موت ہے انتظام کے لائق

عبدالکریم شاد

موت ہے انتظام کے لائق

زیست ہے اختتام کے لائق

نفس کو آشیاں کا پاس نہیں

یہ پرندہ ہے دام کے لائق

بات کر کے سبھی سے دیکھ لیا

آئینہ ہے کلام کے لائق

آئینہ بھی اگر گواہی دے

آپ ہیں احترام کے لائق

سوچتا ہوں میں دیکھ کر دنیا

میں نہ تھا اس مقام کے لائق

ساقیِ وقت کو نہیں معلوم

کون سی مے ہے جام کے لائق

کیسے نظریں مری خموش رہیں

ہر ادا ہے کلام کے لائق

دیکھ کر رنگ جانا جاتا ہے

آدمی ہے سلام کے لائق

شاد جی! حال دیکھیے اپنا

آپ ہیں کیسے نام کے لائق

تبصرے بند ہیں۔