مقدموں کا فیصلہ پولس نے ہی کردیا

حفیظ نعمانی

جیلوں میں جو بھی بند ہوتے ہیں انھیں تین خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (1) حوالاتی جن کے مقدمات زیر سماعت ہوں۔ وہ چاہے دس سال سے بند ہوں چاہے 10 دن سے۔ (2) قیدی وہ جن کے مقدمہ کا فیصلہ ہوگیا ہو اور انھیں سزا دے دی گئی ہو۔ وہ پہلے دن سے رِہا ہونے تک قیدی ہی کہے جاتے ہیں اور ان کا ایک جیسا لباس ہوتا ہے۔ یہ جیلوں پر موقوف ہے۔ (3) وہ جن کی تین چوتھائی سزا پوری ہوگئی ہو اور صرف ایک چوتھائی سزا باقی ہو۔ انھیں لال ٹوپی لال پائجامہ اور پیلا کرتہ پہنادیا جاتا ہے۔ انھیں پکا کہا جاتا ہے اور ان کو یہ سوچ کر جیل کے ان کاموں میں لگادیا جاتا ہے جو چپراسیوں کے کرنے کے ہوتے ہیں اور ان میں سے چند جیل کے سپرنٹنڈنٹ صاحب ،جیلر صاحب کی خدمت یا ان کے گھروں میں ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ان کو دیکھ لیا جاتا ہے کہ ان کا پچھلا ریکارڈ مجرمانہ نہ ہو۔ اور وہ سب بندی کہے جاتے ہیں جو جیل میں بند ہیں۔
کل جب فرصت کا وقت گذارنے کے لیے ٹی وی کھولا تو جو خبر کانوں میں آئی وہ یہ تھی کہ بھوپال سینٹرل جیل سے8 قیدی بھاگ گئے اور جیل سے دس کلو میٹر دور وہ انکائونٹر میں مار دیے گئے۔ پھر ہر چینل میں وہی خبر تھی۔ اس فرق کے ساتھ کہ کسی چینل میں وہ بھاگ رہے تھے، کسی میں انھوں نے پتھروں سے پولیس کا مقابلہ کیا، کسی میں ان کے پاس ہتھیار تھے۔ لیکن یہ کسی چینل پر نہیں تھا کہ پولیس کے بہادر جوانوں نے انھیں گھیر کر پکڑ لیا۔ شام ہوتے ہوتے بیانات قلابازی کھانے لگے کہ ان سب کا تعلق سیمی سے تھا اور یہ دہشت گرد بھی تھے۔ رات میں رویش کمار نے مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ سے رابطہ بنا لیا۔ انھوں نے تو پوری طرح ثابت کردیا کہ وہ ہر وزیر کی طرح بھولے اور بے خبر ہیں۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ تنہائی میں بند کیے جاتے تھے۔ ان میں سے کسی نے نگرانی کرنے والے سپاہی کی چابی چھین لی اور لکڑی یا چمچہ سے دوسری چابیاں بنا لیں اور سب ساتھ ساتھ بھاگ گئے۔ جب معلوم کیا گیا کہ 25 فٹ اونچی دیوار کیسے پھاند گئے تو منتری جی نے جواب دیا کہ انھوں نے ایک سیڑھی لکڑی کی بنالی۔
وزیر داخلہ کے جوابات ایسے تھے کہ اگر وہ کسی امتحان کے پرچہ کے جواب میں لکھے جاتے تو نہ صرف انھیں فیل کیا جاتا بلکہ یہ بھی مشورہ دیا جاتا کہ انھیں ایک سال جیل میں بندی بنا کر رکھا جائے۔ 5 مہینے حوالات میں 5 مہینے قیدی بیرک میں اور 2 مہینے پکا بنا کر۔
منتری جی نے یہ بھی جواب دیا کہ یہ کوئی دوچار دن کا پلان نہیںتھا بلکہ دو مہینے سے بن رہا تھا۔ ان کی ہر بات سے اندازہ ہوا کہ انھیں ان کے ماتحتوں نے جو سبق پڑھادیا وہ سنا رہے ہیں۔ انھیں نہ کچھ معلوم ہے اور نہ اندازہ ۔
