آج بھی ہو جو براہیم ؑسا ایماں پیدا

سمیہ فرحین شیخ عبدالمجیب

 ( طالبہ جامعۃ الصفۃ السلامیہ مرکز جماعت اسلامی ہند، یونس  کالونی ،اورنگ آباد)

اسلامی تاریخ کا ہر ایک باب روشن اور بے مثال حقائق سے بھرا پڑا ہے۔ اللہ نے اس دنیا میں حضرت آدمؑ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک بے شمار انبیاء ؑو رسول انسانی ہدایات کیلئے بھیجے جنہوں نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی کیں۔

اللہ کے اولوالعزم پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل الرحمان علیہ وسلام کی حیات مبارکہ بھی بے مثال معجزاتی کار ناموں سے مزین ہے۔ ایسے روشن کارنامے جو پندرہ سوسال گذر جانے کے بعد بھی روز اوّل کی طرح انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں رہبری کرتے ہیں۔

حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت مبارکہ پر نظر ڈالے تو پتہ چلتا ہے کہ آپؑ کی حیات طیبہ میں رونما ہونے والا ہر واقعہ پورے عالم اسلام کے لئے اپنے اندر ایک ناقابلِ فراموش درس لئے ہوئے ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ کے والد مذہبی پیشوا تھے اور بُت بناکر بیچا کرتے تھے مگرآپؑ نے زمانہ طفولیت ہی سے بتوں کی مخالفت کی اورجب آپ نے یہ مخالفت کھلے عام کی تو حضرت ابراہیم کو گھر سے نکالنے اور قتل کی  دھمکیاں دیں گئیں۔ اس کے باوجود حضرت ابراہیم بے خوف بتوں کی مخالفت کرتے رہے اور عبادت گاہ میں موجود بڑے بت کے علاوہ تمام بتوں کو توڑ ڈالا تاکہ لوگوں کے سامنے بتوں کی لاچاری ثابت کرسکے۔

پھر حضرت ابراہیم ؑ کا مناظرہ بادشاہ نمرود سے ہوا اور نمرود نےحضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالنے کا شاہی فرمان جاری کردیا۔ پھر جب ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈالا گیا تو اللہ نے اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا اور اپنے خلیل کیلئے آگ کو ٹھنڈا کردیا،اور جلتی ہوئی آگ آپؑ کے لئے  گلزار بن گئی۔ مگر قوم کی بدنصیبی کی حد یہ کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے بعد بھی چند ایک کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔

چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ عراق چھوڑ کر شام تشریف لے گئے۔ پھر وہاں سے فلسطین کا رُخ کیا اور اسی کو دعوت کا مرکز بنالیا۔  سن رسیدی میں حضرت حاجرہ ؑکے بطن سے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے اور کچھ عرصے بعد حضرت سارہ کے بطن سے حضرت اسحاقؑ پیدا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ نے اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہؑ اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ مکرمہ کے چٹیل میدان میں بیت اللہ کے قریب چھوڑ دیا۔ جب کھانے پینے کیلئے کچھ نہ رہا تو حضرت ہاجرہؑ بے چین ہوکر قریب صفا اور مروہ پہاڑیوں پر پانی کی تلاش میں  بے تحاشہ دوڑیں۔ اللہ تعا لی کو ایک مامتا کی ماری ماں کی تڑپ دیکھی نہیں گئی اور  حضرت اسماعیل  کے نھنّے پیروں کی رگڑ کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں پانی کا چشمہ جاری ہوگیا جو رہتی دنیا کے لیے ایک زندہ معجزہ ہے  دنیا اس آبی چشمے کو آب زم زم کے نام سے جانتی ہے  اور ہر حاجی واپسی کے وقت یہ تبرک ساتھ لینا نہیں بھولتا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے اکلوتے لخت جگر  کو ذبح کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب سچا ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم  اللہ کے اس حکم کی تکمیل کیلئے فوراً فلسطین سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور جب باپ نے بیٹے کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہیں ذبح کرنے کا حکم دیا ہے تو سعادت مند  بیٹے اسماعیل علیہ السلام کا جواب تھا ’’ابّا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے اسے کر  گزریئے۔  ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘ اور پھر رضائے الٰہی کی خاطر حضرت ابراہیمؑ نے تاریخ انسانی کا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس کا مشاہدہ نہ زمین و آسمان نے پہلے کبھی کیا تھا اور نہ آئندہ کبھی کریں گے، اپنے کلیجہ کے ٹکڑے پر پوری قوت ایمانی کے ساتھ چھری چلاتے رہے یہاں تک کہ صدا آئی ’’اے ابراہیمؑ! تو نے خواب سچ کردکھایا ہم اپنے نیک بندوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔‘‘ چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا گیا جسے حضرت ابراہیمؑ نے  اللہ کی راہ میں ذبح کردیا۔

