من تو شدم تو من شدی 

محمد طارق اعظم

 اسلام میں خاندان ایک بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے کہ اسی سے معاشرے کا ڈھانچہ اور تانا بانا بنتا ہے۔ اسلام خاندان کی شیرازہ بندی اور اجتماعیت کی بےپناہ تاکید کرتا ہے اور ہر ایسے عمل کو جرم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرتا ہے جس سے خاندان کی شیرازہ بندی اور اجتماعیت متاثر ہوتی ہو۔ اسلامی پردے کا نظام اور قانون سے بھی مقصود دراصل خاندان کی اجتماعیت اور شفافیت کا تحفظ ہے۔ پارہ اٹھارہ سورہ نور میں اس تعلق سے خاص احکام بیان کیے گئے ہیں، بہ طور خاص آیت نمبر ستائیس تا تینتیس میں پردے کے احکام کی تفصیلات ذکر کی گئی ہیں، آیت نمبر تیس میں مردوں کو غضِّ بصر (نگاہ نیچی ) یعنی آنکھوں کے پردے کا حکم دینے کے بعد اس کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ہے : ذٰلِكَ أَزْكَى لَھُمْ (۱) ( اس میں خوب ستھرائی ہے ان کے لیے ) اور اس سے پہلے آیتِ استیذان میں ارشاد ہے:هُوَ أَزْكَى لَكُمْ (۲) ( اس میں خوب ستھرائی ہے تمہارے لیے)۔ ان آیتوں سے جہاں اسلام میں خاندان کی اہمیت صاف ظاہر ہے وہیں اس (پردے کے احکام ) سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ فرد سے لے کر خاندان اور معاشرے تک کی ظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے پاکیزگی، ستھرائی اور شفافیت مقصود ہے۔

 خاندان کی اہمیت اس سے بھی آشکارا ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں آیات احکام جو کہ قرآن کریم کے کل آیات کا تھوڑا حصہ ہے کا زیادہ تر تعلق عبادات کے ساتھ خاندانی نظام سے ہے۔ اس تعلق سے ذیل کے اقتباس کا مطالعہ کرنا دلچسپی اور فائدے سے خالی نہیں ہوگا؛ ” قرآن مجید کی آیات احکام کی تعداد نسبتا قلیل ہے۔ قرآن مجید کی چھ سو سے زائد آیات میں تین سو کے لگ بھگ آیات ایسی ہیں جن کو آیات احکام کہا جاتا ہے۔ یہ تین سو آیات وہ ہیں جن میں براہ راست فقہی احکام اور قانونی اصول بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور آیات سے بعض اہل علم نے بلاواسطہ احکام کا استنباط کیا ہے۔ یہ آیات جن سے بلاواسطہ احکام کا استنباط ہوا ہے دو سو کے قریب ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساری آیات احکام مجموعی طور پر پانچ سو سے زائد نہیں ہیں۔ یہ تعداد قرآن مجید کی کل آیات کے تیرہویں حصے کے قریب قریب ہے۔ پھر آیات احکام میں بھی زیادہ زور جن دو پہلوؤں پر دیا گیا ہے وہ عبادات اور خاندانی زندگی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آیات احکام کی ایک تہائی تعداد عبادات کے بارے میں ہے اور ایک تہائی خاندانی زندگی کے بارے میں ہے۔ بقیہ ایک تہائی کا تعلق زندگی کے بقیہ پہلوؤں سے ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے خاندانی زندگی کے تحفظ کو کتنی اہمیت دی ہے۔ قرآن مجید نے ہر ایسی کوشش کو جس کا مقصد خاندان میں افتراق پیدا کرنا ہو شیطان کی سحرکاری قرار دیا ہے اور اس کو ایک کافرانہ عمل ٹھہرایا ہے۔ “(۳)

 اور یہ خاندانی نظام جس محور پر گردش کرتا ہے وہ محور شوہر اور بیوی کا آپسی تعلق یا بہ الفاظ دیگر ازدواجی تعلق ہے، جس سے خاندان کا ادارہ وجود میں آتا ہے۔ ازدواجی ( شوہر اور بیوی کا آپسی )تعلق کی حیثیت خاندانی نظام میں روح اور قلب کی مانند ہے کہ اس کے حسن و قبح اور اچھے برے تعلق کا اثر براہِ راست اثر خاندان پر پڑتا ہے، یعنی اگر شوہر اور بیوی کے آپسی تعلقات حسین اور خوش گوار ہیں تو خاندان کا نظام بھی حسین اور خوش گوار ہوتا ہے اور اس خوش گوار ماحول میں پلنے اور بڑھنے والے بچے بھی ذہنی اور جسمانی اعتبار سے صحت مند اور تندرست رہتے ہیں اور اگر شوہر بیوی کے درمیان تعلقات ٹھیک ٹھاک نہیں ہیں بلکہ کچھ اونچ نیچ ہے ان بن ہے یا تعلق میں تلخیاں در آئی ہیں تو خاندان کا نظام بھی اس سے چرمرا کر رہ جاتا ہے اور بے اعتدالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس ناخوش گوار اور چر مرائے ہوئے ماحول میں پلنے اور بڑھنے والے بچے بھی ذہنی اور جسمانی اعتبار سے غیر صحت مند اور صحیح نشوونما محروم ہوتے ہیں۔