جیل میں ہر بندی کو برتنوں کے نام پر صرف ایک پیتل کا چھوٹا تسلہ اور ایک چھوٹی کٹوری دی جاتی ہے اور اس کی حفاظت کا حکم اس طرح دیا جاتا ہے جیسے یہ پیتل کے نہیں سونے برتن ہیں۔ جب جب سپرنٹنڈنٹ معائنہ کے لیے آئیں یا جیلر آئیں یہ دونوںبرتن سامنے رکھے ہوں اور چمک رہے ہوں۔ رہا چمچہ تو وہ ہم جیسے لوگ تو رکھ لیتے ہیں لیکن قیدی اور آتنک وادی تو کیا حوالاتی بھی نہیں رکھ سکتے۔ ہمارا تعلق اخبار سے تھا اور ہماری ہر خبر اخباروںمیں چھپتی تھی۔ جیل کے افسر اور ماتحت ہر سرکاری محکمہ سے زیادہ گول مال کرتے ہیں اس لیے ہم نے جس چیز کے لیے بھی کہا کہ وہ ہمارے لیے ضروری ہے تو جیلر صاحب کی طرف سے جواب ملا کہ میں مجبور ہوں اجازت نہیں دے سکتا۔ آپ منگوا لیجیے میں اعتراض نہیں کروں گا۔ رمضان شریف میں الارم والی ٹائم پیس، چاقو، چمچ، پلاسٹک کا لوٹا اور ضرورت کے ہر برتن ہم نے منگوائے اور وہی ہوا کہ اجازت کسی کی نہیں دی اور اعتراض بھی نہیں کیا۔
ہر بیرک میں آنے جانے کا ایک دروازہ ہوتا ہے اور جہاں بیرک ختم ہوتی ہے وہاں ایک پیخانہ رات کے استعمال کے لیے ہوتا ہے جو بہت کم استعمال ہوتا ہے۔ اس میں جو گول ہول ہوتا ہے اس کا سب سے زیادہ استعمال شراب کی بوتلوں کے لیے ہوتا ہے جو ہولی اور دیوالی میں جیل کے سپاہی شہر سے لا کر بندیوں کو دیتے ہیں اور ان کے پیسوں سے ہی اپنی دیوالی مناتے ہیں۔ دہشت گردی کے الزام میں جو مسلمان بند ہوتے ہیں ان پر تو اتنی گہری نظر رکھی جاتی ہے کہ ہوا اور روشنی بھی ان کے پاس سپاہیوں کی نگرانی میں جاتی ہیں اور پہرے کا یہ حال ہے کہ آتنک وادی خود تو دور حوالاتیوں کی طرح اپنا کوئی پیغام بھی باہر نہیں بھیج سکتے۔ ان ساری پابندیوں کے بعد بھی ایک نہیں آٹھ اپنا تالا توڑ یں اور بیرک کا تالا توڑیں۔ 10 فٹ کی دیوار پھاند کر 25 فٹ کی دیوار چادروں اور کمبلوں کی رسی بنا کر یا منتری جی کے کہنے کے مطابق لکڑی کی سیڑھی بنا کر چڑھ جائیں اور 25 فٹ اونچی دیوار سے کود کر سب کے سب بھاگ جائیں۔ افسانہ تو ہوسکتا ہے حقیقت نہیں۔ جبکہ بیرک بند ہوتے ہی چابیاں جیلر کے پاس چلی جاتی ہیں۔
ایک مرکزی وزیر نے کہہ دیا کہ ملک کی حفاظت کے مسئلہ پر سیاست نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہر اس موقع پر کہا جاتا ہے جب حکومت اپنے ا ہل کاروں کی غلط حرکتوں میںپھنس جاتی ہے۔ ہر طرف سے اعتراضات کی بوچھار ہورہی ہے۔ وہ کیسے بھاگے ان کے پاس ہتھیار کہاں سے آئے۔ انھوں نے سپاہی کو کیسے مارا۔ کس ہتھیار سے تالے توڑے، دیسی پستول کہاں سے آیا اور 25 فٹ اونچی دیوار پر چڑھنا اور وہاں نیچے کود کر سب کا 10 کلومیٹر تک بھاگ جانا کیسے ممکن ہوا؟
