نادیدہ زنجیریں

افتخار راغبؔ

اُنھیں لگتا ہے میں آزاد نظمیں کہہ نہیں سکتا

مرا دل صرف راغب ہے

غزل کی دلربائی پر

غزل کے بانکپن پر حسن پر قاتل اداؤں پر

یہ سچ ہے ہاں یقیناً سچ

غزل کا میں دوانہ ہوں

غزل ہی جان ہے میری

موافق میرے ذہن و قلب کے شاید

غزل ہی ہے

غزل کی طرح ہی میں بھی

اصولوں ضابطوں میں ہر گھڑی محصور رہتا ہوں

حسیں پابندیاں ہر دم

مرے دل کو لبھاتی ہیں

کوئی اس سے نہ یہ سمجھے

کہ میں آزاد نظمیں کہہ نہیں سکتا

انھیں بھی کوئی سمجھا دے

کہ یہ خود ساختہ پابندیاں ہٹ بھی تو سکتی ہیں

یہ نادیدہ سی زنجیریں کبھی کٹ بھی تو سکتی ہیں

تبصرے بند ہیں۔