میت کی طرف سے قربانی کاحکم

عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی

 میّت کی طرف سےقربانی کےجوازکےسلسلےمیں جودلیلیں پیش کی جاتی ہیں وہ تین طرح کی ہیں  :

اول: وہ حدیث جومیّت کی طرف سےقربانی کےجواز میں صریح ہے۔

دوم: وہ روایتیں جومیّت کی طرف سےقربانی کےجواز میں صریح نہیں ہیں۔

سوم: عام صدقات اورحج وغیرہ پرقیاس ۔

 ذیل کی سطورمیں ہم تینوں طرح کی دلیلوں کاجائزہ لیتےہیں تاکہ حق واضح ہوجائےاورہماراعمل کتاب وسنّت کےمطابق انجام پائے۔

واللہ ھوالموفق للحق والصواب ۔

اوّل : پہلی قسم کی دلیل حنش کی روایت ہے، جسے ابوداؤد، ترمذی  اوراحمد وغیرہ نےروایت کیاہے(أبوداؤد : الضحایا/2 ( 2790)  الترمذي : الأضاحي/ 3( 1495)  و أحمد ( 1/ 150 ))، وہ کہتےہیں کہ : علی   رضی اللہ عنہ دو  مینڈھوں کی قربانی کیاکرتےتھے: ایک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےاوردوسری اپنی طرف سے، جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی توانہوں نےفرمایا  :”  أمرني به – يعني النبي صلی اللہ علیہ وسلم  –  فلاأدعه أبدا ” ” مجھےرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کاحکم دیاہے اس لئےمیں اسےکبھی نہیں چھوڑتاہوں "

اور ابوداؤد کی روایت میں ہے:”إن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أوصاني أن أضحي عنه فأناأضحي عنه” ” نبی أكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی وصیت  فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سےقربانی کروں اس لئےمیں آپ کی طرف سے قربانی کرتاہوں  "

مندرجہ بالاروایت حددرجہ ضعیف ہونےکی وجہ سےناقابل اعتبارہے کیوں کہ اس کی سندمیں تین راوی معلول ہیں  :

1 –  شریک بن عبداللہ نخعی:ان کوعلمائےحدیث نےسوءحفظ کی بنیادپرضعیف قراردیاہے۔ ( دیکھئے : تھذیب التھذیب رقم ( 577 )۔

2 – شریک کےاستاد ابوالحسناء : یہ مجہول ہونےکی بناپرمتروک ہیں(دیکھئے : التقریب  رقم ( 8053 )۔

3 – حنش بن عبداللہ ابوالمعترالکنانی : ان کےمتعلق ابن حبان لکھتے ہیں : كان كثير الوهم في الأخبارينفردعن علي بأشياءلايشبه حديث الثقات حتى صارممن لايحتج به "( المجروحين ( 1/ 269 ))  "یہ احادیث میں بہت زیادہ وہم کےشکارتھے، علی رضی اللہ عنہ  سے بہت ساری روایتوں میں منفرد ہیں، جوثقات کی روایتوں کےمشابہ نہیں، یہاں تک یہ ان لوگوں میں سے ہوگئےجوناقابلِ احتجاج ہیں  "

منذری لکھتےہیں :” ان کےسلسلےمیں کئی ایک لوگوں نےکلام کیاہے "

( دیکھئے : تحفۃالاحوذی ( 5 /79 )) دوم : وہ روایتیں جواس معنی میں صریح نہیں ہیں، جیسے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم   کاقربانی کےوقت یہ دعاءکرنا:” اللهم تقبّل من محمدوآل محمدوأمة محمد” (مسلم  :  الأضاحي/ 3 (  1967  )) ” اے اللہ محمدکی طرف سے اور محمد کی آل واولاد کی طرف سےاورمحمد کی امّت کی طرف سے اس قربانی کوقبول فرما  "

     مذکورہ روایت کے لفظ ” أمة ”  کی عمومیت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس کےاندر زندہ اورمردہ ہرقسم کےلوگ شامل ہیں ۔

