مُعاصر فکشن کی تنقید:زبان کے حوالے سے

پروفیسر صغیر افراہیم

                ادب اور تخلیق کی ہر صنف، عہد بہ عہد اپنی پہچان کے ذرائع تلاش کرتی ہے۔ فکشن کی تنقید میں بھی ادب کی دیگر اصناف کی طرح روزِ اول سے تجربے ہوتے آ رہے ہیں۔ اس کی روداد ایک صدی کو محیط ہے۔ پریم چند کے عہد کی تنقید مثالیت پسندی پر زور دیتی ہے اور کرداروں کی بُرائی اور اچھائی کو مرکز توجہ بناتی ہے۔ ترقی پسندوں نے فکشن کی تنقید کی اساس سماجی حقیقت نگاری پر قائم کی۔ علامت اور تجریدیت پر اصرار کو ترقی پسندی کا ردِّ عمل بھی سمجھا جا سکتا ہے گو کہ جدیدیت کا مطمح نظر ذہنی آزادی پر زور تھا۔

                اکیسویں صدی کی تنقید کا تقریباً ہر دبستان ’’قاری اساس‘‘ ہے۔ اب مطالعۂ متن میں خالق کے بجائے اس کے قاری کو مرکزی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ بلکہ Stanely Fishتو اس حد تک آگے بڑھ گیا ہے کہ اس کے نزدیک کاغذ پر لکھی گئی تحریر صرف قرأت میں ہی با معنی بنتی ہے اور قاری اپنی قرأت سے متن کو موجود بناتا ہے۔ مصنف اساس یا موضوعاتی تنقید اب رفتہ رفتہ قاری اساس مطالعہ کے لیے جگہ خالی کر رہی ہے اور متن کی قرأت کے حوالے سے مطالعۂ ادب کے نئے دبستان وجود میں آ رہے ہیں۔

                اس امر کے اعتراف کے ساتھ کہ لفظوں کا باہم ارتباط خود بھی ایک پیچیدہ اور مشکل نظام ہے۔ قاری کا متن سے رشتہ، متن میں اکائیوں کے باہم ربط و ارتباط کے ہمہ جہت تحرک کو روشن کرتا ہے اور اکثر معنی کی اُن نئی جہات کی تشکیل ہوتی ہے جس کا خیال خود متن کے خالق کو بھی نہ آیا ہوگا۔

                مطالعۂ متن میں قرأت کے اس طریقہ کی اہمیت کے پیش نظر شعبۂ لسانیات ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو، ہندی فکشن کی زبان پر منعقد ہونے والے سہ روزہ (6-8؍ اکتوبر 2008ء) سمینار میں پروفیسر قاضی افضال حسین نے جدید اردو فکشن پر زبان و بیان کے اعتبار سے کچھ سوالات قائم کیے ہیں جیسے انھوں نے غضنفر کی کہانی ’’ کلہاڑا‘‘ میں ہندی الفاظ کے بے محل استعمال پر سخت ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے۔ فن پارے کا اقتباس یہ ہے:

’’وہ اُن جنگلی جانوروں سے فصلوں کو بچانے کے ’اُپائے‘ سوچنے لگے۔ اُن کا دماغ دن رات اسی کام میں مشغول رہنے لگا۔ بستی کا ایک ایک آدمی اپنا ذہن دوڑانے لگا۔ ایک دن اُن میں سے کسی کو ایک ’اُپائے‘سوجھ گیا۔ اُس نے بستی والوں کو جمع کیا اور بتایا:

’’بھائیوں!جنگلی جانوروں سے فصلوں کو بچانے کا ایک ’اُپائے‘ میرے ہاتھ آ گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ’ اُپائے‘بہت ہی کارگر ثابت ہوگا—-’’جلدی بتاؤ نا وہ ’اُپائے‘ کیا ہے؟‘‘ بستی کے لوگ’ اُپائے‘ جاننے کے لیے اُتاولے ہو گئے۔‘‘

’’ابھی بتاتا ہوں ذرا دھیرج تو رکھیے—-’اُپائے‘ یہ ہے کہ ہم بہت سارے ڈنڈے جمع کریں۔ ڈنڈوں کے ایک سرے پر کپڑا لپیٹ دیں اور اُن سروں کو مٹی کے تیل میں بھگو کر رکھ دیں۔‘‘