اس عظیم امتحان میں کامیابی کے بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ میری عبادت کے لئے گھر تعمیر کرو ،چنانچہ باپ بیٹے نے مل کر (خانہ کعبہ کی) تعمیر کی۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوگوں میں حج کا اعلان کیا،اللہ تعالیٰ نے اس اعلان کو وہ معجزہ عطاکیا کہ اس کی آواز اُس وقت کے زندہ لوگوں نے ہی نہیں سنی بلکہ عالم ارواح میں تمام روحوں نے بھی یہ آواز سنی اور جس شخص کی قسمت میں بیت اللہ کی زیارت لکھی تھی اس نے اس اعلان پر لبیک کہا۔

ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے ان مختصر احوال کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت  واضح  ہوتی ہے کہ حالات تو کسی دور میں بھی اہل ایمان کیلئے سازگار نہیں تھے،یہ تو انبیاء ؑ کے ایمان کی خوبصورتی اور اللہ سے بے پناہ محبت و عقیدت کا جذبہ تھا جس کے ذریعے انہوں نے اسلام کو پورے عالم میں نور کی طرح پھیلا دیا۔

حضرت ابراہیمؑ کاشدید مخالفت کے باوجود بتوں کو توڑنا اور کامل ایمان ویقین کے ساتھ نارِنمرود میں کود جانا ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ باطل طاقتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہمیں اسلام کا پرچم پورے عالم میں لہرانے کی بے خوف و خطرحتی الامکان کاوشیں کرنی ہونگی اور موجودہ دور کی فسطائی طاقتوں کے اسلام مخالف پروپیگنڈوں کا اللہ پر توکل اور مضبوط قوتِ ایمانی کے ساتھ سامنا کرنا ہونگا۔ چونکہ توحید کی صداقت جہاں ہمیں قوت بخشتی ہے یہی باطل کی بڑی کمزوری بھی ہے۔

اسی طرح صفا مروہ کی پہاڑیوں سے زم زم کا جاری ہونا اور حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ پر مینڈھے کا ذبح ہونا نیز تا قیامت دہرائی جانے والی سنت ابراہیمی ؑ حج و قربانی اس بات کا عظیم مظاہرہ ہے کہ اللہ کے خاطر قربانی دینے والوں کے ساتھ اللہ کی نصرت ہمیشہ ہی رہتی ہے جس کے بل بوتے پر کامرانی و شادمانی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

بہر حال آج کے اس پُر فتن دور میں رضائے الٰہی اور دین کی سر بلندی کی خاطر ہمیں ہر وقت اپنی جان ومال، اپنے وقت، اپنی صلاحیتوں اور اپنی سوچ سب قربان کرنا ہونگا۔ چونکہ امت مسلمہ کو در پیش مسائل اس بات کا تقاضہ کرتے ہے کہ آج بھی ابراہیمؑ جیسا ایماں پیدا ہو،تاکہ قوم کے لئے نفرت کے شعلے بھڑکاتی یہ آگ اُن کے لئے گلستاں بن جائے۔ آمین ثمہ آمین

آج بھی ہو جو ابراہیمؑ کا ایماں پیدا

آگ کرسکتی یہ اندازِ گلستاں پیدا

تبصرے بند ہیں۔