مہنگائی اور اس کا حل

ریاض فردوسی

ملک میں زر کے چلن (Circulation of money)میں جب اضافہ ہوجاتاہے، اس کے مطابق اشیاء اور خدمات کے پیداوار میں اضافہ نہیں ہو پاتا تو ان کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے، اسی کیفیت کو افراط زر(Inflation)یا مہنگائی کہتے ہیں۔ روزافزوں بڑھتی مہنگائ آج ہمارے ملک کے سنگین ترین وسائل میں سے ایک ہے۔ اس سے لوگوں کی زندگی دوبھر ہوتی جارہی ہے، سارا تخمینہ اور بجٹ فیل ہوتا جا رہا ہے، مہنگائ کی مار سے بیزار سرکاری اور منظم سیکٹر کے ملازموں کی مہنگائ بھتہ میں اضافہ کے دباؤ کے تحت اسے بڑھانا پڑھتا ہے۔ اپریل 2012ء میں تذکرئہ زمرہ کے ملازموں کو58 فیصدی مہنگائ بھتہ(D.A,=Dearness Allowence) دینا پڑرہا ہے۔ غور کرنے کی بات ہے مہنگائ میں اضافی واحد وجہ یہاں افراط زر نہیں ہے، آبادی کا اضافہ اشیاء خدمات کے سپلائی کا نہ بڑھنا لوگوں کو زیادہ سے زیادہ چیزوں کو حاصل کونے کی للک، سرکاری ٹیکس وغیرہ بھی ذمہ دار ہے، ہندوستان ہی میں نہیں دنیا کے بیشتر ممالک اس مسئلہ سے دوچار ہیں، ضرورت ہے کہ اس کا حل تلاش کیا جائے، یہ صارف کے حق میں ہوگا اور اس کا بھی تعاون درکار ہے بہتر پیداکاروں اور بیڑیوں کو بھی تعاون دینا چاہئے۔

مہنگائی اور بے روزگاری نے  عوام کی رات کی نیند اور دن کا چین غارت کر دیا ہے۔ کوئی دن جاتا ہو گا جب حکومت کی طرف سے کسی نہ کسی ضروری چیزکی قیمت میں اضافے کا اعلان نہ ہوتا ہو جو عوام کی تکلیف میں مزید اضافہ کا سبب نہ بنتا ہو۔ آٹا، چاول، دال، گھی، تیل، گوشت، سبزی غرض روز مرہ استعمال کی کوئی شے بھی اب عوام کی دسترس میں نہ رہی ہے۔ لوگ غربت سے تنگ آ کر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ آج جتنے پیسے گھر میں آتے ہیں اس حساب سے سوچنا پڑتا ہے، پہلے سو روپے کی بڑی حیثیت ہوتی تھی، اب وہی سو روپے کا نوٹ ایسے خرچ ہوجاتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا۔ جس حساب سے مہنگائی ہو رہی ہے، اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ دال چاول کھانا بھی بہت مشکل بن جائے گا۔

اگر رہن سہن میں سادگی اپنائی جائے تو بہت سے مسائل خودبخود حل ہو سکتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ آمدنی بڑھانے سے کہیں زیادہ اہم کام اخراجات میں کمی ہے۔

غریب طبقہ تو اس سے پریشان ہے ہی، متوسط طبقہ بھی بری طرح متاثر ہے اور حد تو یہ ہے کہ اب کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی مہنگائی کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔

ایک بار سیدنا عمر بن خطاب رضى الله عنه کے دورِ خلافت میں گوشت کی قیمت میں حد درجہ اضافہ ہوگيا۔ لوگ گوشت کی گرانی کی شکايت لے کر عمر فاروق رضى الله عنه کی خدمت میں پہنچے۔ عمررضى الله عنه نے ان کی بات سننے کے بعد کہا’’ اگر اس کا بھاؤ چڑھ گياہے تو کم کردو‘‘۔ لوگوں نے کہا’’ ہم تو ضرورت مند ہیں، گوشت ہمارے پاس کہاں ہے کہ ہم اس کی قيمت کم کرديں ؟‘‘ عمر رضى الله عنه نے کہا کہ دراصل میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اس کا استعمال کم کردو، کیونکہ جب اس کا استعمال کم ہوجائے گا تو اس کی قیمت بذاتِ خود کم ہوجائے گی۔ ( تاريخ دمشق6282، حلیة الاولیاء823)

علی بن ابی طالب رضى الله عنه کے زمانہ خلافت میں مکے کے اندر کسی موقعے سے زبيب (کشمش) کی قیمت بڑھ گئی۔ لوگوں نے خط لکھ کر کوفے میں موجود علی بن ابی طالب رضى الله عنه سے اس کا شکوہ کیا۔ تو انہوں نے یہ رائے تجويز فرمائی کہ تم لوگ کشمش کے بدلے کھجور استعمال کیا کرو کیونکہ جب ايسا کروگے تو مانگ کی کمی سے کشمش کی قیمت گرجائے گی اور وہ سستی ہوجائے گی۔ اگر سستی نہ بھی ہوتو کھجور اس کا بہترين متبادل ہے۔ (تاريخ ابن معين 168 التاريخ الکبير للبخاری3523) بازار میں استحصال کئ طرح سے ہوتا ہے۔ کبھی تاجر ناجائز جائز تجارتی عمل میں مشغول ہوتے ہیں، اور غیر مناسب طریقوں سے اشیاء کے دام لگاتے ہیں۔ اس سے بازار میں افراتفری کا ماحول بنا رہتا ہے، مہنگائی پرچنداقدام سےقابو پایاجاسکتا ہے۔