ہم بیرک نمبر 8 میں تھے،شام کو بیرک بند ہونے سے پہلے ایک پنجابی خوش پوش کو جیلر صاحب کا پکا لایا کہ صاحب نے کہا ہے کہ ان کو اپنے قریب ہی رکھئے گا۔رات کا کھانا کہاں سے آیا یہ نہیں معلوم لیکن صبح وہ ناشتہ میں ہمارے مہمان رہے اور انڈوں کی تواضع کے بعد کہا کہ کسی کو بلادیجیے کچھ سامان منگوالیں۔بیرک کا نگراں سپاہی آیا تو ہم سے قلم کاغذ لے کر ایک پرچہ لکھا اور کہا کہ ناکہ ہنڈولہ کے دیسی شراب کے ٹھیکہ پر بھاٹیہ صاحب کو دے دینا وہ جو سامان اور پیسے دے دیں وہ لے آنا۔ ان کے باہر نکلتے ہی یہ خبر ہوا میں گشت کرنے لگی کہ شراب کا بہت بڑا ٹھیکہ دار آیا ہے۔ دوپہرے کے کھانے سے پہلے انڈے ، مکھن کے ڈبے، ڈبل روٹی اور کھانے کی مختلف چیزیں آگئیں۔ بات صرف اتنی تھی کہ ان کے مینیجر نے ان کے جیل میں داخل ہونے سے پہلے ہی جیل کے ہر بڑے چھوٹے افسر کی فیس ادا کردی تھی اور وہ ہمارے پاس اس لیے بھیجے گئے تھے کہ چولہا لکڑی ، برتن اور پکانے والا ہمارے پاس تھا۔ وہ جتنے دن رہے ہر دن دو چار پرچی بھاٹیہ کو لکھتے رہے کہ ان کو منہ مانگی شراب دے دی جائے۔
ان آٹھوں بندیوں کے بارے میں سوال کیے جارہے ہیں کہ ان کے پاس نئے کپڑے، نئی جینس، نئے جوتے کہاں سے آئے؟ہم نے اوپر جو لکھا وہ اس کا جواب ہے۔ جیل میں عمارت کے علاوہ ہر چیز بکائو ہے۔ وہاں کے افسر اور سپاہی جب پولیس کے افسروں اور سپاہیوں سے اپنا موازنہ کرتے ہیں تو احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور جب ان کو موقع مل جاتا ہے یا وہ بھانڈہ پھوٹنے سے ڈرتے ہیں تو ہر وہ کام کردیتے ہیں جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
ان مسلمانوں کے وکیل تہور خاں کا کہنا ہے کہ ان کا ٹرائل پورا ہوچکا تھا، جلد ہی یہ بھی باعزت بری ہوسکتے تھے ہم نہیں جانتے کہ یہ بات ان کو معلوم تھی یا نہیں۔ خیال یہ ہے کہ شاید ان کو معلوم نہ ہو اور ان کے باعزت بری ہونے سے جن کا منہ کالا ہونے والا تھا یہ سارا ڈرامہ انھوں نے کیا ہو؟ بہرحال یہ عام قسم کا بھاگنا نہیں ہے۔ اگر اس میں لاکھوں روپے نے سیڑھی کا فرض ادا نہیںکیا ہے تو یہ سب ان کا کھیل ہے جن پر ان کی رہائی سے کالے داغ لگنا تھے۔ اس کے لیے جوبھی ہائی کورٹ کے جج سے تحقیقات کرانے کی بات کر رہے ہیں وہ انصاف مانگ رہے ہیں کیوں کہ ہندو نوجوان اتراکھنڈ میں ا گر فرضی انکائونٹر میںماردیا جائے تو 12 پولس والوں کو برسوں کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اور عشرت جہاں، اس کے تین ساتھی، سہراب الدین اور اورنگ آباد کے تین مسلمان لڑکوںکو مار کر پولیس کی وردی پہنا کر ناگپور لایا جائے کہ آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے آرہے تھے تو کسی پولیس والے کو سزا نہیںہوتی اور انکائونٹر اس لیے اصلی ہوتا ہے کہ اگر نہ مارا جاتا تو یہ کہیں اور جا کر غارت گری کرتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