میں سیریا ہوں!

عزیز نبیل

میں ایک ماں ہوں …. میں سیریا ہوں!

میں آگ ہی آگ مستقل ہوں ۔۔۔ میں خون ہی خون جا بجا ہوں

یہ میری صبحیں! اذیّتوں کا عداوتوں کا عَلَم اٹھائے کسی جہنّم سے آرہی ہیں

یہ میری شامیں! یہ پا شکستہ، اداس شامیں

ہزاروں مقتل سے آرہی ہیں

”حلب” کے ملبوں میں، ..”خان شیخون” اور ”عفرین” کی شکستہ عمارتوں میں ….. مَیں جاں گرفتہ،کٹی پھٹی اور ٹوٹی پھوٹی ہوئی پڑی ہوں۔

مَیں ”غوطہ” کے خونیں منظروں میں بدن دریدہ، شکست خوردہ سسک رہی ہوں ۔

یہ میری آنکھیں۔۔۔ خود اپنے دہشت زدہ مناظر کی وحشتوں سے پھٹی ہوئی ہیں

 زبان میری۔۔۔۔  اکھاڑ ڈالی گئی ہے گدّی سے،  مجھ کو اپنوں نے اور غیروں نے مل کے گونگا بنادیا ہے۔

مری زمینوں سے ۔۔۔ننھے بچوں کی مسخ لاشیں نکل رہی ہیں۔

مری ہوا ؤں میں ۔۔۔ خون،بارود اور انسانی گوشت جلنے کی بو بسی ہے

( عجیب منظر ، کریہہ منظر، مہیب منظر) ۔۔۔ نہتّے انساں، مسلّح حیواں

تڑپتے بچّے، بکھرتے اعضاء، بلکتی مائیں ۔۔۔ سلگتی گلیاں، جھلستی راہیں

وہ خوں رلاتے سبھی مناظر جو میری آنکھوں میں روز تیزاب بھررہے ہیں ، کِسے دکھاؤں؟؟

مجھے زمینی عدالتوں کے کسی رویّے کا غم نہیں ہے۔۔۔

میں منتظر ہوں کہ آسماں سے کوئی مہکتا پیام آئے

جو میری آنکھوں کو جگمگادے،

 جو میری مٹّی کو لہلہلادے

جو میرے بچوں کو پھر ملادے

تبصرے بند ہیں۔