مومن خاں مومن: شاعرانہ امتیازکی چندجھلکیاں

رمیض احمد تقی    

              اردو شاعری میں جس طرح اقبال وغالب آفتاب وماہتاب سمجھے جاتے ہیں، اسی طرح مومن خاں مومن بھی وہ نیرِ تاباں تھے، جس کی روشنی سے اردوشاعری آج بھی روشن و منورہے، ان کی رباعی، واسوخت، غزل اور مثنویات میں ایک الگ طرح کی روشنی پھوٹتی تھی۔مومن کوجودورملا، وہ ہندوستان میں سیاسی طورپرہنگامہ آرائیوں کادورتھا، ہندوستانی مسلمانوں کی معاشرتی و اجتماعی بساط بھی بتدریج پلٹ رہی تھی، لیکن خیرسے اسی زمانے میں اردوزبان اور اردوشاعری کوبلندی و کمال کے نئے آفاق سے روشناسی حاصل ہورہی تھی، انیسویں صدی کاآغازہورہاتھااوردہلی اربابِ ادب و شعر کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی، غالب، ذوق، داغ وغیرہ اپنے اپنے نتائجِ فکرسے نئے شعری و ادبی رویوں کوتشکیل دے رہے تھے، ایسے ماحول میں مومن خاں مومن کوشاعرانہ کمال حاصل کرنے کاخوب موقع ملااورانھوں نے اردوشاعری میں تغزل کوایک خاص، منفرداوردلچسپ سمت عطاکیا۔

            فنِ شاعری کی جملہ اصناف میں کمال رکھنے والایہ شاعر سنہ 1800ء میں دہلی کے کوچہ چیلان میں پیدا ہوا۔ ان کے والد حکیم غلام نبی خان سلطنتِ مغلیہ کے جاگیر یافتہ طبیب تھے۔ ان کے والد کو محدثِ کبیر شاہ عبدالعزیز دہلوی ؒ سے بڑی عقیدت تھی، چنانچہ جب یہ پیدا ہوئے، تو شاہ صاحب ان کے گھرتشریف لے گئے اور ان کے کان میں اذان کہی اور ان کا نام مومن خان رکھا، ہرچند کہ ان کے والد نے ان کے لیے ’حبیب اللہ خان‘ نام تجویز کیا تھا، مگر وہ زمانے میں شاہ صاحب کے دیے ہوئے نام سے ہی مشہور ہوئے۔

            دہلی چونکہ صدیوں سے علم وادب کے مہ وانجم کا شہر رہا ہے اور علم کی اسی بستی میں مومن کو بھی پروان چڑھنے کا اچھا موقع ملا، اس کے علاوہ مومن کوقدرت نے غیر معمولی ذہانت وذکاوت سے نوازاتھا، سونہایت ہی کم عمری میں انھوں نے اردو، عربی اورفارسی زبان وادب، نیز طب ونجوم میں خوب مہارت حاصل کرلی اور فن شاعری میں اس شکوہ کے ساتھ قدم رنجہ ہوئے کہ ان کے معاصرین نے بھی ان کو رشک کی نگاہوں سے دیکھا، شاعری ہر چند کہ ایک بہت بڑا فن ہے، مگر اس میں لیاقت سے کہیں زیادہ ذوقِ سلیم اور جذبات واحساسات کا دخل ہوتا ہے اور مومن اس سمندر کے ماہر غوطہ خور تھے، بلکہ ان کی زیست عجائب فطرت کی ہر طرح کی رنگینیوں سے لبریز تھی:

خاک اڑائی میں نے کیا طرزِ جنوں قیس کی

شاہ جہاں آباد گویا نجد کا سا بن گیا

    ان کی شاعری میں کبھی عشق ومستی سے لبا لب جام ملے گا، توکبھی قوسِ قزح کے ہفت رنگوں جیسا حسن وشباب کادلکش نظارہ، کبھی سادگی تو کبھی مذہب وعقیدہ کے روحانی جذبات سے معمورمظاہر، البتہ مومن اپنا کلام ہمیشہ حقیقی پیرائے میں پیش کرتے تھے، اپنی ندرتِ کلام میں وہ منفرد تھے اور بڑی سے بڑی تلخ بات کو بھی انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کردیتے تھے:

ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے

تم نے اچھا کیا نباہ نہ کیا

مومن کایہ کمالِ فن اور شاعرانہ عظمت ہے کہ ان کی زبان و قلم سے بعض ایسے اشعار نکلے، جودوسرے شاعروں کے مکمل دیوان کے ہم پلہ تھے، وہ ایک شعرمیں بھی معانی و مفاہیم کی ایسی رنگارنگ کائنات بسادیتے تھے کہ ان کی تشریح میں مکمل کتاب لکھنی پڑجائے، ایسے ان کے کئی اشعارہیں ؛لیکن ایک شعر:

تم مرے پاس ہو تے ہو گویا

 جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

 کے بارے میں جب غالب جیسے عبقری شاعر یہ کہتے ہیں کہ تم اپنا یہ ایک شعر مجھے دے دو اور میرا پورا دیوان لے لو، توہمیں یقین ہوجاتاہے کہ واقعی مومن کی شاعری میں خیالات، افکار، تصورات واحساسات کی ایسی گہرائیاں ہیں، جوصرف انہی کاخاصہ ہے ۔

