انسان اور زمین کی حکومت (قسط 98)

رستم علی خان

مروی ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کے وقت میں بنی اسرائیل کی قوم میں سے ایک عورت تھی- قرآن میں اس کا تذکرہ عمران کی بیوی کر کے ہوا ہے جب کہ بائبل وغیرہ میں اس کا نام "حنہ” بیان ہوا ہے- اور اس کے شوہر کا نام عمران بن لاثان تھا- حضرت سلیمان کی اولاد میں سے تھی- مروی ہے کہ اس سے پہلے ایک بیٹی تھی کہ نام اس کا اشیاع تھا اور حضرت زکریا سے بیاہی گئی تھی- اور بعضوں نے کہا کہ اس کی بہن کا نکاح حضرت زکریا سے ہوا تھا- واللہ اعلم بالصواب-

عمران کی بیوی کو اولاد نرینہ کی بڑی خواہش تھی- پھر جب وہ بڑی عمر میں حاملہ ہوئیں تو بیت المقدس میں جا کے خدا کی بندگی میں مشغول ہوئیں اور نذر کی کہ یا رب میرے پیٹ سے جو لڑکا پیدا ہو گا اسے میں نے تیری نذر کیا کہ بیت المقدس کی خدمت کرے اور تیری یاد میں رہے اور دنیا کا کوئی کام نہ کرے- چنانچہ حق تعالی فرماتا ہے، "پھر جب کہا عمران کی بیوی نے کہ اے پروردگار میرے تحقیق میں نے نذر کی واسطے تیرے جو کچھ پیٹ میں میرے ہے- آزاد کیا ہوا خدمت سے پس قبول کر مجھ سے تحقیق تو ہی سننے والا جاننے والا ہے-"

کہتے ہیں کہ اس امت میں یوں دستور یا رواج تھا کہ بعض لڑکوں کو ماں باپ اپنے حق سے آزاد کرتے اور اللہ کی نذر کرتے- پھر تمام عمر ان کو دنیا کے کاموں میں نہ لگاتے- اور وہ ہمیشہ مسجد میں اللہ کی عبادت اور مسجد کی خدمت کیا کرتے- چنانچہ اسی طریق سے حضرت عمران کی بیوی نے بھی حمل کے دنوں میں اللہ سے یہ نذر مانی کہ میں اپنے پیٹ سے جو بھی لڑکا جنوں گی پس وہ خدا کی نذر کروں گی کہ بیت المقدس میں رہے اور اللہ کی عبادت کرے- بعد نو ماہ کے عمران کی بیوی نے ایک لڑکی کو جنم دیا جن کا نام حضرت مریم ہے- اس بات سے عمران کی بیوی کا دل اداس اور سست ہوا کہ وہ چاہتی تھیں کہ بیٹا ہوتا تاکہ اپنی نذر پوری کر سکیں- پس بیٹی ہونے سے اس وجہ سے تھوڑی ناخوش ہوئیں کہ ان کی نذر پوری نہ ہو سکی- کیونکہ لڑکی نذر کرنے کا دستور نہ تھا-

پس اس نے آسمان کیطرف منہ کر کے کہا، چنانچہ ارشاد ہوا، "پس جب اس کو جنی بولی اے رب میرے میں نے یہ لڑکی جنی ہے اور اللہ کو بہتر معلوم ہے جو کچھ جنا اور نہیں ہے مرد مانند عورت کے اور تحقیق میں نے اس کا نام مریم رکھا اور میں تیری پناہ میں دیتی ہوں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے-” پس ندا آئی میں نے قبول کیا مریم کو اگرچہ وہ مرد نہیں اچھی طرح قبول کرنا اور بڑھایا اس کو اچھی طرح بڑھانا اور سپرد کر اس کو زکریا علیہ السلام کے-

پس جب حضرت مریم سات برس کی ہوئیں تب ان کی ماں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر بیت المقدس میں حضرت زکریا کے پاس گئیں اور سلام کیا اور کہا، اے نبی اللہ میں نے نذر کی تھی کہ اگر میرے پیٹ سے لڑکا ہو گا تو اس کو خدا کی نذر کرونگی اور مسجد اقصی کی خدمت میں دونگی- لیکن خدا کی مرضی کچھ اور تھی پس میں نے ایک لڑکی کو جنم دیا اور نام اس کا مریم رکھا- پس اس کو آپ کے پاس لائی ہوں کہ مسجد میں رہے اور اس کی خدمت کرے- تب حضرت زکریا نے وہاں پر موجود مسجد کے تمصلیوں سے پوچھا کہ اس بچی کی پرورش اور خبرداری کون کرے گا- تب وہاں موجود ہر شخص کہنے لگا کہ میں اس کی نگہداشت و پرورش کروں گا- آخر سب میں اس بات پر بحث ہونے لگی کوئی کہتا مجھے دو میں اس کی خبرداری کروں گا اور کسی نے کہا نہیں میرے حوالے کرو میں پرورش کروں گا- غرض جب بحث بڑھنے لگی تو حضرت زکریا نے فرمایا کہ بجائے لڑنے جھگڑنے یا بحث کرنے کے یوں کرتے ہیں کہ سب اپنا اپنا آہنی قلم کہ جس سے توریت لکھی جاتی ہے اسے ایک لگن پانی بھر کے اس میں ڈال دو- پس پھر جس شخص کا قلم اوپر رہے گا اور ڈوبے گا نہیں وہی کفیل مریم کا ٹھہرایا جائے گا.

