مواقف بكي فيها النبيﷺ

 محمد انس فلاحی سنبھلی

مصنف: خمیس السعید، صفحات: 171،ناشر:  الناشر العربی، 2002ء ۔

جامعہ کے مکتبے میں سیرت نبویﷺ پر کتابوں کو تلاش کر رہا تھا، اچانک ایک کتاب پر نگاہ ٹک  گئی۔ کتاب  کا نا م مواقف بكي فيها النبيﷺ  تھا۔ جو  رسول اللہ ﷺ کی آشکباری کی داستان ہے ۔ کتاب دیکھ کر خوشی ہو ئی کہ سیرت نبویﷺ ہم تک کتنے محفوظ طریقے سے پہنچی ہے  اور سیرت نگاروں نے اس حوالے سے کس قدر محنت اور لگن سے کام کیا ہے کہ حضور ؐ کی سیرت کا کوئی کا گوشہ ایسا نہیں جس کے تعلق سے یہ کہا جا سکے کہ اس پہلو  سے کتبِ سیرت خاموش ہیں۔

سیرت نبویﷺایک  ایسا عنوان ہے، جس کا ہر پہلو، ہر گوشہ، ہر لمحہ  اور ہر ادا کو سیرت نگاروں نے کڑی محنت اور بڑی لگن سے قلمبند کیا ہے۔ یہ کام ہر زبان میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ عربی زبان کو اس حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ سیرت نبویﷺ  پرجس قدر اور جتنا معیاری کام اس زبان  میں ہوا ہے، دیگر زبانوں میں کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس عنوان پر اردو مصنفین کی بھی گراں قدرخدمات ہیں۔ جنہوں نے سیرت نبویﷺ کے بعض ایسے گوشوں کو اجاگر کیاجن پر اب تک  دیگر زبانوں میں کام سرے سے نہیں ہواتھایا مستقل عنوان سے  نہیں تھا۔ ان اردو مصنفین میں علامہ شبلی ؒ، علامہ سید سلیمان ندوی ؒ، ڈاکٹر محمد حمید اللہ ؒ، قاضی سلیمان منصور پوریؒ اور نعیم صدیقی   ؒ کے نام نمایاں ہیں۔

” مواقف بكي فيها النبيﷺ” کے مصنف خمیس السعید ہیں۔ مصنف نے مواقف من حیاۃ النبیﷺ کے  عنوان سے چار کتابیں لکھی ہیں۔

1۔مواقف بکی فیھا النبی ﷺ

2۔ مواقف عضب فیھا النبیﷺ

3۔مواقف ضحک فیھا النبیﷺ

4۔مواقف مزح فیھا النبیﷺ

یہ کتاب 171 صفحات پر مشتمل ہے۔ دار الناشر العربی سے 2002ء میں شائع ہوئی تھی۔ کتاب کو دو ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں آشکباری کی ترغیب  کے تعلق سے قرآن وسنت اور علماء سلف وخلف کے اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ باب ثانی میں ان مواقع کا ذکر کیا ہے جب رسول اللہ ﷺ اشکبار ہو گئے۔ کچھ واقعات اتنے اثر انگیز اور دل پذیر ہیں کہ ایمان کی شمع روشن ہو تو  سخت دل والوں کی بھی آنکھیں نم ہو جائیں۔

