مغرب کی ماں

سید ظہیر

دوسال پہلے لکھنوکے ’’الرائد،،عربی پندرہ روزہ میں ایک رپورٹ چھپی تھی کہ برطانیہ کی ایک سترسالہ نرس نے خودکشی کرلی ،پتہ ہے کیوں؟کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ اس عمرِ ضعیفی میں میں کسی کے لئے بوجھ نہ بنوں،اوردنیاسے اس حال میں جاؤں کہ کسی پرمیرا سہارانہ ہو،سوچئے کہ جس نرس نے اپنی زندگی کابیشترحصہ مریضوں کی تیمارداری میں گذا ردیاہو،اس نے آخرکیوں اتنابڑاقدم اٹھالیا،آخرایسی کیابات تھی؟ کیااس کے پاس زندگی گذارنے کے اسباب مہیانہیں تھے؟یااس کے پاس رہنے کے لئے مکان نہیں تھا؟ضروریاتِ زندگی کے مفقودہوجانے سے لاچاراوربے بس ہوچکی تھی؛اس لئے اس نے خودکشی کرلی تاکہ لوگوں سے مانگ مانگ کھانے میں اُسے عارتھا؟کیونکہ عمومًاخودکشی کرنے والااپنی زندگی سے تنگ آکرخودکشی کرلیتاہے کیونکہ اس کے پاس اسبابِ زندگی نہیں ہوتے ،مقروض ہوچکاہوتاہے ،یاکسی مہلک مرض میں مبتلارہتاہے اورشفایابی کی کوئی سبیل نظرنہیںآتی،یاکسی سے محبت میں ناکام ہوچکاہوتاہے ،مگراس سترسالہ نرس کی خودکشی کچھ عجیب تھی ،اس کے تین بیٹے بھی تھے ،اس کے پاس جینے کے سامان بھی تھے ،بنگلہ تھا،سامانِ عیش تھا،اُس کی صحت بھی اچھی تھی،اس کے باؤجوداس نے ہمیشہ کے لئے اپنی اولادکوداغِ مفارقت دیدیا۔

حیران کن بات تویہ ہے کہ اُس نے اپنے بیٹوں کواپنے پاس بلایااورڈبڈباتی آنکھوں سے آنسوصاف کرتے ہوئے بتایاکہ بیٹوا! میں نے اپنی زندگی میں بہت سی ماؤں کودیکھاہے جوڈھلتی عمرکے ساتھ اپنے گھروں سے نکال دی گئیں،اورانہیں کسی رفاہی آشیانہ کے حوالہ کردیاگیا،یاسماجی خدمت گذاروں کے پاس بھیجدیاگیا،میں نے ایسی ماؤں کودیکھاہے جن کودوائی انکی اولادنہیں؛انکی خادمائیں دیتی تھیں،میں نے ایسی ماؤں کودیکھاہے جنکاعمررسیدہ ہوناانکی اولادکے لئے ہرطرح سے بوجھ تھا،نہ ٹھیک سے انہیں کھانادیاجاتا،نہ پانی،نہ راحت کی نیندانہیں میسرتھی نہ چین کی زندگی،انہیں اپنے اوپرایک بوجھ تصورکیاجاتااوروہ اسی ذلت کے ساتھ اپنی رہی سہی زندگی کاٹ کردنیاسے چلی جاتیں،لیکن میں اپنی زندگی میںیہ دن دیکھنانہیں چاہتی اس لئے میرا ارادہ ہورہاہے کہ میں ابھی خودکشی کرلوں اورہمیشہ کے لئے چین وسکون حاصل کرلوں،اس پرتمہاری کیارائے ہے ؟جب یہ تجویزماں کی طرف سے پیش ہورہی تھی توتینوں بیٹے بغورسن رہے تھے ،اورپوری طرح باہوش تھے ،جب ماں نے اپنی بات ختم کیاتوپتہ ہے تینوں بیٹوں کی رائے کیاتھی،بیٹوں نے بخوشی اس تجویزکونہ صرف یہ کہ پسندکیابلکہ تائیدکی کہ ہاں! اس عمرمیں ذلت کی زندگی گذارنے سے بہترہے کہ خودکشی کرلی جائے،یہ بیٹے اپنی اس ماں کوخودکشی کامشورہ دے رہے ہیں جس نے ان کے لئے اپناسب کچھ داؤپہ لگادیاتھااورساری زندگی نرس کاکام کررہی تھی ،پتہ نہیں بیٹوں کے اس جواب پراُس ماں کے سینہ کادل کتنادھڑکاہوگا،اوراس کے دل ودماغ پرغم کی لہریں کتنی