موبائل: فوائد اور نقصانات

محمد صادق جمیل تیمی

دور حاضر میں موبائل کی اہمیت سے ہر فرد بشر واقف ہے اس کی روز افزوں ترقی نے انسان کو اپنی جانب مائل کر دیا ہے۔ یہ اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے  ’’ إن تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا، ، ( سورۃ ابراھیم : ۳۴) کے پیش نظر موبائل کونعمت الٰہی شمارکیا جاے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیوں کہ ہم اس چھوٹی سی چیز سے گھر بیٹھے پوری دنیا کی خبریں چشم زدن ہی میں حاصل کر لیتے ہیں۔ قریبی رشتہ دار، دوست واحباب کی خبر خیریت معلوم کرکے حقوق انسانی کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں، نیز اصلاح معاشرہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کو بذریعہ گفت شنید ( SMS ) کے انجام دے کر { کنتم خیر امت اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر }( سورۃ آل عمران: ۱۱۰) کی فہرست میں اپنا نام اندراج کراسکتے ہیں۔ اصلاح بین الناس جس کا آج معاشرے میں فقدان ہے، اسے صحیح عملی جامہ پہناکرلو گو ں کے اندر دوبارہ ایک اسلامی روح پھونک سکتے ہیں اور ایک صاف ستھرا و شائستہ معاشرہ کی تشکیل کر سکتے ہیں، نیز ’’ فسئلوأھل الذکر إن کنتم لا تعلمون،، ( سورۃ النحل : ۴۳) کا بھی حق ادا کرسکتے ہیں الغرض موبائل اس اعتبار سے انسانی زندگی کے لیے ڈھیر سارے فوائد کا حامل ہے۔ بلکہ حیات انسانی کا اب یہ ایک اٹوٹ حصہ بن چکا ہے۔

بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ موبائل اتنی اہم اور فائدہ مند چیز ہونے کے باوجود ضرورت سے زیادہ تفریح نفس کا ذریعہ بن گیا ہے غیرت کا فقدان اور اسلام سے دوری ہی کہیے کہ ہمارے معاشرے میں کوئی خاطر خواہ اقدام کے بجاے اس میں اختراع جدید کے ذریعہ فحش پروگراموں کی  پذیرائی ہورہی ہے جس کے ذریعہ بے حساب بگاڑ معاشرے میں جنم لے رہے ہیں۔ جن میں چند ذیل کی سطورمیں رقم کئے جارہے ہیں، ملاحظہ ہوں :

 (1)تضیع اوقات کا سبب :

وقت اللہ کی ایک بیش بہا اور گراں مایہ نعمت ہے جو سونے و چاندی سے بھی قمیتی ہے جسے مانند تلوار کہا گیاہے۔ جس کے بارے میں آئندہ قیامت کے دن محاسبہ بھی ہوگا نبی ﷺ کا ارشاد ہے :’’ لا یزول قدماابن آدم حتی یسأ ل عن خمس۔ ۔ ۔ ۔ وفیہ عمرہ ماذا عمل فیہ؟‘‘ اور سیدنا علی کا قول :’’ الوقت کا لسیف ان لم تقطعہ یقطعک ‘‘ اور عرب کا قول :’’ الوقت اثمن من الذھب ‘‘ لیکن اس موبائل نے ایسی لا ثانی چیزکو بے وقعت بنا کررکھ دیا ہے۔ آج ہماری نئی نسل میں وقت کی قدر نہیں، اس کے صحیح استعمال کے طریقے نہیں معلوم، لایعنی و عبث اشیا میں اسے صرف کرتے ہیں جس کا انجام بعد میں ناکامی کی شکل میں زندگی میں مرتب ہوتا ہے پھر اس کا ٹھیکرا اساتذہ و والدین پر پھوڑتے ہیں اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

(2)تعلیم میں رکاوٹ :

علم جو کہ ترقی کا راز ہے، زندگی کا ساز ہے علم صاحب علم کو بے تاج بادشاہ بنا دیتا ہے جس کی مثال سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں، علم کتنی عظیم شی ہے ایک عربی شاعر کہتا ہے :’’ العلم یرفع بیتاً لا عمادلہ، والجھل یھدم بیت العز والشرف‘‘ لیکن  یہ موبائل ملت کے نونہالوں کو مستقبل کے بارے میں بالکل لا پرواہ کر دیا ہے اور کل وقت اسی میں صرف کرتے ہیں۔ تعلیم گاہوں و خانقاہوں اور عبادت گاہوں میں عبادت میں توجہ دینے کے بجاے موبائل کے اسکرین میں دوسرے کو جواب دینے اور مسیجیز لکھنے میں صرف کرتے ہیں جو قابل افسوس اور امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ افسو س تو اس وقت ہوتا ہے جب بعض مساجد میں یہ مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ائمہ مساجد نماز سے قبل اور اس کے بعد موبائل ہی اپنے اوقات کو لگا تے ہیں !!!!