     مذکورہ روایت کے لفظ ” أمة ”  کی عمومیت میں گرچہ فوت شدہ مسلمان بھی شامل ہیں اس کےباوجوداس سےمیت کی طرف سےقربانی کے جوازپراستدلال کئی وجوہات سےدرست نہیں ہے،کیونکہ اس سےزیرِنظر مسئلہ کی پوری وضاحت نہیں ہوپارہی ہے، اس لئےکہ لفظ ” أمة ”  کی عمومیت میں آئندہ نسل بھی شامل ہے،اوریہ معلوم ہےکہ کسی پُراُمّید فرد کی جانب سےقربانی یاکسی بھی قسم کاکارخیرجائزنہیں ہے، نیزکسی شخص کےلئے یہ جائزنہیں ہےکہ وہ پوری امت کی طرف سےقربانی کرے، لہذااس بنیادپریہ عمل نبی أكرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصائص میں سےہوگا، جیساکہ شیخ البانی رحمہ الله نےحافظ ابن حجررحمہ  الله کی فتح الباری کے حوالہ سے بعض اہلِ علم سےنقل کیاہے) دیکھئے:  ارواء الغلیل ( 4/ 354 ))۔ نیزصحابہ کرام رضي الله عنهم کی معتدبہ تعداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہی اوربعض نے لمبی عمریں پائیں، اس کے باوجودکسی بھی صحابی سےرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےاورنہ ہی کسی دوسرے فوت شدہ شخص کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے، اگریہ کارخیر ہوتا یاجواز کی کوئی صورت ہوتی توصحابہ  کرام  رضي الله عنهم اس کےکرنےمیں ایک دوسرے سے ضرور سبقت کرتےاوراگرکسی نے کیاہوتاتوہم تک ضرورپہنچتا  ؟؟؟؟؟

اسی طرح اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کےرشتہ داروں میں سب سےپیارے چچاحمزہ رضی اللہ عنہ سب سےپیاری بیوی خدیجہ رضي الله عنها اورآپ کی اپنی اولادیں آپ کی زندگی میں فوت ہوچکی تھیں اگرمُردوں کی طرف سےقربانی نیک عمل ہوتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی طرف سے ضرورکرتے، یاتقریرًا کسی کو اجازت دیناثابت ہوتا۔

   شیخ ابن العثیمین رحمہ اللہ فرماتےہیں : ” قربانی کےسلسلےمیں اصل یہ ہےکہ یہ زندوں کےحق میں مشروع ہےجیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب اپنی طرف سےاوراپنےاہل کی طرف سےکیاکرتےتھے، اوربعض لوگ جو مردوں کی طرف سےمستقل قربانی کرتےہیں تواس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

  اورمردے کی طرف سےقربانی کی تین قسمیں ہیں  :

پہلی : زندہ لوگوں کی طرف سے قربانی میں مُردوں کوشامل کرلیاجائے، جیسےقربانی کرتےوقت آدمی اپنےاوراپنےگھروالوں کی طرف سےقربانی کرے اوراس میں زندہ اورمُردہ سب کی نیت کرلے۔ جس کی دلیل  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اوراپنےاہل کی طرف سے قربانی کرنی ہے اوراہل میں جوپہلےوفات پاچکےتھے وہ بھی شامل ہیں۔

دوسری : مرنےوالےکی اگروصیت تھی کہ اس کی طرف سےقربانی کرنی ہےتواس کی وصیّت پوری کی جائےگی اور اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے : {فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ }(البقرة181)(پس  اگرکوئی شخص وصیت سن لینےکےبعد اسےبدل دےگا تواس کاگناہ اس کےبدلنے والوں کوہوگا، بےشک اللہ بڑاسننے والا اور جاننے والاہے )

تیسری : اگرمیت کی طرف سے مستقلاً کی جا‏ئے توفقہاء حنابلہ کےنزدیک صدقہ پرقیاس کرتےہوئےاس کاثواب میّت کوپہنچےگا، لیکن میں نہیں سمجھتاکہ خاص میت کی طرف سے قربانی کرناسنت ہے، کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی کسی بھی بیوی کی طرف سےخصوصی طورسےقربانی نہیں کی ہے اور نہ ہی اپنے رشتہ داروں میں سب سےپیارےچچاحمزہ کی طرف سےاورنہ ہی اپنی اولادوں کی طرف سےجوآپ کی زندگی میں وفات پاگئیں تھیں، جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں اورتین چھوٹے چھوٹےبچےتھے اورنہ اپنی سب سے پیاری بیوی خدیجہ رضی اللہ عنھا کی طرف سے، اورنہ ہی آپ کےعہد میں کسی صحابی ہی سےاپنےکسی وفات شدہ رشتہ دارکی  طرف سےقربانی کرناثابت ہے” (دیکھئے : احکام الاضحیۃ والذکاۃ  نیزدیکھۓ : الشرح الممتع علی زادالمستقنع ( 7/455 – 456) رسالۃ الاضحیۃ( 51)  اور الجامع لاحکام الاضحیہ (ص 48)۔ )

سوم : عام صدقات اورحج پرقیاس : شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله فرماتےہیں : "وتجوزالأضحية عن الميت كمايجوزالحج والصدقة عنه”( مجموع فتاوی( 26/ 306 ))  .

