موجودہ دنیا کی خوں آشام تہذیب کا تاریخی پس منظر (3|3)

ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ ندوی 
ویسے تو موجودہ دنیا کی تاریخ میں امریکی بالادستی کا عہد دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے لیکن سرد جنگ میں حاصل ہونےوالي  فتح نے خاص طور پر امریکہ کو بے حد مغرور بنا دیا۔ سوویت کے زوال کے بعد کا ہی وہ عہد جس میں امریکی مفکر فرانسس فوکویامانے یہ اعلان کردیا تها کہ انسانی تہذیب اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے اور تاریخ کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔ فوکویاما نے اپنی کتاب The End of History and Last Man the میں مغربی لبرل ڈیموکریسی کو انسانی فکر کی معراج قرار دیا ہے۔ گویا اب کسی نئی فکر کی ضرورت دنیا کو نہیں رہی فوکویاما کے مطابق مغرب کو استادیت کا درجہ حاصل ہو چکا ہے اور امریکہ اس تہذیب کا امام ہے۔ اس امریکی مفکر کا غرور زیادہ دنوں تک برقرار نہ رہ سکااور محض ایک دہائی کے اندر مشرقی ایشیا کے ممالک نے اس فلسفے کو غلط ثابت کر دیاکیوں کہ ان ممالک نے اپنی ترقی کے لئے مغربی اصولون کو معیار نہیں بنایا بلکہ انھوں نے اپنی قدیم تہذیبی روایات کی بنیاد پر ہی ترقی کی اس بلندی کو حاصل کرلیا جس پر مغربی ممالک فائز تھے۔ فوکویاما کے علاوہ دوسرا امریکی مفکر سیمویل ہیٹنگٹنگ ہے جس نے 1993 میں Foreign Affairs نامی امریکی میگزین میں شائع اپنے ایک مضمون کے ذریعہ اپنا ایک نہایت حیرت انگیز نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا جسے ہم نظریہ تہذیبی تصادم (The Theory of Clash of Civilizations) کے نام سے جانتے ہیں اور اسی نظریہ کے مطابق اس نے عالمی نظام کی تشکیل نو کا معیار قائم کرنے کا مشورہ دیا ۔ اس مضمون نے بعد میں ایک کتاب کی شکل اختیار کر لی جوThe Clash of Civilizations and the Remaking of World Order کے نام سے مشہور ہے۔ اس کتاب نے علمی حلقے میں بڑی ہلچل مچا دی ۔ جہاں ایک طرف قارئین نے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنایا وہیں دوسری طرف بے شمار مفکرین او رناقدین نے مصنف کتاب کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس کے تہذیبی تصادم کے نظریہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ دراصل فوکویاما اور سیمویل ہیٹنگٹنگ دونوں یہ اعلان کررہے تھے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد صرف اسلامی تہذیب ہی ایک ایسی تہذیب باقی ہے جو مغربی تہذیب کے خلاف میدان میں ڈٹ کر کھڑي ہے۔ گویا اسلام اور مسلمان کو ایک نئے دشمن کے طور پر پیش کیا گیا تاکہ مغربی بالادستی کا ڈراما مستقل جاری رہے۔ البتہ اسلام کے خلاف جنگ کی نوعیت بدلنے کی ضرورت تھی۔ یہ جنگ صرف بم اور بارود کے ذریعہ نہیں جیتی جا سکتی تھی‘ اس لئے افکار ونظریات کے ذریعہ یہ جنگ دماغوں میں بهي لڑی جانے لگی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ امریکہ پر نائن الیون کے حملے کے بعد سیمویل ہیٹنگٹنگ کی یہ کتاب سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں شامل رہی۔ مغربی میڈیا اپنے قارئین کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئی کہ اس امریکی مفکر کے تخریبی نظریہ کو نظر انداز کرنا اہل مغرب کے حق میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلاموفوبیا کا بخار بہت شدید ہو چکا ہے اور اسلام اور مسلمان مغربی میڈیا کے نشانے پر ہر وقت رہتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ جیسے سیاست دانوں کو سب سے زیادہ مدد اسی قسم کے نظریات سے حاصل ہو رہی ہے۔
