میرے کسان میرے محسن!

راجہ طاہر محمود

کسان کسی بھی ملک کی زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انھیں لوگوں کی بدولت پورے ملک کے عوام مختلف اجناس کھاتے ہیں ۔ پاکستان میں ہر دور میں کسانوں پر ظلم و ستم ہوتا آیا ہے، کھبی ان کی زمینوں کو ان سے چھین لیا گیا،کھبی ان کو پانی اور کھبی بیج کے لئے، ذلیل وخوار کیا گیااور کھبی ان کو اپنے حقوق مانگنے کے لئے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔

حال ہی میں اسلام آباد میں اپنے حقوق کی خاطر آنے والے کسانوں کی تواضع ڈنڈوں واٹر کینن اور لاٹھیوں سے کی گئی اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی دن قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے بجٹ میں یہ کہا گیا کہ ہم کسانوں کو تمام تر سہولیات پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اب کوئی پوچھے کہ ا ن سہولیات میں کیا لاٹھی چارج،اور واٹر کینن، تھانہ اور جیل بھی شامل ہیں یا وہ ایکسٹرا میں کسانوں کو دے دیا گیاہے۔

 پاکستان میں زراعت وہ شعبہ ہے جس سے ملک کی ستر فیصد آبادی ڈاریکٹ یا انڈاریکٹ منسلک ہے۔ اسی شعبے سے ملک کی صنعتوں کے لئے خام مال نکلتا ہے اور یہی شعبہ اجناس پیدا کر کے ملک کی ترقی میں اہم کردار  ادا کر رہا ہے۔ مگر بد قسمتی سے ہر بار بجٹ میں خوشنماء نعرے اور وعدے کر کے کسانوں کو خاموش کرا دیا جاتا رہا ہے۔ کئی مواقع پر جب کسانوں نے احتجاج کیا تو انھیں مختلف اذیتیں دی گئی۔

اسی طرح حالیہ چند سالوں میں دیکھا گیا کہ کسانوں سے انکی زمین لیکر انھیں ہائوسنگ سو سائیٹوں میں تبدیل کر دیا گیااور اس سارے عمل میں نقصان صرف کسان کا ہی ہوا ہے۔ ہر صوبہ کسانوں کو مراعات دینے کی بات تو کرتا ہے مگر عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو تمام ہی صوبے کسانوں سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ڈنڈی مارتے نظر آتے ہیں۔ یہی حال وفاق کا ہے جو اپنے طو ر پر عملی اقدامات کی بات تو کرتا ہے، مگر جب بات کسانوں کی سہولت کی آتی ہے تو یہ بات صوبوں پر ڈال کر گلو خلاصی کرا لی جاتی ہے۔ اس بجٹ میں بھی کسانون کو حکومت سے بہت سی توقعات تھیں، ان میں سے بیشتر تو پوری نہ ہو سکی۔ کیونکہ اس وقت حکومت کو صرف اور صرف پانامہ نظر آ رہا ہے۔ اس کے سواء اس کی ترجیحات میں کوئی دوسرا ایجنڈا نہیں ہے۔

 پنجاب جو کہ زرعی اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے وہاں پر کسانوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، موجودہ وزیر اعلیٰ کو یہاں حکومت کرتے ہوئے کئی سال ہو چکے ہیں ۔وہ ہر بار وہ کسانوں کی جنگ لڑنے کی بات کرتے ہیں۔ اب یہ جنگ کیسی جنگ ہے جو ان سے اتنا عرصہ ہونے کو ہے جیتی نہیں جا سکی۔ اس حوالے سے اب کسانوں کی انکھیں کھل چکی ہیں۔ بار با رایک ہی شخص کے ہاتھوں بے وقوف بن کر وہ بھی جان چکے ہیں کہ ان کے حقوق بحال ہونے والے نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کی بار کسانوں نے اسلام آباد میں دھرنا دے ڈالا جس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی طرف سے صوبے کے عوام کو خوشخبری دی گئی ہے کہ آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا البتہ عوام کی فلاح و بہبود کی متعدد نئی سکیمیں شروع ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی کی بہبود کے پروگراموں کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا اور عوام کو ریلف فراہم کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بجٹ میں پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے زیادہ وسائل مختص کئے جائیں گے پنجاب حکومت شہری اور دیہی علاقوں کی یکساں ترقی کی پالیسی کو مزید آگے بڑھائے گی۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی کی بہبود اور اسے معیاری سہولتوں کی فراہمی ہماری ترجیحات میں شامل ہے’ نئے صوبائی بجٹ کی تجاویز میں اس پالیسی کو آگے بڑھائیں گے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے ہمیشہ پسماندہ علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ہے جو خوش آئند ہے تاہم دیہی علاقوں  سے آبادی کی شہروں کی طرف منتقلی کو روکنے کے لئے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے شہروں میں آبادی بڑھنے سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں خصوصاً بنیادی سہولتوں میں کمی واقع ہو جاتی ہے اگر دیہی علاقوں میں زرعی صنعتوں کو لگایا جائے تو دیہی عوام کو ان کے علاقوں کے قریب روزگار ملے گا اور وہ شہروں کا رخ نہیں کریں گے۔ اب ہمارے وزیر علیٰ کو کون سمجھائے کہ کہ زرعی زمینوں پر کاروباری مارکیٹیں قائم کرنے یا انہیں ہائوسنگ سوسائٹیز کے لئے استعمال کرنے کی  وجہ سے زرعی رقبہ متاثر ہو رہا ہے اس سلسلے کو سختی سے روکنے کی ضرورت ہے زرعی رقبے کو محض زرعی مقاصد کے لئے ہی استعمال میں لایا جانا چاہیے۔عموما حکومت کی توجہ عام طور پر اہم اجناس یعنی گندم’ چاول اور کماد کی جانب مرکوز رہتی ہے مختلف اقسام کی دالوں اور چنے کی زیادہ پیداوار کی جانب توجہ نہیں دی جاتی حکومت کو چاہیے کہ کاشتکاروں کو دالوں اور چنے کی پیداوار میں اضافہ کی بھی ترغیب دے زیادہ پیداوار کے باعث ان کی قیمتوں میں کمی آئے گی جو اس وقت عام آدمی کی بمشکل دسترس میں ہیں  دالوں اور چنے کی برآمد سے زرمبادلہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت جو مراعات کسانوں کو دینا چاہتی ے ان پر چیک اینڈ بیلنس کا ایسا نظام قائم کرئے جس سے یہ واضح ہو سکے کہ کسانوں کی دی جانے والی مراعات ان تک پہنچتی بھی ہیں یا راستے میں ہی ہڑپ کر لی جاتی ہیں کیونکہ اگر کسان اپنے حقوق کے لئے آئے دن دھرنے اور ہڑتالیں کر رہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کو جو مراعات دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں وہ یا تو ان تک پہنچ ہی نہیں رہی یا پھر وہ وعدے صرف فائلوں کی حد تک ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ایک ایسی ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جو ان تمام باتوں پر نظر رکھے اور ایسے اقدامات اٹھائے جن سے کسانوں کے حالات کو بہتر بنایا جا سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