’’اُن سے کیا ہوگا؟‘‘ لوگوں کا تجسّس بڑھ گیا۔

’’اُن سے یہ ہوگا کہ جب جنگلی جانور ہمارے کھیتوں میں گھُسیں گے تو ہم اُن ڈنڈوں کو آگ دکھادیں گے۔ یہ آن کی آن میں مشعل بن جائیں گے اور ہم اُن شعلوں کو لے کر اپنے کھیتوں کی طرف دوڑ پڑیں گے۔ جانور آگ کے شعلوں کو دیکھ کر بھاگ جائیں گے اور پھر کبھی ادھر آنے کی ہمت نہ کر سکیں گے۔ کیونکہ ہم نے سُنا ہے کہ جانور آگ سے بہت ڈرتے ہیں۔‘‘

’اُپائے‘ بتا کر وہ فخر سے بستی والوں کی طرف دیکھنے لگا۔ بستی کے لوگوں کی آنکھیں روشن ہو گئی تھیں اور ان کے چہروں پر چمک آ گئی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ بستی والوں کو یہ’ اُپائے‘ اچھا لگا۔’اُپائے‘ پر عمل شروع ہو گیا۔‘‘

                اردو کے معتبر ناقد، پروفیسر قاضی افضال حسین جوبین المتونیت اور Deconstruction  کے حوالے سے فن پارے کا مطالعہ کرتے ہیں اور نئی تنقیدی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ، اُن کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ’ اُپائے‘ کا لفظ ایک صفحہ میں دس بار اور چھ صفحہ کی مختصر سی کہانی میں اکیس بار استعمال ہوا ۔ قاضی افضال حسین کا کہنا یہ بھی ہے کہ راوی اپنی گفتگو میں سلیس اردو کے الفاظ اور محاورات استعمال کر رہا ہے جیسے  ’’ آن کی آن میں مشعل بن جائیں گے اور ہم اُن مشعلوں کو لے کر اپنے کھیتوں کی طرف دوڑ پڑیں گے۔‘‘ یہاں مشعل کو مشال نہیں کہا گیا ہے۔ کوئی ہندی متبادل بھی استعمال میں نہیں آیا ہے۔ محاورے (آن کی آن) کو بھی وہ بالکل صحیح جگہ پر استعمال کر رہا ہے لیکن اُپائے پر آکر اٹک جاتا ہے جبکہ ’’طریقہ‘‘ ’’تدبیر‘‘ اور’’ ترکیب‘‘ جیسے الفاظ کے استعمال سے اس تکرار سے بچا جا سکتا تھا جس نے نہ صرف زبان کے حُسن کو غارت کیا بلکہ اس کی قرأت کو بھی مجروح کر دیا۔

                غضنفر کی کہانی کے مذکورہ اقتباس پر غور کریں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ:

1۔             راوی بیانیہ میں دو جگہ ہے۔

2۔             کردار کئی ہیں۔ پہلا کردار اس لفظ کو مذکورہ اقتباس میں دو بار ادا کر رہا ہے۔

3۔             دیگر کردار وجہ دریافت کرنے کے لیے اس لفظ کو ایک ایک بار استعمال کر رہے ہیں۔

4۔             ایک بار راوی پھر اس لفظ کو ادا کر رہا ہے جس کا جواب کردار نمبر ون دے رہا ہے وہ بھی ایک بار۔

5۔             مجمع دریافت کر رہا ہے۔ جواب تفصیلی ہے لیکن اس میں ایک بار بھی یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے البتہ راوی اُپائے بتا کر مسئلہ حل کرتا ہے جس کے لیے اُس نے تین بار یہ لفظ استعمال کیا ہے۔