اگر آج کی دہشت گردی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی تاروپود مغربی تہذیب سے جا ملتی ہے ۔ منظم طریقے سے اسلام کے نام پر جذباتی مسلم نوجوانوں کا استعمال پہلی بار امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین کے اثرورسوخ کو توڑنے کے لئے کیا تھا۔ چیجن ‘ پاکستانی اور افغان نوجوانوں کو مجاہد کی ڈگری وہائٹ ہاؤس نے پہلی باراسي وقت دی تھی اور اسلامی جہاد کا جھنڈا ن کے ہاتھوں میں تھما دیا تھا ۔ امریکہ اپنے حریف سوویت یونین کو ختم کرنے میں اس طرح وہ کامیاب تو ضرور ہو گیا تھا لیکن افغان جنگ میں جیت حاصل ہو نے کے بعد یہی مجاہدین اپنے آقا امریکہ کے ہی خلاف ہو گئے ۔ امریکہ کو درد کا احساس پہلی بار تب ہواجب یہ عناصر ان ہاتھوں کو ہی کاٹنے لگے تھے جنھوں نے انھیں پروان چڑھایا تھا۔ القاعدہ کا اسامہ بن لادن ہو یا داعش کا ابوبکر البغدادی سبھوں نے مغربی تہذیب کے ٹھیکے داروں کے ہاتھوں ہی زندگی کی رمق پائی ہے۔ عراق پر حملے سے متعلق چلکاٹ رپورٹ نے اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ اگر امریکہ اور برطانیہ نے ناپاک جنگ کا شکار عراق کو نہ بنایا ہوتا تو شاید داعش جیسی تنظیم کبھی نقشہء عالم پر نمودار نہیں ہوتی۔ صرف جھوٹ کی بنیاد پر برطانوی حکمراں ٹونی بلیئر اور امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے لاکھوں زندگیوں کو جہنم زار بنا دیا ۔ آج اگر مشرق وسطی دہشت گردی کی آگ میں جل رہا تو یہ صرف مغرب کے حکمرانوں کی شرارت اور مسلم قائدین کی نااہلی کا نتیجہ ہے ۔ جو مسلم نوجوان غم وغصہ میں تپ کر اور ناگفتہ بہ حالت سے بے زار ہوکر تشدد کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی کا دعوی کرتے ہیں وہ محض اپنی جہالت اور اسلام سے ناواقفیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ معصوم جانیں خواہ شام وعراق ویمن اور فلسطین میں تباہ ہو رہی ہوں یا ترکی ‘ بنگلہ دیش ‘ پاکستان اور افغانستان میں‘ چاہے فرانس و میڈریڈ اور لندن وچین میں۔ یہ تمام جانیں ناحق ختم ہو رہی ہیں ۔ تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے جب یہ حساب لیتی ہے تو ہر ظلم کا حساب لیتی ہے۔ اپنے مسلم نوجوانوں سے خصوصی اپیل ہے کہ اگر وہ تاریخ کا دھارا ظلم سے ہٹا کر حق کی طرف موڑنا چاہتے ہیں تو الہی تعلیمات اور علم ومنطق کی مدد سے دعوت دین کا فریضہ انجام دیں۔ کیوں کہ بم اور بندوق کی تہذیب اسلامی مزاج کے خلاف ہے اور اسلام نے تاریخ کے کسی بھی مرحلے میں حق کی ترویج کے لئے باطل وسائل کے استعمال کی اجازت نہیں دی ہے۔
2003 میں عراق پر ناجائز حملہ اور صدام حسین کو راستے سے ہٹا کر مشرق وسطی میں ایران کوشہ دینایا لیبیا میں برطانیہ ‘ فرانس ناٹو افواج اور امریکہ کی مدد سے معمر قذافی کو ہٹانا اور اب شام میں جاری خوں ریزی کے لئے ماحول تیار کرنا اور روس کی مداخلت سے بشار الاسد کو سہارنا یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ مغربی قومیں اسلام دشمنی کا اپنا ایجنڈا کامیاب بنانے میں تمام ناجائز حربے استعمال کرنے کا ہنر رکھتی ہیں۔ مسلم ممالک میں جمہوریت کی نفاذ کی دعوت محض ایک کھوکھلا دعوی ہے مشرق وسطی میں موجو د زمینی حقائق مغرب کے اس دوغلے پن کو اجاگر کرتی ہیں ۔ مصر کے اندر جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا‘ عوام کے ذریعہ جمہوری اصولوں کی بنیاد پر منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی جیل میں قیدو بند کی صعوبیتں جھیل رہے ہیں جب کہ فوجی بغاوت کے ذریعہ حکومت پر قابض ہونے والا سیسی عرب وغرب کی حمایت کے زیر سایہ ہرروز جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی پامالی بڑی بے حیائی سے کر رہا ہے۔ دنیا کی جمہوری قوموں کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ ایک منتخب صدر پس زنداں ہے لیکن اس کی حمایت کی کوئی سنجیدہ کوشش صرف اس لئے نہیں ہوتی کیوں کہ وہ ایک اسلام پسند مرد میداں ہے۔ 