اس حوالے یہ واقعہ بڑا دلپذیر  ہے۔ جب رسول اللہ ﷺنےغزوہ حنین سے حاصل مالِ غنیمت کو قریش اور دیگر قبائل عرب کو دیا اور انصار کو کچھ نہ ملا، یہاں تک کہ بعض کی زبان پر بعض کلمات شکایت آمیز آئے، حضور ﷺ نے سنا تو آپؐ   کو ناگوار گزرا۔ حضرت سعد بن عبادہ انصاریؓ کو بلایا، فرمایا : تمہار ی قوم انصار کی طرف سے مجھے یہ کیا سننے کو مل رہا ہے، عرض کیا : حضور جو کچھ سنا وہ واقعہ ہے، فرمایا تو اس وقت تم کہاں تھے، عرض کیا : میں بھی اپنی  قو م کا ایک فرد ہوں لہذا قومی ہمدرد ی میں شریک ہوگیا، حضورﷺ  کا جلال  بڑھ گیا، فرمایا:  اپنی قوم کو جمع کرو اور ان کے علاوہ کوئی نہ ہو، سب انصار مال غنیمت کے باڑے میں جمع ہوئے، حضرت سعدبن عبادہ ؓ  سب کو ہی بلا لائے تھے اور خود دروازہ پر کھڑے سب کی نگرانی کررہے تھے، حضور ﷺتشریف لائے اس حال میں کہ چہرہ اقدس سے غضب کے آثار نمایاں تھے، فرمایا : اے گروہ انصار ! کیا  میں نے تم کو گمراہ  نہ پایا کہ پھر اللہ  تعالیٰ نے تم کو ہدایت دی؟ سب ہیبت زدہ بول اٹھے، ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اللہ کے غضب اور رسول کے غضب سے، پھر فرمایا : اے گروہ انصار ! کیا  میں نے تم کو نادار نہ پایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو غنی کر دیا ؟  سب نے عرض کیا: ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اللہ کے غضب اور رسول کے غضب سے،، فرمایا : کیوں جواب کیوں نہیں  دیتے؟ بولے :  اللہ و رسول کا احسان اور فضل بڑا ہے۔ جب حضورﷺ  کا غم ہلکا ہوا تو فرمایا : اگر تم چاہو تو جواب میں یہ بھی کہہ سکتے ہو اور تم اپنے قول میں سچے قرار دئیے جاؤ گے، کہ یا رسول اللہ ! کیا ہم نے آپ کو بے ٹھکانا نہ پایا کہ اپنے یہاں ٹھکانا دیا،  آپ کی قوم نے   جھٹلایا  تو ہم نے تصدیق کی، آپ حاجت  مند تھے  تو ہم نے اس کو  پورا کیا، اور بے یارو مدد گار تھے تو ہم نے مدد کی۔

حضور ﷺ کی طرف سے یہ باتیں سن کر  انصار  رونے لگے اور بار بار کہتے : اللہ و رسول کا  فضل و احسان  بڑا ہے، پھر حضورﷺ نے فرمایا : میں  نے جو کچھ کسی قوم کو دیا  وہ محض  تالیف قلب کے لئے  دیا، اورتمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا کہ تمہاری طرف سے کامل اطمینان ہے، سنو!  تمہاری فضیلت یہ ہے کہ اگر لوگ کسی وادی یا گھائی کی طرف ہوں او ر تم دوسری طرف تو میں تمہاری طرف رہوں گا، تم استر کی مانند ہو اور دوسرے لوگ ابرہ کی  طرح ہیں، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا، پھر خوب اونچے ہاتھ اٹھا کر دعا کی، الہی ! انصار کی بخشش فرما۔ اور ساتھ ہی ان کے بیٹوں اور پوتوں کی بھی مغفرت فرما، اے انصار ! کیا  تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ لوگ تو اپنے گھروں کو بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم اللہ کے رسولﷺ کو لےکر اپنے  وطن پہونچو، یہ سن کر لوگ اتنا روئے کہ داڑھیاں تر ہو گئیں۔ جب واپس  ہوئے تو سب کی زبان پر جاری تھا، ہم اللہ اور اس کے رسولﷺکے عطیہ سے بخوبی  رضا مند اور خوش ہیں۔ ص 145۔ 146

غرض  حضور ﷺ کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کے تعلق سے کتب ِسیرت میں علمی ذخیرہ موجود نہ ہو۔ مذکورہ عنوان پر ایک اردو کتاب ”رسول اللہ ﷺ کے آنسو ”بھی  موجود ہے۔ جس کے مؤلف  حافظ عبد الشکور (پاکستان)ہیں۔ اس کتاب میں بھی مولف نے 50 واقعات ذکر کیے ہیں جو 140 صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