گویا نظام خاندان کے صلاح و فساد اور اچھے برے ہونے کا تمام تر انحصار ازدواجی تعلق کے صلاح و فساد اور اچھے برے ہونے پر ہے۔ سورہ نساء کی پہلی آیت میں جسے خطبہ نکاح میں بڑے اہتمام سے پڑھا جاتا ہے اس باہمی تعلق اور اس سے متعلق حقوق کی ادائیگی کے اہتمام کو بڑے ہی دلنشین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے، ارشاد باری ہے:

 يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا. (۴)

 (اے لوگو اپنے پروردگار سے تقوی اختیار کرو جس نے تم (سب) کو ایک ہی جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہ کثرت مرد اور عورتیں پھیلا دیے، اور اللہ سے تقوی اختیار کرو، جس کے واسطہ سے ایک دوسرے سے مانگتے ہو، اور قرابتوں کے باب میں بھی (تقوی اختیار کرو)، بیشک اللہ تمہارے اوپر نگران ہے۔ )

  اس آیت کے فوائد کے ذیل میں تفسیرِ ماجدی کا یہ مختصر جملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے؛  ”اور اس نگرانی میں انسان کے ذاتی، خانگی، اجتماعی سارے معاملات آگئے، اگر اس کا استحضار رہے تو آج خانگی زندگیاں کس قدر خوشگوار ہوجائیں ! “(۵)

 یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ازدواجی تعلقات کے صلاح کی خوب تاکید کی گئی ہے اور اس صلاح کو یقینی بنائے جانے کے لیے مناسب احکام و ہدایات بھی دی گئیں، اس کے بالمقابل ازدواجی تعلقات کے فساد کی مکمل طریقے سے بیخ کنی کی گئی اور ہر اس کوشش اور عمل کو جس سے اس مقدس اور مبارک تعلق میں فساد پیدا ہو سکتا ہو اسے شیطانی عمل قرار دیا گیا۔ یہاں تک کہ جھوٹ جو کہ اسلام میں انتہائی نا پسندیدہ فعل ہے اس کے باوجود ازدواجی تعلق کے صلاح اور خیرکے مقصد کے پیش نظر بعض موقعوں پرمباح اور پسندیدہ قرار دیا گیا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے واضح ہے، جس کو حضرت ام کلثوم ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے اس ذات گرامی یعنی آں حضرت ﷺ سے ایسی کوئی بات نہیں سنی جس سے ثابت ہوتا ہو کہ آپ نے ان میں سے کسی بات کی اجازت دی ہو جس کو لوگ جھوٹ کہتے ہیں، یعنی آپ نے کسی معاملہ میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دی، سوائے تین باتوں کے ایک جنگ کی حالت میں، دوسرے لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کرانے میں اور تیسرے جبکہ شوہر اپنی بیوی سے باتیں کر رہا ہو اور بیوی اپنے شوہر سے باتیں کر رہی ہو۔ (۶)

 قرآن کریم نے اپنے اعجازانہ انداز میں ازدواجی تعلق کو انتہائی فصیح و بلیغ لفظ سے اس طرح تعبیر کیا ہے؛

هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ.(۷)

وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔

 یقین جانیے کہ ازدواجی تعلق کو بیان کرنے کےلیے اس سے بہتر کوئی تشبیہ ہوتی تو قرآن اسے بیان کرتا، قرآن کا اس تشبیہ کو بیان کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ذخیرہ الفاظ اور لغات میں اس مقدس اور مبارک تعلق کو بیان کرنے کےلیے اس جیسی کوئی اور تشبیہ نہیں اورنہ اس کا متبادل ہے۔ اس تشبیہ لباس میں مکمل فلسفۂ ازدواجیت از حکمت تا احکام دریا بہ کوزہ کی مانند سمو دیا گیا ہے، گویا تمام فوائد و احکام ازدواج جو اسلام میں بیان کیے گئے ہیں اسی ایک تشبیہ لباس کی تفسیر اور تشریح ہے۔ حضرت صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ فلسفہ لباس کے عنوان سے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؛  ”آگے عورتوں کو بہ منزلہ لباس قرار دے کر لباس کی حکمت اور فلسفہ بھی بیان کردیا۔ ھن لباس لکم یہ عورتیں تمہارے لیے لباس کی مانند ہیں وانتم لباس لھن اور تم ان کے لیے بہ منزلہ لباس کے ہو۔ گویا ان دو جملوں میں پوری ازدواجی زندگی کا فلسفہ بیان کردیا ہے، لباس انسان کے جسم کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے، جس طرح انسانی جسم اور لباس کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا، اسی طرح میاں بیو ی کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا تم اپنی عورتوں سے مستفید ہو سکتے ہو۔ لباس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کو زینت حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر لباس کی حکمت اور فلسفہ خود بیان فرمایا ہے؛ وانزلنا علیکم لباسا یواری سوا

تکم وریشا۔ (۸) یعنی ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا، اس کے دو فائدے ہیں، ایک تو یہ ستر پوشی کرتا ہے، جو فطری چیز ہے کہ اس کے بغیر انسان اور حیوان میں امتیاز باقی نہیں رہتا اور دوسرا یہ زینت کا باعث بھی ہے۔ الناس باللباس لوگ لباس کے ساتھ ہی جچتے ہیں، لباس کے بغیر کوئی زینت نہیں، چونکہ عورت مرد کے لیے زیب وزینت کی بنیاد ہے اس لیے عورت کو لباس کے ساتھ مشابہت دی، اس کے علاوہ ایک تیسرا اخلاقی پہلو بھی ہے، عورت اس لحاظ سے لباس ہے کہ یہ انسان کے عیوب کو چھپانے کا ذریعہ بھی ہے۔ انسان کو حیوان کے مقابلہ میں ایک تمدنی حیثیت حاصل ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت آپس میں نکاح کرنے کے بعد اپنے فطری جذبہ کو پورا کرتے ہیں۔ اس لیے عورت اور مرد کو ایک دوسرے کے لباس سے تشبیہ دی گئی ہے۔ “(۹)

 اسی لباس کی تشریح اور تفسیر بہ انداز دگر اردو کے ادیب شہیر حضرت مولانا عبد الماجد دریابادی ؒکے رواں دواں قلم سے ملاحظہ کریں ؛ ” (قرب واتصال کے لحاظ سے، یا ایک دوسرے کے پردہ دار اور موجب تسکین ہونے کے لحاظ سے) گویا اردو محاورہ میں، دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے، وہ ان کے حق میں اوڑھنا بچھونا ہیں اور یہ ان کے حق میں۔ یہ لباس کی تشبیہ کس اعتبار سے ہے ؟ مختلف زبانوں سے اس کے مختلف جوابات ملتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ایک دوسرے کے محتاج ہونے کی بنا پر کسی نے کہا کہ اجسام کی ملابست وملامست کی بنا پر۔ وقس علی ھذا۔ لیکن غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ انسان کے حق میں لباس کا ایک وصف امتیازی اس کی پردہ پوشی ہے۔ لباس جسم کے عیبوں کو چھپاتا ہے، اس کے حسن و خوبی کو ابھارتا ہے، تشبیہ سے خاص اشارہ اسی وصف کی جانب معلوم ہوتا ہے۔ گویا ہر اسلامی خاندان میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا پردہ پوش ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کی زینت کو بڑھانے والا۔ جو انتہائی گہرا رشتہ اور تعلق میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے اس کی بنا پر ظاہر ہے کہ جتنا موقع ایک کو دوسرے کے جسمانی، اخلاقی، روحانی عیبوں اور کمزوریوں پر مطلع ہونے کا ملتا ہے اتنا نہ کسی دوست کو مل سکتا ہے نہ کسی عزیر کو اور نہ ایک کا کوئی راز دوسرے سے مخفی رہ سکتا ہے۔ اسی صورت حال میں عورت کے اخلاق کا کمال یہی ہے کہ شوہر کی ہر کمزوری کو چھپائے، اس پر صبر کرے، اسے بہتر سے بہتر صورت میں ظاہر کرے، اور ع : ناخوش تو خوش بود برجان من کا ثبوت قدم قدم پر پیش کرے۔ علی ہذا مرد کے بھی کمال اخلاق کی یہی معراج ہے! دونوں کی اخلاقی تکمیل کا یہ موثر ترین نسخہ اسلام نے باتوں باتوں میں بغیر کسی شدید اور پر تعب مجاہدہ میں ڈالے ہوئے روز مرہ کے لطیف وسہل مجاہدات کے ذریعہ بتادیا۔ یہ اس مذہب کی تعلیم ہے جو فرنگی ” محققین “ کی نظر میں پست اس لیے ہے کہ اس میں عورت کی تحقیر کی گئی!ع : کتنا غلط یہ حرف بھی مشہور ہوگیا! کون جھوٹ اس سے بڑھ کرسخت، کونسا اتہام اس سے بڑھ کر صریح ہوگا ؟ منوسمرتی والے ہندومذہب کا ذکر نہیں، عہد عتیق وجدید والے یہودی ونصرانی مذہبوں سے سوال ہے کہ ان کے سارے دفتر کتب واسفار میں کون سی تعلیم زن وشو کے باہمی تعلق، محبت واعتماد کے باب میں اس درجہ کی ہے ؟۔ “ (۱۰)

