ناول راجدھانی ایکسپریس: صحافت کو سیاست کی کثافت سے پاک کرنے کی سعی ٔ جمیل

ڈاکٹر سلیم خان

ڈاکٹر سلیم خان کے ناول راجدھانی ایکسپریس کا اجراء جامعہ ملیہ اسلامیہ میں  صدر شعبۂ اردو پروفیسر شہپر رسول کے بدست ہوا۔  اس باوقار مجلس کی صدارت معروف ناول نگار  پروفیسر غضنفر علی نے فرمائی اور مہمان خصوصی مشہور شاعر و ناقدڈاکٹر تابش مہدی تھے۔ کتاب پر تبصرہ رانچی یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے سابق صدر ڈاکٹرحسن رضا اور ڈاکٹر  عادل حیات (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے کیا۔ پروگرام کی ابتداء میں ڈاکٹر عادل حیات نے پورے ناول کا بسیط خلاصہ پیش کیا اور فرمایاراجدھانی ایکسپریس بنیادی طور پر دوسمتوں یعنی سیاست اور صحافت پر محیط ہے۔ پہلی سمت میں عآپ، بی جے پی اور کانگریس جیسی پارٹیوں کی سیاسی چالوں اوران کے منصوبوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ دوسری طرف برقی اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ ان کی تشہیر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کسی بھی ناول میں عموماً حقیقی کردار تمثیل کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں مگر سلیم خان نے بلا خوف و خطرکرداروں کو اصل شکل وصورت میں پیش کیا ہے۔  آپ نے اپنے مقالہ میں اعتراف کیا کہ راجدھانی ایکسپریس  کا موضوع سلیم خان کی فکری اور فنی انفرادیت کا غماز ہے۔ ان کے  خیال میں راجدھانی ایکسپریس  کو سیاسی و صحافتی ناول کے میدان میں ممتاز حیثیت حاصل ہوگی۔

اس ادبی نشست میں دوسرا بھرپور مقالہ ڈاکٹر حسن رضا صاحب کا تھا۔  آپ نے ناول اور افسانہ کی فنی کسوٹی پیش کرنے کے بعد راجدھانی ایکسپریس کے بابت کہا کہ یہ ناول میں سیاسی زندگی اور  انتخابات سے پیدا ہونے والی چہل پہل کے ارد گرد دوڑتے بھاگتے میڈیا گزیدہ سماجی زندگی کو پیش کرتاہے۔ آج کے جمہوری معاشرے میں عوام کو الکٹرانک میڈیا نے دنیا کو فریب پیہم میں مبتلا کردیا ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان نے ہلکے پھلکے تفریحی انداز میں حقیقت کا آئینہ  دکھانے کی کوشش کی  ہے۔ ڈاکٹرحسن رضا کے مطابق  سلیم خان عام منطق کو توڑ کر اپنی ذات اور نظریہ کا اظہار بڑی ذہانت سے ایک دو جملے میں کردیتے ہیں یہی اس ناول کی معنویت ہے۔

 ڈاکٹر شہپر رسول نے کتاب کا اجراء کرنے کے بعد فرمایا سلیم خان  کیمسٹری کا پس منظرکیمسٹر یرکھنے کے باوجود افسانے، ناول اور سیاسی تبصرے لکھتے ہیں۔  ان کے موضوعات عام  معاشرے سے لیے جاتے ہیں اور وہ نہایت آسان اور ہلکے پھلکے لہجے میں سیاست، انتظامیہ اور صحافت  کی خرابیوں کوا جاگر کرتے ہیں۔  سلیم خان قصہ گوئی کا فن جانتے ہیں اوران کے ناول اپنے آپ کو پڑھوا لیتے ہیں۔  ڈاکٹر تابش مہدی نے کہا سلیم خان زمینی حقائق سے الگ نہیں ہوتے اور معاشرتی مسائل پر بے لاگ اور بھرپور تبصرہ کرتے ہیں۔

 پروفیسر غضنفر علی نے اپنے خطبہ ٔ صدارت میں فرمایا کہ راجدھانی ایکسپریس راجدھانیوں کو سرعت، حفاظت اور سہولت کے ساتھ جوڑنے والی منفرد ٹرین ہے۔ اس ناول میں یہی کام اخبار کرتا ہے۔ ایک صحافی جب حرص ہوس کا شکار ہوکر بدعنوانی کے گڑھے میں گر جاتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والی برائیوں کا یہ ناول احاطہ کرتا ہے۔ موجودہ سیاست کس طرح ایک صحافی کو بدعنوان بناتی ہے اس کا مشاہدہ بھی ناول میں ہوتا ہے۔راجدھانی ایکسپریس صحافت کو سیاست کی کثافت سے پاک کرنے کی ایک سعیٔ جمیل ہے۔ اس ناول میں قاری کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے سارے عناصر موجود ہیں اس لیے میں سلیم خان کو اس کی اشاعت  کے لیے مبارکباد دیتا ہوں ۔  اس پروگرام کی  نظامت کے فرائض پروفیسر خالد مبشر نے بحسن و خوبی انجام دیئے اور ایشیا ایکسپریس کے مدیر اعلیٰ اشرف بستوی نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

تبصرے بند ہیں۔