                زبان نہایت پیچیدہ ذریعۂ ابلاغ ہے۔ ماہرین لسانیات اس کا مطالعہ برائے زبان کرتے ہیں اور اس کی ساخت اور اجزائے ترکیبی کے باہمی ربط و عمل پر توجہ دیتے ہیں۔ بیانات کے جدید ماہرین نے کرداروں کی زبان کے سلسلے میں ایک اصطلاح Sociolectاستعمال کی ہے یعنی وہ زبان جو ایک مخصوص معاشرت میں سانس لینے والے افراد بولتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غضنفر نے کرداروں کے حوالے سے یہ زبان استعمال کی ہے۔ اشیاء کو ان کی معروضی شکل میں دیکھنے کا تصور یہ جواز فراہم کر سکتا ہے کہ چونکہ فضا دیہاتی ہے، بستی کے لوگ ہیں، اُن ہی کی زبان میں بات ہو رہی ہے اس لیے طریقہ، تدبیر اور ترکیب کے بجائے مصنف نے اُپائے زیادہ مناسب سمجھا ہے۔ کئی کئی بار استعمال ہونے والے اس لفظ کو کردار اور راوی دونوں بول رہے ہیں بلکہ مختلف کردار بھی بیچ میں اپنی اپنی زبان سے یہ لفظ ادا کر رہے ہیں۔ پھر اس لفظ کے درمیان بہت سی باتیںبھی ہو رہی ہیں اس لیے فاصلہ بڑھ گیا ہے۔ چونکہ موضوعاتی تنقید ادب پارے کے پورے منظر نامے کو سامنے رکھتی ہے اس لیے وہ لفظ’’ اُپائے‘‘ کا باربار راوی اور کرداروں کے ذریعے استعمال کرنے کی کوئی منطق بھی تلاش کر سکتی ہے مثلاً یہ کہ تواتر کے ساتھ آنے والے اس لفظ سے یہ دکھانا مقصود ہے کہ جس مسئلے پر اتنی سنجیدگی سے گفتگو ہو رہی ہے اُس کے لیے تدارک بہت آسان تلاش کیا جا رہا ہے گویا اس تکرار لفظی سے ایک طرح کا طنز کرنا بھی مقصود ہو سکتا ہے۔

                یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی ایک نقاد کسی ایک ناول یا افسانے کو کمزور سمجھتا ہے تو دوسرا اس کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔ مثال کے طور پر پروفیسر وارث علوی، ترنم ریاض کی نگارشات کو جس نقطۂ نظر سے دیکھتے ہوئے ان کی کہانیوں کو سراہتے ہیں وہیں وہ ناول ’’مورتی‘‘ کو کمزور قرار دیتے ہیں جب کہ دوسرا نقاد ترنم ریاض کے اس ناول کی تعریف کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مصنفہ مظاہر فطرت کے ساتھ ذہنی کیفیات کے انتہائی مشکل اور اذیت ناک مرحلوں سے بہ سہولت اس طرح گزر جاتی ہیں کہ ناول میں باطنی سفر ایک نئے نرم و گداز آہنگ کی پہچان کراتا ہے۔

                معاصر تنقید میں یہ محض پسند و نا پسند کا مسئلہ نہیں، زاویۂ نظر کا معاملہ ہے اور اس وجہ سے بھی کہ جدید تنقید مختلف جہت کے فن پارے کو دیکھنے کا جتن کرتی ہے اور ان میں سے ایک زاویہ متنی تنقید کا ہے۔اس میں فن پارے کی تعبیر اور تفسیر کے لیے متن کی قرأت پر خاصا زور دیا گیا ہے جیسا کہ مضمون کے شروع میں کہا گیا ہے کہ تنقید کے اس دبستان میں عموماً مصنف اور پس منظر دونوں سے بے تعلقی برتی جاتی ہے البتہ متن کے اندر موجود تمام تشکیلی و تعمیری اجزا اور ان کے باہمی رشتوں پر توجہ دی جاتی ہے۔ رولاں بارتھ (Roland Barthes)  رسل آف لینگویج (Rustle of Language)میں ایک جگہ لکھتا ہے:

’’…ایک متن ان متنوع تحریروں سے تشکیل پاتا ہے جو متعدد تہذیبوں سے برآمد کی جاتی ہیں اور باہم ایک مکالمے، پیروڈی یا مسابقت میں داخل ہوتی ہیں لیکن ایک جائے وقوع ایسی ہے جہاں یہ کثرت یا تنوع مجتمع ہوتا ہے اور یہ جائے وقوع، مصنف نہیں ہوتا، جیسا کہ اب تک دعویٰ کیا جاتا رہا ہے بلکہ قاری ہوتاہے، قاری وہ وسعتِ مکانی یا عرصہ ہے جس میں وہ تمام حوالے یا اقتباسات، ان کا کوئی جُز ضائع ہوئے بغیر، مرتسم ہوتے ہیں، جن سے وہ تحریر بنتی ہے۔‘‘(ص ۵۴)

