الجھے رہیں گے زلف شکن در شکن سے ہم

جمالؔ کاکوی

واقف نہیں اے ہم نوا کچھ علم و فن سے ہم
اشعار کہ رہے ہیں پر سو سو جتن سے ہم

دل میں ہزاروں شوق کی کلیاں چٹک گئی
دو بات کر کے آئے کیا شریں دہن سے ہم

ظالم کی کیا مجال وطن سے نکال دے
لپٹے رہیں گے مر کے بھی خاک وطن سے ہم

دائم رہے گی قائم ذوق سخن وری
الجھے رہیں گے زلف شکن در شکن سے ہم

آنکھوں کا نور دل کاخمار ذہن کا فطور
خاک ہو رہیں گے بندھ کر کفن سے ہم

اپنی وضع ہے یہ میرا اپنا معیار ہے
منسوب ہو رہیں جو طرز کہن سے ہم

ممکن نہیں پھر ہمیں ناکامیاں ملے
کرتے رہیں جو کام کو پوری لگن سے ہم

کر کر کے وعدے اسنے فراموش کردیا
شکوہ کرے تو کیوں کرے وعدہ شکن سے ہم

کیسا جمالؔ آپ کا کچھ نہیں جمال
پہچانے جا رہیں ہیں فقط پے رہن ہم

1 تبصرہ
  1. ریاض فردوسی کہتے ہیں

    بہت ہی شاندار غزل

تبصرے بند ہیں۔