 اس فلسفہ لباس کی مکمل اور دلکش تصویر دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں تو محسن انسانیت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کو دیکھ لیں جو چلتے پھرتے مجسم قرآن تھے، جن کی ہر ہر ادا قرآن کریم کی زندہ جاوید تشریح و تفسیر تھی۔ آپ نے مکمل بھرپور ازدواجی زندگی گذاری، آپ کا اپنی ازواج سے تعلق حاکمانہ اور مالکانہ نہیں تھا بلکہ محبت اور مودت کا تعلق تھا، آپ ان کی دل جوئی فرماتے، ان کے روزمرہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے اور ہر طرح سے ان کا خیال رکھتے اور ان کی تربیت فرماتے۔ کاش کہ اپنے قرآن اور نبی پر ایمان رکھنے والے اور قرآن کو کتاب الٰہی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول یقین جاننے والے اس فلسفہ لباس کے راز کو پا لیں تو یقین جانیے کہ ان کے سارے معاشرتی مسائل حل ہیں اور غیر جنہیں اعتراض کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں وہ بالکل خالی الذہن اور غیر جانب دار تعصب سے ہٹ کر اس فلسفہ لباس پر سرسری اور اچٹتی نگاہ ہی ڈال لیں تو ان کی نگاہ ٹھٹکے  بنا رہ نہیں پائی گی اور اگر انہیں فلسفہ لباس کا سراغ مل گیا تو یقیناً ان کے سارے اعتراضات جو نکاح پر ہیں بھک سے اڑ کر رہ جائیں گے، مگر انصاف شرط ہے۔

 حضرت امیر خسرو رح کے ذیل کے مشہور فارسی شعر میں اس آیت (هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ، وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو) کے مفہوم و معانی اغراض ومقاصد سمیت گویا سمٹ کر آ گئے ہیں، ملاحظہ کیجیے؛

من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُد ی

تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگر ی 

میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے

 پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے

۔ ۔ ۔ ۔

(۱) قُلْ لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ يَغُـضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِهِمۡ وَيَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَهُمۡ‌ ؕ ذٰ لِكَ اَزۡكٰى لَهُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا يَصۡنَـعُوۡنَ.

کہہ دے ایمان والوں کو نیچی رکھیں ذرا اپنی آنکھیں اور تھامتے رہیں اپنے ستر کو اس میں خوب ستھرائی ہے ان کے لیے، بیشک اللہ کو خبر ہے جو کچھ کرتے ہیں۔ ( سورہ نور ۲۴، آیت ۳۰ )

(۲) آیتِ استیذان یہ ہے؛يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُيُوۡتًا غَيۡرَ بُيُوۡتِكُمۡ حَتّٰى تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَتُسَلِّمُوۡا عَلٰٓى اَهۡلِهَا ‌ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ.

اے ایمان والو ! مت جایا کرو کسی گھر میں اپنے گھر کے سوائے جب تک بول چال نہ کرلو، اور سلام کرلو ان گھر والوں پر یہ بہتر ہے تمہارے حق میں تاکہ تم یاد رکھو۔ ( سورہ نور ۲۴، آیت ۲۷)

(۳) قرآن مجید ایک تعارف، ص ۳۹، ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ۔

(۴) سورہ نساء ۴، آیت ۱۔

(۵) تفسیر ماجدی ص ۲۱۱۔

(۶) صحیح مُسلم /کتاب البر و الصلۃ و لاآداب / با ب ۲۷۔

(۷) سورہ بقرہ۲، آیت ۱۸۷۔

(۸) سورہ أعراف ۷، آیت ۲۶۔

(۹) معالم العرفان جلد ۳ص ۲۰۴۔

(۱۰ ) تفسیر ماجدی ص ۹۲۔

تبصرے بند ہیں۔