یہاں پریہ وضاحت ضروری ہے کہ جس طرح کوئی بھی عبادت جب تک کتاب وسنت سےمعمول بہا نہ ہو اس کاکرناجائزنہیں ہے، ٹھیک اسی طرح سنت سےثبوت کےبغیرنیابتا اس کاکرناجائز نہیں ہے، شیخ البانی رحمہ  الله فرماتے ہیں : ” وبالأحرى أن لايجوزله القياس عليهاغيرها من العبادات كالصلاة والصيام والقراءة ونحوهامن الطاعات لعدم ورودذلك عنه صلی اللہ علیہ وسلم فلايصلى عن أحدولايصوم عن أحد ولايقرأ عن أحد وأصل ذلك كله قول تعالى :{وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى}( النجم  39 ) نعم هناك أموراستثنيت من هذاالأصل بنصوص وردت ………..” (إرواءالغليل   (4/ 354 ))  ” زیادہ مناسب بات یہ ہےکہ قربانی پردیگر عبادات کاقیاس جائزنہیں ہے جیسے نماز، روزہ اورتلاوت وغیرہ جیسی عبادتیں کیونکہ اس سلسلےمیں سنت سےکوئی چیزثابت نہیں ہے، اس لئے کسی کی طرف سےنمازپڑھ سکتاہے، روزہ رکھ سکتاہےاورنہ ہی تلاوت کرسکتاہے اوراس سلسلےمیں دلیل اللہ تعالی کافرمان {وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى }( النجم  39 )  ( انسان کی اپنی محنت ہی کارگرہوگی ) ہے، البتہ نصوص کی بنیادپرکچھ چیزیں اس سے مستثنی ہیں۔ ۔۔۔۔۔”۔

    کچھ لوگ حج پرقیاس کرتےہوئے میت کی طرف سےقربانی کوجائزقرار دیتےہیں کیونکہ میت کی طرف سےحج کاثبوت ہےاورحج کےاندر ھَدي بھی ہے !

   لیکن یہ قیاس کئی وجہوں کی بناپردرست نہیں ہے، کیونکہ حج ایک مستقل عبادت ہےجس کےمستقل اورمتعین ارکان وفرائض ہیں جن میں احرام، تلبیہ، طواف، منی، مزدلفہ اورعرفات کےاحکام وعبادات، رمی جمار، سعی،حلق یاقصراورھدي وغیرہ ہیں، اوران میں سےکوئی بھی رکن سنت سےثبوت کےبغیرکسی اورکےلئےکرناجائزنہیں ہے، جیساکہ امام البانی کے قول میں گزرا۔

لہذاجن عبادتوں کاکرنانصوص سے ثابت ہےان کاکرناجائزہے، لیکن جن کا کرنا ثابت نہیں اسےکرنااوررواج دیناقطعادرست نہیں ہے، کیونکہ اس سےدین میں بدعات کی راہ کھلنےکاخطرہ پایاجاتاہے، اورایسابہت ساری عبادتوں کےاندرہم آئےدن ملاحظہ کرتے رہتےہیں اوراس وجہ سےبہت سارے مسائل بھی پیداہوتے رہتےہیں۔

  اب قربانی کوہی لےلیجئے، جن لوگوں نےمُردے کی طرف سے قربانی کے جوازکافتوی دیاہے ان کےدرمیان یہ اختلاف پایاجاتاہےکہ میت کی طرف سےکی گئی قربانی کےجانورکاگوشت کاکیاحکم ہے؟ اسےاستعمال کیاجا سکتاہے، یاتمام کےتمام کوصدقہ کردیناچاہئے ؟ کسی نبی خاص طورسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سےقربانی کی جاسکتی ہےیانہیں ؟ اگرکرلی گئی تواس کے گوشت اورچمڑےکاکیاحکم ہوگا؟

   یہ اوراس طرح کےبےشمارمسائل پیداہوتےہیں جنکی کتاب وسنت اور آثارصحابہ میں کوئی دلیل نہیں ہے۔

 چنانچہ قربانی بھی انہیں عبادتوں میں سےہےجن کافوت شدہ آدمی کی طرف سےکرنا ثابت نہیں ہے، اورنہ ہی یہ سنت ہے، البتہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرتےہوئے آدمی قربانی کرتے وقت یہ کہے : ” أللهم تقبل مني ومن أهل بيتي”   ” اےاللہ میری اورمیرےگھروالوں کی طرف سے قبول فرما ” تویہ عین سنت ہےاوراس میں زندہ اورمردہ سب شامل ہيں۔ واللہ أعلم بالصواب  ۔

تبصرے بند ہیں۔