میں خواب میں گھروندہ بنارہی تھی

تبسم فاطمہ

جب تم مسلسل پتھروں کے بت میں تبدیل ہورہے تھے/

جب بہاروں کا رقص ٹھہر گیا تھا/

جب دریا کا پانی منجمد تھا/

جب اپنے ہی گھر کے درو بام اجنبی لگنے لگے تھے/

میں ان بوجھل لمحوں سے باہر نکل آئی تھی

میں خواب میں گھروندہ بنارہی تھی/

جب بچے

عمر کی ریت اڑاتے ہوئے

اوجھل ہوگئے تھے نظروں سے/

جیسے پرندے اڑتے ہوئے

ہر بار اپنے لیے تلاش کرلیتے ہیں

نیا آشیانہ/

جب محبت دل کے نہاں خانوں سے نکل کر/

پینٹنگس یا تصویروں میں سما جاتی ہے/

جب لوہ کے جھکڑوں میں

ایک مخصوص کیفیت/

جھلسنے پر آمادہ تھی

میں خواب میں گھروندہ بنارہی تھی

جب سب کی موجودگی کے باوجود

ایک لمحۂ ناموجود میں

کچھ بھی نہیں ہوتا/

نہ کوئی لہر / نہ زندگی /

جب سناٹا بند کرتا ہے/

دستک دینا/

جب بوڑھے دروازے پر

بند ہوگئی تھی/

کسی بھی قدموں کی آہٹ

میں ان بوجھل لمحوں سے باہر نکل آئی تھی/

میں خواب میں گھروندہ بنارہی تھی

تبصرے بند ہیں۔