‘۔عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں ہر رات ان کی تلاوت کرتا تھا اور اور اسے ترک نہ کرنا اپنے اوپر ضروری کر لیا تھا کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے انھیں پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ [مسند احمد رقم الحدیث: ۱۷۴۵۲، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ رقم الحدیث: ۲۸۶۱]

 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ:

 (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَّيْهِ، ثُمَّ نَفَثَ فِيهِمَا، فَقَرَأَ فِيهِمَا: {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ}، وَ {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}، وَ {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ}، ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِهِ يَبْدَأُ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ وَوَجْهِهِ، وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهِ، يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ)

 ترجمہ: ’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہر رات جب بستر پر آرام فرمانے کے لیے آتے تو  اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر اس میں پھونکتے اور اس میں ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ پڑھتے تھے، اور پھر دونوں ہتھیلیوں کو جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیرتے تھے، اس طرح کہ پہلے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرتے تھے اور پھر سامنے کے بدن پر، اور یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ و سلم تین دفعہ کرتے تھے‘‘۔ [بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل المعوذات رقم الحدیث: ۵۰۱۷]

  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کا بیان ہے کہ: (أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى يَقْرَأُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَيَنْفُثُ، فَلَمَّا اشْتَدَّ وَجَعُهُ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَيْهِ، وَأَمْسَحُ بِيَدِهِ رَجَاءَ بَرَكَتِهَا) ترجمہ: ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طبیعت ناساز ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مُعوِّذات (قل ھو اللہ احد اور معوذتین) پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تکلیف بڑھ گئی تو میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ سورتیں پڑھتی اور آپ کا اپنا ہاتھ اس کی برکت کی امید سے (جسم اطہر) پر پھیرتی۔‘‘ [بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل المعوذات رقم الحدیث: ۵۰۱۶، مسلم کتاب السلام باب رقیۃ المریض بالمعوذات رقم الحدیث: ۲۱۹۲]

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : (كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ عَيْنِ الْجَانِّ، وَعَيْنِ الْإِنْسِ، فَلَمَّا نَزَلَتِ الْمُعَوِّذَتَانِ أَخَذَ بِهِمَا وَتَرَكَ مَا سِوَى ذَلِكَ) ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنوں اور انسانوں کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے، پھر جب معوذتین کا نزول ہوا توآپ نے انھیں لے لیا اور ان کے سوا باقی سب کو چھوڑ دیا۔‘‘ [ترمذی ابواب الطب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باب ماجاء فی الرقیۃ بالمعوذتین رقم الحدیث: ۲۰۵۸، اسنادہ ضعیف عند زبیر علی الزئی و صحیح عند الالبانی]

 سیدنا عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : (خَرَجْنَا فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ وَظُلْمَةٍ شَدِيدَةٍ ؛ نَطْلُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَنَا، قَالَ: فَأَدْرَكْتُهُ، فَقَالَ: ’’قُلْ‘‘، فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، ثُمَّ قَالَ: ’’قُلْ‘‘، فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا قَالَ: ’’قُلْ‘‘، فَقُلْتُ مَا أَقُولُ قَالَ: ’’{قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ حِينَ تُمْسِي وَتُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ)

ترجمہ: ’’ہم برسات کی ایک انتہائی اندھیری رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تلاش میں نکلے کہ آپ ہمیں نماز پڑھائیں ، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پالیا تو آپ نے فرمایا: ’’پڑھو‘‘، میں نے کچھ نہیں پڑھا، پھر آپ نے فرمایا: ’’پڑھو‘‘ میں نے کچھ نہیں پڑھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’پڑھو‘‘ میں نے عرض کیا: میں کیا پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’تم صبح و شام تین مرتبہ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ اور معوذتین پڑھ لیا کرو، یہ تمھیں ہر چیز کے لیے کافی ہو جائیں گی‘‘۔ [ترمذی ابواب الدعوات بابٌ رقم الحدیث: ۳۵۷۵، صحیح عند الالبانی]

 سیدنا ابن عابس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا:

(يَا ابْنَ عَابِسٍ، أَلَا أَدُلُّكَ – أَوْ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ – بِأَفْضَلِ مَا يَتَعَوَّذُ بِهِ الْمُتَعَوِّذُونَ؟) ترجمہ: ’’اے ابن عابس! کیا میں تمھیں وہ افضل کلام نہ بتاؤں جس کے ساتھ پناہ مانگنے والے پناہ مانگتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! کیوں نہیں ، آپ مجھے ضرور بتائیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’{قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} اور {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} یہ دونوں سورتیں۔ ‘‘ [نسائی کتاب الاستعاذۃ رقم الحدیث: ۵۴۳۲، مسند احمد رقم الحدیث:۱۴۴۸، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ رقم الحدیث: ۱۱۰۴، صحیح عند الالبانی]

 سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْرَأَ بِالْمُعَوِّذَاتِ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ) ترجمہ: ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ہر نماز کے بعد معوِّذات یعنی سورۂ اخلاص اور سورۂ فلق و سورۂ ناس پڑھنے کا حکم دیا۔‘‘ [ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب فی الاستغفار رقم الحدیث: ۱۵۲۳،صحیح عند الالبانی]

 سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی نکیل پکڑ کر ان گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں چل رہا تھا کہ آپ نے فرمایا: ’’اے عقبہ! کیا تم سوار نہیں ہو گے؟‘‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بزرگی کا خیال کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر سوار ہو جاؤں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اے عقبہ! کیا تم سوار نہیں ہو گے؟‘‘ تو مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں نافرمانی نہ ہوجائے ، پھر آپ اترے تو میں تھوڑی دیر کے لیے سوار ہوگیا، پھر میں اتر گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوگئے اور فرمایا:

 (أَلَا أُعَلِّمُكَ سُورَتَيْنِ مِنْ خَيْرِ سُورَتَيْنِ قَرَأَ بِهِمَا النَّاسُ) ’’کیا میں تمھیں دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں جنھیں لوگوں نے پڑھا ہے؟‘‘ پھر آپ نے مجھے سورۂ ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ پڑھائیں۔ پھر نماز قائم کی گئی تو آپ آگے بڑھے اور ان دونوں سورتوں کو پڑھا، پھر آپ میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: (كَيْفَ رَأَيْتَ يَا عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ؟ اقْرَأْ بِهِمَا كُلَّمَا نِمْتَ وَقُمْتَ) ’’اے عقبہ! تم نے کیسا پایا؟ جب جب سوؤ اور جب جب جاگو انہیں پڑھا کرو۔‘‘ [نسائی کتاب الاستعاذۃ باب فی سورتی المعوذتین، رقم: ۵۴۳۷،ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب فی المعوذتین، رقم: ۱۴۶۲]

  سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا: اے جابر پڑھو! میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں کیا پڑھوں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم؟ آپ نے فرمایا: ’’}قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ{ اور }قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ{ پڑھو۔‘‘ پس میں نے یہ دونوں سورتیں پڑھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اقْرَأْ بِهِمَا وَلَنْ تَقْرَأَ بِمِثْلِهِمَا) ترجمہ: ’’ان دونوں سورتوں کو پڑھا کرو، تم ان جیسی سورتیں ہرگز نہ پڑھوگے۔‘‘ [نسائی کتاب الاستعاذۃ باب ماجاء فی المعوذتین رقم: ۵۴۴۱، اسنادہ حسن]

 سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا تو بچھو نے آپ کو ڈس لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا جوتا مار کر اسے ماردیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم فارغ ہوئے تو فرمایا:

 (لَعَنَ اللهُ الْعَقْرَبَ، مَا تَدَعُ مُصَلِّیًا وَلَا غَیْرَهُ -أوْ نَبِیِیًّا وَلَا غَیْرَهُ- إلَّا لَدَغَتْهُمْ)

ترجمہ: ’’اللہ بچھو پر لعنت فرمائے وہ کسی نمازی کو چھوڑتا ہے نہ کسی اور کو‘‘۔ یا فرمایا: ’’کسی نبی کو چھوڑتا ہے اور نہ کسی اور کو‘‘۔

      پھر آپ نے نمک اور پانی منگایا اور انھیں ایک برتن میں جمع کردیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس انگلی پر جہاں اس نے ڈسا تھا ڈالنے لگے، اسے ملنے لگے اور معوذتین کے ذریعہ اس سے پناہ طلب کرنے لگے۔ [شعب الایمان للبیہقی رقم الحدیث: ۲۵۷۵، مصنف ابن ابی شیبۃ رقم: ۲۳۵۵۳، حافظ زبیر علی زئی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح مترجم بتحقیق زبیر علی زئی ج۲ ص:۷۱۳ رقم الحدیث: ۴۵۶۷، اور طبرانی میں ’’قل یاایھا الکافرون‘‘ کا بھی ذکر ہے۔ دیکھئے: سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ رقم الحدیث: ۵۴۸]

 مذکورہ بالا احادیثِ نبویہ معوذتین کی فضیلت و اہمیت پر دلالت کرتی ہیں۔ ان احادیث کے اندر معوذتین کے فضائل و برکات سے متعلق جو باتیں کہی گئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :

① یہ دونوں سورتیں انتہائی بلیغ و بے مثال ہیں۔

② معوذتین اور سورۂ اخلاص جیسی سورتیں ، توریت زبور اور انجیل کیا قرآن کریم میں بھی نہیں ہیں۔

③ سونے سے پہلے انھیں اور سورۂ اخلاص کو تین مرتبہ پڑھ کر ہاتھ میں پھونکنا اور ہاتھ کو چہرے اور پورے بدن پر ملنا مسنون ہے۔

④ نیز صبح و شام انھیں تین تین بار پڑھنا ہر چیز کے لیے کافی ہونے کا ذریعہ ہے۔

⑤ انھیں مریض و بیمار شخص پر پڑھ کر دم کرنا مسنون ہے۔

⑥ جنوں اور انسانوں کے نطر بد سے بچنے کے لیے یہ سورتیں اللہ سے پناہ مانگنے کا عمدہ ذریعہ ہیں۔

⑦ ہر نماز کے بعد ان کا پڑھنا مسنون ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کو اس کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح نمازوں میں بھی انھیں پڑھنا مسنون ہے، حتیٰ کہ نمازِ فجر میں آپ نے اس کی تلاوت فرمائی ہے جیسا کہ عقبہ رضی اللہ عنہ کی دیگر روایتوں میں اس کی صراحت موجود ہے۔

⑧ پناہ مانگنے کے لیے سب سے افضل کلمات ہیں۔

⑨ بچھو وغیرہ کے ڈسنے پر اس کے ذریعہ دم کرنا شفا یابی کا ذریعہ ہے۔

⑩ یہ دونوں سورتیں جادو کے توڑ کے لیے بھی تریاق ہیں ، جیسا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کا بیان ہوا ہے۔ وغیرہ

تبصرے بند ہیں۔