تیزی سے دوڑی ہونگی، اگرماں کسی دھات کانام ہوتاتوشایداُسی وقت پگھل چکی ہوتی،جس ماں نے اپنے بیٹوں کونونومہینے اپنے پیٹ میں رکھااوردوران حمل دردجھیلتی رہی اورولادت کی تکلیف برداشت کیا،پالاپوسا،بڑاکیا،انکی ہرطرح کی خدمت کی آج ایک نہیں تینوں بیٹے یہ کہہ رہے تھے کہ تمہارا خودکشی کرلینابہترہے ،ہم اس کی تائیدکرتے ہیں،اس کے بعدوہ ماں اپنے کمرہ سے نکلی ،پیروں میں لرزہ ضرورتھامگردل کوگوارہ نہیں تھاکہ اب دومنٹ کے لئے بھی اس گھرمیں رہاجائے ،سامنے سڑک تھی ،تیزرفتارکارآرہی تھی ،ماں اس کے سامنے چلی گئی ،کارکے لئے یہ حادثۂ غیرمترقبہ تھااس لئے قابومیں نہیںآسکی ،ایک زوردارٹکّرکے بعد چندسکینڈوں میں اس ماں نے دَم توڑدیا،ہائے ،ہائے ۔یہ ایک رپورٹ تھی جواخباروں میںآئی ورنہ تواس طرح کے واقعات وہاں کے لئے کوئی تعجب خیزنہیں ہیں،کئی مائیں ایسی بھی ہیں کہ مرتے وقت انکے پاس کوئی نہیں ہوتا،گھرپہ اکیلی رہتی ہیں اورموت کاپیغام آجاتاہے ،کئی کئی دن گذرجانے کے بعدگھرسے آرہی بدبوسے پریشان ہوکرپڑوس کے لوگ جب تلاشی لیتے ہیں تووہ مری ہوئی ملتی ہیں،وہاں ماؤں کابڑااحترام یہ ہوتاہے کہ اولاداپنے گھرکی تقریب کے موقعہ پرکوئی فاسٹ فوڈماں کے گھربھجوادیتے ہیں،یاکوئی پھولوں کاگلدستہ بھیجدیاجاتاہے ،کئی ماںآج بھی تنہازندگی گذارنے پرمجبورہیں جوترس رہی ہیں کہ کوئی مجھے کم ازکم فون پرہی سہی بات کرکے خیریت دریافت کرلے مگراولادکی طرف سے اس سلسلہ میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جاتی ہے ،یہ ہے مختصرًامغرب کی ماں کاحال ،کہ عمرمیں اضافہ کے ساتھ ساتھ عاجزی،بے کسی،تنہائی،بے بسی،بے مروتی،رونا،غم میں گھٹنا،بھوک برداشت کرنااس کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔
مگرقربان جاؤں مذہبِ اسلام کی تعلیمات اوراس کی تربیت پرکہ اس نے ماں کی بڑھتی عمرکے ساتھ اس کی عزت بھی بڑھادیتاہے ،بڑھتی عمرکے ساتھ اس کی شان بان میں اضافہ کردیتاہے ،بڑھتی عمرکے ساتھ اس کی عظمت وتعظیم کوبھی زیادہ کردیتاہے چنانچہ سورہ نساء کی آیت نمبر36میںیہ حکم دیاگیاہے کہ ’’تم اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو،،روح البیان میں اس آیت کی تفسیرکے تحت لکھاہے کہ اللہ تعالیٰ نے حقوق کوبتلاتے ہوئے سب سے پہلے والدین کاحق بیان فرمایاہے ،دوسرے حقوق اس کے بعدبیان کئے ہیں اس لئے کہ والدین کاحق بمقابلہ دوسرے حقوق کے زیادہ ہے ،پھرآگے لکھاہے کہ انکے ساتھ حسنِ سلوک کامطلب یہ ہے کہ انکی خدمت گذاری کرے ،اوراپنی آوازکوانکی آوازسے پست رکھے ،یعنی کبھی انکی آوازسے اونچی آوازمیں گفتگونہ کرے ،اوران کے سامنے گفتگوکرتے ہوئے نرم لہجہ اختیارکرے ،سختی کے ساتھ بات نہ کرے ،اورانکی ضروریات کوپوراکرنے کی کوشش کرے اوراپنی طاقت کے بقدران پرخرچ کرے (روح البیان :2/205)دیکھئے اس میں ماں کی عظمت کے کتنے پہلوبیان کردئے گئے کیاان پہلوؤں کے اختیارکرنے کے بعدماں کی عظمت کاکوئی حصہ باقی رہ جاتاہے ؟