اس امر کی روشنی میں پروفیسر قاضی افضال حسین، غضنفر کی کہانی ’’تانا بانا‘‘ کی زبان پر معترض ہیں۔ کہانی کا اقتباس ملاحظہ ہو:

’’باپ نے اپنے ہاتھ جوڑ دیئے۔ دوسرے معزز لوگوں کی طرف دیکھنے کے بعد معمر شخص بولا ’’ٹھیک ہے تمہارے کہنے سے اس بار اسے چھوڑ دے رہے ہیں۔ کِنتو ٹھیک سے اسے سمجھا دینا کہ ’’جیادہ چپر چپرنہ بولے۔ اپنی جبان کو اپنے دانت تلے داب کر رکھے ورنہ تو جانتا ہے کہ انجام کیا ہو سکتا ہے۔‘‘

راوی اپنے کلام سے اپنا تعارف کراتا ہے۔’’ تانا بانا‘‘ میں راوی کی جو شبیہہ اُبھرتی ہے وہ پڑھے لکھے شخص کی ہے۔ پروفیسر قاضی افضال حسین کا اس راوی کی زبان کے تعلق سے کہنا ہے کہ جب یہ معمر کردار سنسکرت بیک گراؤنڈکا پڑھا لکھا شخص ہے اور کہانی میں شُدھ ہندی بول رہا ہے تو پھر ایک جگہ بھوجپوری کیوں؟ اور اس نے زیادہ کی جگہ جیادہ، زبان کی جگہ جبان اور باتیں بنانے یا چرب زبانی کی جگہ چپر چپر کا استعمال کیوں کیا جو سماعت کو بھی ناگوار گزرتا ہے۔ قاضی صاحب اسی جانب نئی نسل کے فنکاروں کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ وہ الفاظ کے انتخاب کے وقت محتاط رہیں اور راوی اور کردار کی گفتگو پر بھر پور توجہ دیں۔ کسی بھی صورت حال میں وہ سر سری گزر جانے کو نا پسند کرتے ہیں۔

                ورنہ حقیقت پسندانہ مطمح نظر کے ناقدین کی مذکورہ افسانے کے متعلق دلیل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چونکہ ماحول دیہات کا ہے۔ کردار نچلے طبقے کے ہیں اس لیے تخلیقی فضا کو حقیقی رنگ دینے کے لیے ایسا کیا گیا ہے یعنی معمر شخص پڑھا لکھا ضرور ہے مگر وہ دیہات میں رہتا ہے اور دیہی لوگوں سے غصہ کی کیفیت میں بات کرتے وقت اس کا لب و لہجہ بدل جاتا ہے جیسے وہ ایک جگہ لڈن کے بجائے ’’لڈنا کا بیٹا‘‘ کہتا ہے۔ یہاں اس لفظ سے لڈن علی خاں کی تضحیک مقصود ہے بعینہہ یہ انداز وہ مذکورۂ بالا جملہ میں بھی استعمال کرتا ہے لیکن قاری اساس تنقید میں متن کی رسائی تک ذریعہ زبان ہے اس میں سب کچھ بیان سے پتہ چلتا ہے اور بیان کے برتاؤ کی طرف ہی پروفیسر قاضی افضال حسین نے نشاندہی کی ہے۔

                معرّب و مفرّس اردو کے ساتھ ہی ہندی کا استعمال اردو فکشن میں روزِ اول سے نظر آتا ہے۔ آج کی تنقید اس پر سوالیہ نشان قائم کرتی ہے کہ آخر ہندی کا استعمال کثرت سے کیوں؟ یہ سہل پسندی ہے یا عوام تک پہنچنے کا وسیلہ یا پھر یہ وجہ کہ رسم الخط کی تبدیلی سے فن پارہ دونوں زبانوں تک پہنچ سکے اور شہرت و مالی منفعت کا سبب بنے۔ ردِّ عمل کے طور پر کچھ افسانہ نگار اور ناول نویس ناقدین کی زبان سے بھی شکوہ سنج ہیں۔ وہ نامانوس انگریزی الفاظ اور اصطلاحات کے استعمال کو اردو کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں پاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ناقدین عام فہم مترادفات کا استعمال نہ کرکے زبان کو ثقیل، بوجھل اور کُھردری بنا رہے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم مغرب کے جدید نظریوں سے استفادہ کر رہے ہیں تو فوری طور پر جو اصطلاحیں بن رہی ہیں وہ کچھ اجنبی سی محسوس ہوتی ہیں بلکہ کچھ کے تو متبادل اور مترادف الفاظ بھی نہیں ملنے پاتے ہیں ایسی صورت میں انگریزی الفاظ و اصطلاحات کا در آنا فطری عمل ہے جیسے Arbitarary’ Signified’ Signifierوغیرہ۔