            اردوشاعری میں ہی نہیں، دیگر ز بانوں کی شاعری میں بھی یہ دیکھاگیا ہے کہ ہرشاعر اپنے سامنے دوسروں کوخاطر خواہ اہمیت نہیں دیتا، لیکن اردوشاعری میں یہ رویہ عام رہاہے، اس کے نقصانات بھی ہوں گے؛ لیکن بڑا فائدہ یہ ہواکہ اس احساسِ عظمت نے ہمارے شاعروں سے ایسے ایسے کلام کہلوائے اورلکھوائے، جوواقعی ان کے عظیم اورنابغہ ہونے کی تصدیق کرتے تھے، مومن بھی طبیعتاً ایک غیور اور انا پرست انسان تھے، وہ اپنے معاصرین کو شاعر تسلیم نہیں کرتے تھے، جب وہ گلستانِ سعدی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، تو بھلا اورکسی کو کیوں کر خاطر میں لاتے ؛چنانچہ اسی احساس کی نمایندگی کرنے والے ان کے یہاں متعدد ایسے اشعار ملتے ہیں، جن میں خود آرائی اور خود ستائی پائی جاتی ہے:

 مومن یہ شاعروں کا مرے آگے رنگ ہے

جوں پیش آفتاب ہو بے نور تر چراغ

حد تو یہ ہے کیا غز ل اک اور مومن نے پڑھی

آج باطل سارے استادوں کا دعویٰ ہو گیا

اپنے ڈھب کی کیا پڑھی اک اورمومن نے غزل

دو ہی دن میں یہ تو کیسا ماہر فن ہو گیا

    اسی طرح خود کلامی بڑی شاعری کا ایک خاص وصف ہے اور مومن اس حوالے سے بھی یکتاے رو زگار تھے:

چل کے کعبہ میں سجدہ کر مومن

چھوڑ اس ْبت کے آستانے کو

ترکِ صنم بھی کم نہیں سوزِ جحیم سے

مومن غمِ مآل کا انجام دیکھنا

مانگا کریں گے اب سے دعا ہجرِ یار کی

آخر کو دشمنی ہے دعا کو اثر کے ساتھ

    ان اشعار میں ایک خاص قسم کی مستی اور جذب و سرورکی کیفیت ہے، جواہلِ ذوق ہی محسوس کرسکتے ہیں ۔غزل نگاری کے اپنے الگ رسومات ہیں، مگرمومن غزل کے مقطعے کو خوب اہتمام سے کہتے تھے۔ تخلص میں اپنے نام کی رعایت سے مضمون پیدا کرناان کا خاص ہنر تھا، جو دوسرے شاعروں کے یہاں بہت کم نظر آتا ہے:

عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن

آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہو ں گے

           ویسے مومن اپنی ذاتی زندگی میں ایک راست باز اور نیک دل انسان تھے، اپنی پوری زندگی میں نہ کسی امیرورئیس کی مدح سرائی کی اور نہ ہی کبھی کسی کی ہجو میں کچھ لکھا، حالاں کہ مومن جس دورکے شاعرہیں، اس دورمیں یہ ایک عام بات تھی، کئی بڑے شعراکی شہرت یاتوبادشاہِ وقت کی تعریف و توصیف اور مدح سرائی کے ذریعے سے پہچانی گئی یاانھوں نے منتخب شخصیات کی ہجوگوئی کے ذریعے سے اپنے شاعرانہ قدکومتعارف کروایا، لیکن بنیادی طورپرمومن کو ایسے چونچلوں سے نفرت تھی اور وہ سچے جذبات کی عکاسی میں یقین رکھتے تھے، ہجو گوئی کے تعلق سے ان کاموقف یہ تھاکہ :

ہجوگوئی نہیں ہمارا کام

ایسی باتوں سے خاموشی بہتر

            مومن کی شاعرانہ عظمت اور بلند قامتی کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ 1862ء میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی نے ’نگارستانِ سخن‘ کے نام سے تین شعرا کے کلام پر مبنی ایک گلدستہ شائع کیا تھا، جس میں غالب اور ذوق کے ساتھ مومن کو بھی شامل کیا گیا تھا۔مومن کی یادگار ان کی ایک دیوان اور چھ مثنویاں ہیں، ان کی زیادہ تر مثنویاں عاشقانہ ہیں، جن میں آپ بیتی پائی جاتی ہیں ۔بالآخر فنِ شاعری کا یہ بے تاج بادشاہ  21مئی سنہ 1851ء کو اپنے کوٹھے سے گر کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا اور آج وہ دہلی دروازے کے باہر حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کے پاس مدفون ہے۔

             مومن کے شاعرانہ امتیازکی چندجھلکیاں تومذکورہوئیں ؛لیکن زبان اور انتخابِ الفاظ کے تعلق سے ان کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں ایسے سادہ الفاظ استعمال کیے، جوبہت جلدقاری اور سامع کی زبانوں پر چڑھ گئے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے سیکڑوں اشعارآج بھی ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں اور اردوشاعری و ادب سے واقفیت رکھنے والے ہر باذوق انسان کے ذہن میں گونجتے رہتے ہیں ۔ان کے اشعارمعنی و مفہوم کے اعتبار سے جس قدرگہرے ہوتے تھے، لفظ اور اسلوبِ بیان کے اعتبار سے اسی قدران کے اندرسادگی ہوتی تھی۔ان کی غزلیں تارِ دل کوچھیڑتیں اورجذبات و احساسات میں ایک خاص قسم کاکیف پیداکرتی ہیں، اس حوالے سے ان کی ایک مشہور ترین غزل کے چنداشعار پیش کرنادلچسپی سے خالی نہیں ہوگا:

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد کو کہ نہ یاد ہو

وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ نئے گلے و ہ شکایتیں و ہ مزے مزے کی حکایتیں

وہ ہر ایک بات پر روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے سر میں جو رو برو تواشارتوں میں ہی گفتگو

وہ بیان شوق کابر ملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی

کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا

میں وہی ہوں مومن مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

تبصرے بند ہیں۔