ملی زندگی کی چودہ صدیاں (دوسری قسط)

تحریر: مولانا نعیم صدیقی  ؒ… ترتیب:عبدالعزیز

 ٭اس ملت کے معیاری دور میں جن ہستیوں کو مہر حکومت تفویض ہوئی انھوں نے چٹائیوں پر بیٹھ کر اور پیوند لگے کپڑے پہن کر آج کل کے کلرکوں اور چپڑاسیوں کی تنخواہوں کے برابر وظیفے لے کر ایک بڑی سلطنت کامیابی سے چلائی جس کا رقبہ دورِ فاروقی میں (ف محرم 24ہجری) پچیس لاکھ مربع میل تھا ۔ اس درویش منش فرمانروائے عظیم کا حال یہ تھا کہ کبھی وہ دروازوں پر جاجاکر مجاہدین کی مستورات کو خطوط لکھتا اور محاذوں پر روانہ کرتا ہے۔ کبھی وہ بیت المال کے اونٹوں کو تپتے صحرا میں ہانکتا یا مالش کرتا نظر آتا ہے۔ کبھی ایک بھوکے مسافر کنبے کیلئے رات کو سامان غذا کا بورا پیٹھ پر لاد کر مدینے کے باہر جاپہنچتا ہے۔ اور اسی فرمانروا کے عزیز صاحبزادے سے جرم سرزد ہوتا ہے تو اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر کوڑے برساتا ہے۔ اس میں ایسے ایسے گورنر پیدا ہوئے جنھوں نے دو درہم روزانہ پر کام کیا۔ اس کے علاقائی امیروں کیلئے لازم تھا کہ وہ چوکی پہرے کے بغیر اپنے دروازے ہر شہری اور فریادی کیلئے کھلے رکھیں ۔ اس سلطنت میں پیدا ہونے والے ہر فرد حتیٰ کہ ہر نومولود بچے کو وظیفہ ملتا تھا اور سب کی کفالت کی ذمہ داری حکومت پر تھی۔ اس سے پہلے کے درویش حکمران نے قانون ادائے زکوٰۃ سے انحراف کرنے والوں اور مرتد ہونے والوں کے خلاف مشکل حالات میں سپاہیوں کو جہاد پر بھیجا۔ ان حکمرانوں کی رائے سے ہر شخص اختلاف کرسکتا تھا۔ ان کے معاملات پر تنقید کرسکتا تھا، سرکاری مالیات اور ان کی آمدنیوں اور مصارف کا محاسبہ کرسکتا تھا۔

٭ ایسی حکومت کی کامیابی کا ایک لازمی تقاضاشہریوں کی پابندیِ نظم و ضبط تھا اور شہری ایسے تھے کہ انھیں تحویل قبلہ کا حکم حالاتِ نماز میں ملا تو انھوں نے فوراً اپنے رخ بدل لئے اور کوئی فرق پیدا نہیں ہوا۔ سود کی بندش کا حکم آیا تو مالی معاملات میں سود کا شائبہ بھی انھیں گوارا نہ رہا۔ شراب حرام کی گئی تو انھوں نے شراب کے ذخیرے لنڈھا دیئے اور ظروف توڑ دیئے۔ عورتوں کی زینت چھپانے کا حکم دیا گیا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے وحی کی آواز سنتے ہی عورتوں نے فوراً سروں اور چہروں کو ڈھانپ لیا۔ ان کے ایک وفد کو جب خواتین کا دائرۂ عمل حضورؐ نے بتادیا تو پھر انھوں نے کبھی ’’دوش بدوش ترقی‘‘ کے خواب نہیں دیکھے۔ بعض شہریوں سے گناہ سرزد ہوگئے تو وہ فوراً آکر اقراری ہوئے اور تقاضا کیا کہ ہم پر سزا نافذ کی جائے۔ احکام خدا اور رسولؐ میں کوئی اختلافی بحثیں نہ ہوئیں اور کوئی اپوزیشن نمودارنہ ہوئی۔ پوری قوم متحد رہ کر چلی۔