مانگ کو گھٹانا۔ مانگ بڑھنے پر قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے، اور مانگ گھٹنے پر کمی آجاتی ہے۔ لہذا دانستہ طور پر اشیاء اور خدمات کے ڈیمانڈ (Demand) کو قابو کرکے رکھنا چاہئے۔ یہ عمل(Controlling the hike) مہنگائی پر قابوہے۔

اشیاء و خدمات کی پیداوار جب بڑھ جاتی ہے تو قیمتیں گرنے لگتی ہیں، برعکس اس کے سپلائ میں کمی واقع ہوجانے پر قیمتوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ لہذا سپلائ میں اضافہ کی متواتر کوشیشیں ہوتی رہنی چاہئے، زراعت وصنعت اور معدنیات کے پیداوار میں اضافہ کیا جانا چاہئے۔ اس عمل کو (Increase in supply)سپلائ میں اضافہ کہتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں سادہ زندگی اور شنتوش (Satisfaction)یعنی آسودگی پر زوردیا جاتا تھا۔ اس کے تحت لوگ بیجا طور پر اپنی ڈیمانڈ نہیں بڑھاتے تھے۔ مگر مغربی تہذیب کے ” کھاؤ، پیوموج کرو” (Eat ,drink And Be Marry) کے اصول نے ہماری زندگی کو بری طرح متاثر کیاہے، آگ میں کا کام اشتہار بازی نے کردیا ہے۔ پرنٹ میڈیا(Print Media)الیکٹرانک میڈیا (Electronic media) اور ٹی وی نے مصنوعی طور پر ضرورتوں کو بڑھا دیا ہے۔ "”اب ہر آدمی کو ہر چیز چاہئے””جبکہ ہر آدمی کو ہر چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آج قرض لے کر اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بھی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندوستانی عالم چارواک کا کہنا تھاکہ””قرض لے کر  گھی پیو””لوگ ہوم لون کارلون، موٹر سائیکل لون، ٹی وی لون، اور اسی طرح کے دوسرے قیمتی اشیاء پر لون لینے میں سبقت لے جارہے ہیں۔ دوسرے قیمتی اشیاء(Durabless)  کو خریدنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے۔

علم معاشیات (Economics) کے پروفیسر جے۔ کے۔ مہتا۔ نے ضرورتوں کو ختم کرنے پر زور دیا ہے، گویا کہ یہ قابل عمل نہیں ہے، مگر ضرورتوں کو گھٹایاتو جا ہی سکتا ہے، اس کی کوشش کی جانی چاہئے۔ اس سے سے مسلئے کے حل میں مدد ملے گی۔

تھوک اور پھٹر کاروباری لاگت کے مقابلے میں کئ گنا قیمت وصولنے کی کوشش کرتے ہیں، ان پر روک کا کوئ انتظام نہیں ہے، کم سے کم قیمت( M.R.P.= Maximum Retail Price) کا بھی کوئ مناسب اصول نہیں ہے۔ جس سے واضح قیمت سے کبھی کم پر بازار میں چیزیں ملتی ہیں، "”دام باندھو””سماج وادی اصول کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ ملک کے معاشی اور دیگر اصول میں سرکار کا مؤثر دخل ہو، سرکار کو ایک تو ضروری اشیاء پر ٹیکس لگانا چاہئے اور قیمتوں میں اچھال (Jump)کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ضروری اشیاء قانون (Essential Commodities Act) پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ عوام کو ضروری اشیاء اناج، شکر، مٹی کا تیل وغیرہ کو دستیاب کرانے کے نظام کومؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اسے درست کرنے سےاقتصادی طور پر کمزور طبقہ کو بہت راحت ملے گی اور بازار بھی کنٹرول میں رہ سکے گا۔ اس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسے(Public Distribution Syeatem) کہتے ہیں۔

 مصر میں ایک تاجر اپنے دوست کے ساتھ خربوزہ لے کر فروخت کرنے آیا، لیکن راستے میں ہی بادشاہ کے کارکنان نے جگہ جگہ  بہانے سے جزیہ (Tax)لگا کراس کے تمام خربوزہ کولوٹ لیا، اس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اس ملک میں حکومت کرنا آسان ہے۔ یہاں چاروں طرف بدعنوانی ہے، جہاں بدعنوانی(Corruption)ہوتی ہے وہاں حکومت کرنا آسان ہوتاہے۔ اور وہی تاجر بدعنوانی کرکے ہی چند سالوں میں میں مصر کا پہلا فرعون بنا۔ عقلمند وہ نہیں ہےہر ماہ پانچ ہزار کما کر چھ ہزار خرچ کرتا ہے بلکہ جو پانچ ہزار کی آمدنی میں اپنے اخراجات ساڑھے چار ہزار تک محدود کر لیتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