منہ میں ظالم زباں دو دھاری ہے

جمال کاکوی

منہ میں ظالم زباں دو دھاری ہے

کبھی آری کبھی کٹاری ہے

عقل بینا ہے بردباری ہے

مستند ڈی این اے بہاری ہے

گل نے کانٹوں سے بھی نباہ کیا

یہ فراست ہے  ہوشیاری ہے

حق کا طالب ہے اپنی جنتاسے

اس طلب میں بھی خاکساری ہے

چار سالوں کے بعد آتے ہیں

 سب جمورے ہیں ایک مداری ہے

درد دل کا کوئی علاج نہیں

سنگ دل کیوں یہ سنگ باری ہے

جتنے کٹتے ہیں اتنے اگتے ہیں

اس کی قدرت ہے کاشتکاری ہے

اپنے بالوں کو لال لال کیا

 اس نمائش میں انکساری ہے

لوگ کہتے ہیں ہم کو کنگالی

کس کی ہمت کہے بھکاری ہے

کیا دکھاؤ میں داغ سینے کا

بس ندامت ہے شرم ساری ہے

چار مشکل جمال چلتا ہے

 پھر بھی مشہور ادھ کپاری ہے

تبصرے بند ہیں۔