سورہ لقمان کی آیت نمبر14میں اسی طرح کاحکم ہے ،اس کی تفسیرمیں علامہ شبیراحمدصاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں’’یعنی ماں کاحق باپ سے بھی زیادہ ہے ،وہ مہینوں تک اس کابوجھ پیٹ میں اٹھائے پھری،پھروضع حمل کے بعددوبرس تک دودھ پلایا،اس دوران میں نہ معلوم کیسی کیسی تکلیفیں اورسختیاں جھیل کربچہ کہ تربیت کی ،اپنے آرام کواس کے آرام پرقربان کیا،لہذاضروری ہے کہ آدمی اولاًخداتعالیٰ کااورثانیاً اپنے ماں باپ کاخصوصاماں کاحق پہچانے ۔مسلم شریف میں حضرت ابوہریرۃرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :اس شخص کی ناک خاک آلودہو،اس شخص کی ناک خاک آلودہو،اس شخص کی ناک خاک آلودہوجس نے اپنے ماں باپ کوبڑھاپے میں پایاپھربھی (ان کی خدمت کرکے )جنت میں داخل نہیں ہوسکا،،یعنی جس نے اپنے ماں باپ کی قدرنہیں کی اورزندگی میں ان کوراحت نہیں پہونچاسکااس شخص کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعاکی ہے ،اس سے بڑھ کرماں باپ کی عظمت کے بارے
میں اورکس وعیدکی ضرورت ہے ،کیاکسی اورمذہب کے پاس اس کی کوئی مثال مل سکتی ہے ؟نہیں اورہرگزنہیں،حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا:کہ اللہ تعالیٰ کوکونساعمل بہت پسندہے ؟فرمایا:وقت پرنمازپڑھنا،میں نے پوچھا:اس کے بعدکونساعمل بہت پسندہے ؟فرمایا:وقت پرنمازپڑھنا،میں نے پوچھا:اس کے بعدکونساعمل؟فرمایا:والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا،پھرپوچھاکہ :اس کے بعدکونساعمل ؟فرمایا:اللہ کے راستہ میں جہادکرنا(متفق علیہ)دیکھئے اس روایت میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکے بعدوالدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کوسب سے محبوب عمل قراردے رہے ہیں،اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے والدین اورخصوصاماں کاکتنالحاظ کیاہے ،انہیں کتنابڑامقام دیاہے ،بخاری اورمسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:کیامیں تمہیں سب سے بڑاگناہ نہ بتاؤں؟یہ جملہ تین مرتبہ ارشادفرمایا،(صحابہؓ فرماتے ہیں کہ )ہم نے کہا:اے اللہ کے رسول !ضروربتائیے،فرمایا:(سب سے بڑاگناہ)اللہ کے ساتھ کسی کوشریک کرنااوروالدین کی نافرمانی کرناہے،،اس حدیث سے بھی صاف معلوم ہورہاہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک نہ کرنااورالٹے انکی نافرمانی کرناکتنابڑاجرم ہے،کبیرہ گناہوں میں بھی بڑاگناہ ہے ۔
تویہ ہے ایک ماں کی عظمت جواسلام نے دی ہے ،اورمغرب میں ایک ماں کاجوحال ہے اس سے آپ واقف ہوہی چکے ہیں،عورتوں کی آزادی کولے کراسلام پرکیچڑاچھالنے والے ذرادیکھ تولیں کہ کس نے عورت اورخصوصاماں کواونچامقام دیاہے ؟مغرب نے یااسلام نے ۔

تبصرے بند ہیں۔