                لسانی نظریوں کے بر خلاف، ادب کے ایک ذمہ دار قاری کی حیثیت سے ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کہیں بُغض یا اُنس میں اردو زبان کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو اس کی تلافی ممکن نہیں۔

                ایک اور بات یہ کہ پروفیسر قاضی افضال حسین کے ساتھ ساتھ پروفیسر خورشید احمد نے بھی اپنی گفتگو میں اس جانب توجہ دلائی ہے

کہ بعض فکشن رائٹر زبان و بیان پر محنت نہیں کرتے، اس کے مناسب اور موضوع استعمال کے لیے تگ و دو نہیں کرتے۔ اگر وہ دلجمعی سے ایسا کریں تو اُن کے فن پارے بھی صفِ اول میں جگہ پا سکتے ہیں۔ نئی نسل کے ادیبوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ بیسویں صدی کی آخری دہائی کے ملے جلے معاشرے سے موضوع اُٹھا رہے ہیں اس لیے لب و لہجہ بدلا ہوا ہے، روز مرّہ ، گفتگو کا انداز ہے، مقامی، علاقائی رنگ ہے۔ ان کا شکوہ یہ بھی ہے کہ جب ہمارا تقابل قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین سے کیا جاتا ہے تو موازنہ غیر متوازن محسوس ہوتا ہے کیونکہ قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین عموماً حال کے دریچوں سے ماضی قریب و ماضی بعید کی طرف رجوع کرتے ہیں اور پھر جس فضا اور ماحول کو خلق کرتے ہیں اس میں فصیح اردو ہی کا عمل دخل ہو سکتا ہے لیکن ہم (سلام بن رزاق، عبدالصمد، پیغام آفاقی،ساجد رشید، انیس رفیع، مشرف عالم ذوقی، غضنفر وغیرہ) آج کی سیاسی، لسانی، علاقائی صورتِ حال کو پیش کر رہے ہیں اور وہ بھی ایک مخصوص طبقے اور علاقے کو موضوع بنا کر۔ اس لیے کرداروں کی زبان یا راوی کے تبصرے پر فصیح اردو کا استعمال آسان نہیں۔

                یہ صورتِ حال محض اردو کی نہیں ہے، کم و بیش آج ہندی ادب بھی کچھ ان ہی لسانی مسائل سے دو چار ہے۔ پروفیسر نامور سنگھ کے چھوٹے بھائی کاشی ناتھ سنگھ کے ناولوں پر اعتراض ہے کہ وہ غیر معیاری زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ اس پر کاشی ناتھ کا کہنا ہے ’’جیسا پری ویش، ویسی بھاشا رکھنی پڑتی ہے۔ ‘‘ اور وہ اس لیے کہ میں قاری کے لیے لکھتا ہوں، اُس کی بات اُسی کی زبان میں۔

                عالم کاری کے اس دور میں نئی لسانی تعمیر و تشکیل ہو رہی ہے، اصول بنتے بگڑتے نظر آ رہے ہیں۔ ’’سارک ممالک میں معاصر افسانہ ‘‘۔ ’’متن کی قرأت‘‘ اور ’’اردوہندی فکشن کی زبان‘‘ جیسے سمیناروں میں اُٹھائے گئے سوالات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جدید تنقید نئی روشنی میں مُعاصر فکشن کو علمی دیانت داری کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ یہ جو کھم بھرا کام ہے پھر بھی اس کی بدولت معاصر فکشن کی تنقید کا ایک معتبر پیرایہ اظہار وجود میں آ چکا ہے جس میں قوتِ بیان بھی ہے اور استدلالی کیفیت بھی اور شاید اسی وجہ سے آج اردو فکشن کی تنقید اپنا اعتبار قائم کر رہی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