منہ میں ظالم زباں دو دھاری ہے
جمال کاکوی
منہ میں ظالم زباں دو دھاری ہے
کبھی آری کبھی کٹاری ہے
…
عقل بینا ہے بردباری ہے
مستند ڈی این اے بہاری ہے
…
گل نے کانٹوں سے بھی نباہ کیا
یہ فراست ہے ہوشیاری ہے
…
حق کا طالب ہے اپنی جنتاسے
اس طلب میں بھی خاکساری ہے
…
چار سالوں کے بعد آتے ہیں
سب جمورے ہیں ایک مداری ہے
…
درد دل کا کوئی علاج نہیں
سنگ دل کیوں یہ سنگ باری ہے
…
جتنے کٹتے ہیں اتنے اگتے ہیں
اس کی قدرت ہے کاشتکاری ہے
…
اپنے بالوں کو لال لال کیا
اس نمائش میں انکساری ہے
…
لوگ کہتے ہیں ہم کو کنگالی
کس کی ہمت کہے بھکاری ہے
…
کیا دکھاؤ میں داغ سینے کا
بس ندامت ہے شرم ساری ہے
…
چار مشکل جمال چلتا ہے
پھر بھی مشہور ادھ کپاری ہے
تبصرے بند ہیں۔