چنانچہ جب مسجد کے سارے لوگ مریم کی پرورش کرنے کو آپس میں بحث کرنے لگے تب حضرت زکریا نے فرمایا کہ بحث نہ کرو بلکہ یوں کرتے ہیں کہ سب اپنا اپنا آہنی قلم ایک طشت پانی کی بھر کر اس میں ڈالو پھر جس کا قلم تیرتا رہے گا سو وہی ہو گا قفیل مریم کا- خلاصہ یوں ہوا کہ جب حضرت مریم کی والدہ انہیں مسجد اقصی میں لیکر گئیں مسجد کی خدمت میں دینے کو تو مسجد کے سارے بزرگوں میں اس بات پر بحث ہوئی کہ لڑکی کی نذر دینا درست نہیں اور خلاف دستور ہے چنانچہ لڑکی کو مسجد میں رکھنا کسی طور ٹھیک اور جائز نہیں ہے- پھر جب حضرت مریم کی والدہ نے ان سے اپنا خواب بیان کیا کہ اللہ نے میری نذر قبول کی ہے اور مریم کو قبول فرمایا ہے اور اللہ ہی کے حکم سے میں مریم کو مسجد میں لیکر آئیں ہوں کہ حضرت زکریا علیہ السلام کے حوالے کر دوں- چنانچہ جب انہوں نے مریم کی والدہ کا خواب سنا تو ہر کسی کو خواہش ہوئی کہ اس مبارک بچی کی پرورش اور نگہداشت کی زمہ داری وہ اٹھائے- چنانچہ اس بات کو لیکر ان میں بحث ہونی لگی تب حضرت زکریا نے انہیں یہ مشورہ دیا-

پھر جب ان سب نے طشت میں پانی بھر کر اس میں اپنے قلم ڈالے- پھر سب کے قلم پانی میں ڈوب گئے سوائے حضرت زکریا کا قلم نہ ڈوبا اور پانی میں تیرتا رہا اور الٹی سمت میں بہنے لگا اور یہی اللہ کو منظور تھا اور زکریا کیطرف مریم کو پالنا ٹھہرا- تب حضرت جبرائیل حضرت زکریا کے پاس آئے اور فرمایا، اے نبی اللہ اس لڑکی کو اللہ نے آپ کے زمے کیا پالنے کو ان کی ماں نے خواب میں دیکھا کہ اگرچہ یہ لڑکی ہے پھر بھی اللہ نے اس کو نذر میں قبول کیا- پس اسے مسجد میں لے جا کر رکھو اور اس کی نگہداشت کرو بیشک اللہ بہتر جانتا ہے جو ہونے والا ہے-

تب جو مسجد کے بزرگوں نے پہلے کہا تھا کہ لڑکی کو مسجد میں رکھنا درست نہیں جب حضرت مریم کی والدہ کا خواب سنا تو اجازت دے دی- پس حضرت مریم مسجد میں رہنے لگیں اور حضرت زکریا کی بیوی جو حضرت مریم کی خالہ یا ہمشیرہ تھیں وہ حضرت مریم کو پالنے لگیں- حضرت زکریا نے ان کے واسطے مسجد میں ایک حجرہ بنوا دیا- دن کو حضرت مریم اس حجرے میں مقیم رہتیں اور اللہ کی عبادت اوف زکر و اذکار میں مشغول رہتیں اور رات کو حضرت زکریا علیہ السلام انہیں اپنے ساتھ گھر لے جاتے-

مروی ہے کہ ایک دن حضرت زکریا علیہ السلام کسی کام کیوجہ سے جلدی گھر آ گئے اور حضرت مریم علیہ السلام حجرے میں ہی بند رہیں اور حجرہ مقفل تھا- اور حضرت زکریا تین دن تک مسجد میں نہ جا سکے- تیسرے دن رات کو آپ کو حضرت مریم کا خیال آیا تو آہ مار کر اٹھے اور مسجد کیطرف دوڑے اور دل میں یہی خیال کرتے جا رہے تھے کہ میری وجہ سے معصوم بچی تین دن سے بھوکی پیاسی حجرے میں بند ہے شائد اب تک تو مر چکی ہو گی- پس جلدی سے جا کے مسجد کا دروازہ کھولا- دیکھتے ہیں کہ انواع و اقسام طرح بطرح کا کھانا اور میوے ان کے سامنے دھرے ہیں- اور مریم نماز پڑھتی ہیں جب نماز سے فراغت کی حضرت زکریا نے پوچھا، اے مریم یہ کھانا اور میوے اس مقفل کوٹھڑی کے اندر کہاں سے آئے کون لایا- وہ بولیں اللہ کے ہاں سے آیا فرشتے لائے ہیں-

تبصرے بند ہیں۔