2006 کے فلسطینی انتخابات میں حماس نے اکثریت حاصل کی تھی اور اس کی شفافیت کی گواہی خود یورپی یونین اور دیگر مغربی اداروں نے دی تھی لیکن چوں کہ حماس کی قوت اسرائیل کے لئے ناقابل برداشت تھی اس لئے انھیں بھی اپنا جمہوری کردار ادا کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہ بات بھی حیرت انگیر نہیں ہے کہ ابھی حال ہی میں ترکی کے اندر ناکام فوجی بغاوت کا واقعہ سن کر مغرب میں موجود اسلام اور مسلم دشمن عناصر اپنی خوشی کو چھپا نہ سکے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی ایک مضبوط مسلم حکمراں جو مشرق وسطی کے خطے کو استحکام مہیا کراتا ہے کے زوال کی تمنا پوری نہ ہو سکی۔ مغرب کی اسلاموفوبیا پر مبنی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ خود مغربی قوموں کی معصوم جانیں مختلف موقعوں پر تباہ ہوتی ہیں۔ ان واقعات کے پیچھے سیاسی ‘ اقتصادی اور سماجی مسائل سے جوجھ رہے وہ نوجوان ہوتے ہیں جنھیں آج تک وہ باوقار زندگی حاصل نہ ہو سکی جس کی امید میں ان کے والدین نے مغربی ممالک کا رخ کیا تھا۔ جس کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر خودکشی کی راہ اختیار کر چکے ہیں اور مغربی ممالک نے بڑی چابک دستی سے اپنی فیکٹریوں میں تیار ہونے والے گھاتک ہتھیار جذباتی مسلم نوجوانوں کے ہاتھوں میں تھما دئیے ہیں جن سے عام طور پر مسلم جانیں ہی تباہ ہو رہی ہیں ۔ دہشت گردی کا یہ ڈراما کہیں شیعہ و سنی کے نام پر جاری ہے تو کہیں جمہوریت کو تھوپنے کے نام پر ۔ یہ امت مسلمہ کا نہایت سنگین مسئلہ ہے اور ہمیں خود هي اپنے نوجوانوں کو مایوسی کے دلدل سے نکالنا ہے اور مغرب کی سازشوں سے انھیں علمی دلائل کے ذریعہ واقف کرانا ہے جس کے لئے ہمیں گہری سیاسی اورعلمی وفکری بصیرت حاصل کرنی ہوگی۔ معیاری ادارے قائم کرنے ہوں گے ورنہ بش او ربلیئر کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ جیسے مغربی رہنما ہر زمانے میں رونما ہوتے رہیں گے جو سیاسی الفاظ کے پس پردہ اسلام اور مسلمان کے خلاف زہر افشانی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ہمیں اپنے مسائل پر جذباتیت سے نہیں بلکہ سنجیدہ علمی کوششوں کے ذریعہ غور کرنا ہوگا۔ مغرب کو اگر مات دینا هے تو یہ جنگ میدان میں نہیں بلکہ دماغ میں لڑنے کی ضرورت ہے۔
اسلام مثبت دعوت حق کے ذریعہ ہی دلوں کو جیتنے کا ہمیشہ داعی رہا ہے ۔ آج مغربي تہذیب دھیرے دھیرے خود کشی کے کنارے پہونچ ہی رہی ہے ۔ ہمیں اپنی نادانی سے ان کے زوال کی مدت کو مزید مؤخر نہیں کرنا ہے۔ امریکہ میں آئے دن بندوق کی گولیا ں خود امریکیوں کا شکار کررہی ہیں ‘ سیاہ فام لوگوں کے خلاف ان کی نسل پر مبنی عداوت کبھی ختم نہیں ہوگی ‘ اس کا مظاہرہ بھی وقتا فوقتا ہوتا رہتا ہے۔ فرانس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر اتر کر مزدوری سے متعلق قوانین کے خلاف اپنے غم وغصہ کا اظہار کر رہے ہیں ‘ بریگزٹ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اقتصادی اعتبار سے کمزور پڑتا یورپ خود اپنے مسائل کے حل کرنے میں بھی اب بری طرح ناکام ہو رہا ہے اور اس کی قوت کا بھرم لگاتار ٹوٹ رہا ہے۔ اشتراکیت ‘ سرمایہ دارانہ ‘ فسطائیت اورکمیونزم جیسے نظریات پر مبنی اصول زندگی نے انسانی آبادی کے اتنے مسائل حل نہیں کئے جتنے کے ناقابل حل مشکلات ان کے لئے پیدا کر دئیے ہیں ۔ بہتر ہوگا کہ زخم خوردہ انسانیت کو ہلاکت سے بچا کر اسلام کے امن وآشتی کے گہوارے میں حکمت سے لایا جائے بم سے نہیں۔ یہ ذمہ داری انفرادی او راجتماعی طور پر مسلمانوں کی ہے کیوں کہ یہی ایسی آخری امت ہے جو صحیح الہی نظام کی حامل ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