 خدا پرستانہ حکومت کا یہ معیاری اور نمونے کا دور حضرت علیؓ کی وفات (40ہجری) اور حضرت حسنؓ کی دست برداری پر ختم ہوگیا اور بعد میں طرح طرح کی خرابیاں ظاہر ہوئیں ، مگر پھر بھی دورِ اوّل کی چمک دمک اس وقت تازہ ہوجاتی رہی جب ہر دو چار حکمرانوں کے بعد کوئی سلطان عادل نمودار ہوتا۔ دوسرے حکمران بھی ایسے تھے کہ ان میں اگر کسی پہلو سے خرابیاں ہوتیں تو کسی دوسرے پہلومیں قرون اولیٰ کی روایات کا اثر ظاہر ہونے لگتا۔ خصوصیت سے حضرت عمر بن عبدالعزیز، صلاح الدین ایوبی اور شاہ اورنگ زیب عالمگیر کے ادوار انتہائی روشن ہیں ۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد قابل قدر سلاطین ہیں جنھوں نے اچھی شالوں اور روایتوں کو تازہ کیا۔ علماء کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے علم دین کی سلطنت کو حکومت کے دخل سے آزاد رکھا۔

 ملت اسلامیہ کے قاضی عدل کی ترازو ہاتھ میں لے کر بیٹھے تو وہ جس طرح عام شہری کو طلب کرتے تھے، اسی طرح اگر خلیفہ مدعی یا مدعا علیہ ہو تو اسے بھی بلاکر فریق ثانی کے برابر لاکھڑ کرتے اور اپنا فیصلہ نائب خدا کی حیثیت سے دیتے۔ خواہ وہ حکمران کے خلاف ہی کیوں نہ پڑے۔ سیاسی حالات میں بگاڑ آنے کے بعد بھی بیشتر قاضیوں نے عدل کی شاندار مثالیں بغداد، اندلس اور مصر اور ہندستان میں قائم کیں ۔ راست باز قاضیوں کو اگر اقتدار کی طرف سے رخنہ اندازی سے سابقہ پیش آتا تو وہ مستعفی ہوجاتے اور کسی سلطان جابر کے نظام عدل میں کوئی دیانت دار فقیہ یا قاضی ہزار ترغیب و ترہیب کے باوجود شرکت نہ کرتا۔

 ٭ ملت اسلامیہ کی ایک خصوصیت چودہ صدیوں میں یہ نمایاں رہی ہے کہ انھوں نے اقلیتوں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کیا، ان کی حفاظت کی، ان کو وظائف دیئے اور ان کو زیادہ سے زیادہ حقوق انسانی سے بہرہ مند کیا۔ اس معاملے میں مدینہ کی حکومت کا جو طرز عمل رہا اس کا ریکارڈ فرمانوں اور معاہدات اور گورنروں اور عالموں کو دی ہوئی ہدایات کی شکل میں محفوظ ہے۔ بعد میں بغداد کی حکومت ہو یا مصر، اندلس، ترکی اور ہندستان کی، ہر جگہ اقلیتوں سے ایسا معاملہ کیا گیا کہ کوئی دوسری قوم … حتیٰ کہ آج کل کی تہذیب یافتہ قومیں بھی اس کی مثال پیش نہیں کرسکتیں ۔ موجودہ دور کے کئی ممالک میں اقلیتیں پستی رہتی ہیں ۔ دورِ آخر کی نہایت ہی درخشاں مثال اس احسانِ عظیم کی ہے جو فتح یروشلم کے موقع پر سلطان صلاح الدین ایوبی نے عیسائی، یہودی اقلیت سے کیا۔ یہاں تک کہ بیت المقدس میں گھوڑوں کے گھٹنوں تک مسلمانوں کے خون کی جھیل کھڑی کرد اور اس میں کٹے ہوئے ہاتھ پاؤں تیر رہے تھے۔