(3) اخلا ق حسنہ کا بگاڑ :

اخلا قی پاکیز گی ایساجامع وصف ہے جس کی بدولت آج امت میں اسلام پھیلتا ہوا ہم تک بڑی آسانی سے پہنچاہے۔ جس کی گواہی خود اللہ نے دی ہے :{ وانک لعلی خلق عظیم }او رخود نبی ﷺ نے بہترانسان ہونے کی سرٹیفیکٹ دیتے ہوے فرمایا : ’’ وإن من خیارکم احسنکم اخلاقا‘‘ لیکن موبائل نے جوانوں کے بیچ میں اپنا پنجہ جمایاتو اسے عظیم وصف سے کوسوں دور کردیا اوراخلاقی پاکیز گی کی جگہ بے حیائی کو تحفہ میں دیا، بلکہ اس کے ذریعہ سے انسانیت سوز حرکتیں کی جاتی ہیں جس سے خودشیطان شرم شار ہے۔

(4) فحش کی ترویج :

ٹی وی انٹر نیٹ کے بعد فحش اشیا کی ترویج میں جس چیز کا سب سے بڑا ہاتھ ہے وہ موبائل ہے چوں کہ اس سے غلط ( SMS ) او رکیمر ے کا استعمال بھی فحاشیت کی ترویج میں ہورہا ہے موبائل پر نیٹ کے ذریعہ مغربی قوموں کی عریانی تصویریں دکھائی جاتی ہیں او ربے غیرت نوجوان غیروں کی شرم گاہ کو اجتماعی شکل میں بڑا مزا لے لے کر دیکھتے ہیں  او ر اپنی جوانی کو بے دریغ برباد کرتے ہیں جس کے بارے میں رب دوجہاں فرمایا :{ إن الذین یحبون أن تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا والآخرۃ } (سورۃ النور: ۱۹)

(5) زناکا بڑھتا ہوا رجحان:

ظاہر سی بات ہے کہ جب موبائل کی اسکرین پر جنسی ہیجان برانگیختہ کرنے والی عریان تصوریں نیم عریاں لباس میں ملبوس عورتوں کی جسمانی نمائش او رجذبات کو بھڑکانے والے فحشی پروگراموں سے نظرو ں کی آبیاری ہوتی ہوتو پھر کیا عالم ہوگا۔ اس پر بھی مستزاد یہ ہے کہ موبائل فرینڈ شیپ ایک عام سی بات ہوگئی ہے بلاضرورت مسڈکال اناب شناب ( SMS ) بھیج کر اجنبی لڑکی سے دوستی کرلی جاتی ہے اور میٹھی میٹھی اور پیاری پیاری بات کرکے عشق لڑایا جاتا ہے اس کے بعد وہ سارا کا انجام دے بیٹھتا ہے جو صرف ایک مردکو اپنی بیوی سے ہی مجاز ہوتا ہے۔ اس ناجائز حرکت پر بندش لگاتے ہوے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’ فلاتخضعن بالقول فیطمع الذین فی قلبہ مرض،،(احزاب:۳۲) یعنی اگر تمہیں غیرمردوں سے گفتگو کرنے کی ضرورت پڑے تو اس نرم انداز میں گفتگو نہ کرو کیوں کہ بیماردل انسان لا لچ کرنے لگے گا اور عورتوں کے لچک دار گفتگو او رنرم انداز، ہنس مکھ چہرہ دائمی مرض کا سبب بن جاتا ہے۔

(6) اعضاء انسانی کا متاثر ہونا :

ہنگری کے سائنس دانوں کے 2004 ء کے سروے کے مطابق پینٹ کے پیچھے جیبوں میں موبائل رکھنے والوں کے مقدار منویہ میں 30% کی کمی آتی ہے۔ او رسیل فون کمپنی کے اعلی انتظامی افسراور دے گے کا کہنا ہے کہ ہم سالوں سے اس موضوع پر لاکھو ں ڈالر خرچ کرکے کام کیا ہے جانوروں، چوزوں، اور چوہوں پر تجربہ کیا ہے کہ ہمارے نتائج 53% تک درست ثابت ہوے ہیں کہ موبائل کے استعمال سے حافظہ کمزور ہوسکتا ہے اسی طرح TATA میموریل اسپتال ( ممبئی ) کے ماہر ڈاک راکیش جلالی کا بیان ہے کہ موبائل کے زیادہ استعمال سے قوت سماعت متاثر ہوتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ موبائل فون مغربی دنیا کی ایجاد ہے جو بے بہا فائدے کے ساتھ ساتھ تباہی وبربادی کاآلہ کار بھی ہے جو کہ بنی نوع انسان کے لیے عذاب کی شکل اختیا کرگیا ہے آج خصوصاً مسلم برادری کا کوئی بھی فرد ایسا نہیں جس کے ہاتھ میں یہ آلہ نہ ہو اس کا استعمال بڑے سے بڑے تاجر سے لیکر بھنگی تک کررہا ہے لوگوں کی اکثریت اس سے وہ سارا کام جو سینما ہالوں، کلبوں رقص گاہوں تک محدود تھے، گھر بیٹھے انجام دے رہے ہیں اوراپنی قیمتی زندگی کو برباد کررہے ہیں۔ اللہ ہمیں اس کے غلط استعمال سے بچائے۔

تبصرے بند ہیں۔