 لحم خنزیر اور دوسرے حرام یا ممنوع بلکہ بہت سے مکروہ، ماکولات تک سے مسلمانوں کی اکثریت پرہیز کرتی ہے۔ ازدواج بلا نکاح کا چلن اس امت میں موجودہ زوال کے دور میں بھی نہیں ہوسکا۔ اَن پڑھ دیہاتی مسلمان تک ابتدائی طہارت، کپڑوں اور برتنوں کو شرعی شرائط کے مطابق پاک کرنے اور رکھنے، نیز کنوؤں ، چشموں اور تالابوں کو ناپاکی سے بچانے اور غسل واجب کا اہتمام کرنے کے لحاظ سے شاید دنیا کے مہذب ترین معاشروں کے تعلیم یافتہ معززین پیش پیش ہیں ۔ پہاڑوں اور صحراؤں میں رہنے والی عورتیں بھی اپنے ماہانہ نظام طہارت کی پابند ہیں جبکہ مغرب کی روشن دماغ ترقی یافتہ خواتین اس معاملے میں حیوانیت کی سطح سے آگے نہیں بڑھ سکیں ۔

 آج اگر چہ تمام مسلمان فریضہ نماز ادا نہیں کرتے لیکن کئی صدیوں کا سفر طے کرنے کے بعد بھی ہر گاؤں ، قصبے اور شہر میں نمازیوں کی تعداد اس قدر پائی جاتی ہے کہ مسجدیں آباد ہیں ، خصوصاً جمعہ کو بڑی مسجدوں میں خاصی بھیڑ ہوتی ہے اور عیدین کے موقع پر تو مساجد نمازیوں کیلئے چھوٹی ہوجاتی ہیں ، زکوٰۃ کی بہت بڑی بڑی رقوم لوگ چپکے سے ہر سال ادا کرتے ہیں اور مستحق افراد کو خیرات دینے کے علاوہ دینی مدارس اور اداروں کو مالی تقویت پہنچاتے ہیں ، جبھی تو وہ مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک چل رہے ہیں ۔

 اس ملت کی ایک خوبی یہ ہے کہ ہزار بگاڑ کے باوجود اس میں دین کیلئے سرفروشی کا اتنا جذبہ کام کرتا ہے کہ جب کوئی تحریک چلی مسلمانوں نے قربانیاں دیں ۔ الجزائر کی طویل جنگ آزادی ہو یا قبرص اور اَریٹیریا کی مسلم اقلیتوں کی سعی استقلال۔ اسی طرح جنوبی فلپائن کے مورد مسلمان ہوں یا بھارت میں مسلم کش بلووں کا شکار ہونے والی مسلم اقلیت اور پھر فلسطین کے مسلمان ہو یا کشمیر کے مسلمان، سبھی نے قربانیاں دیں اور دے رہے ہیں ۔ برصغیر میں تحریک مجاہدین اور تحریک 1957ء کیلئے بھی اور مسجد کانپور اور مسجد شہید گنج کے قضیئے کیلئے بھی مسلمانوں نے بے دریغ قربانیاں دیں ۔ اسی طرح ماضی قریب کی ’’تحریک نظام مصطفی‘‘کیلئے مسلمانوں نے پولس کی لاٹھیوں کے سامنے سر پیش کر دیئے اور فوج کی گولیوں کے سامنے سینے کھول دیئے۔ دینی مقاصد کے حصول کیلئے قربانی پیش کرنے کا یہ تاریخی جذبہ اپنی مثال آپ ہے۔

اس ملت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایک طرف اس میں کسی منظم کوشش اور صرفِ کثیر کے بغیر اسلام کو مسلک بنا لینے والے افرادکا مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ دوسری طرف اس کی شرح ارتداد دوسرے کسی بھی مذہب کے پیروؤں سے کم ہے۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