نظم قرآن

قدرت الله بلال مطیع الرحمن

(متعلم:  جامعہ اسلامیہ سنابل، نئی دہلی)

نظم قرآن علوم قرآن کا مستقل موضوع ہے، اور اس کے اندر مجموعی طور پر دو گروہ ہیں ایک کا کہنا ہے کی قرآن کے اندر نظم ہے اور اس کے اندر مناسبت کو تلاش کرنا ہے۔ کیونکہ قرآن کی آیات کو اللہ کے رسول ﷺ کے حکم سے ترتیب دی گئی ہے
ایک گروہ ہے جس کا کہنا ہے کہ قرآن کے اندر نظم اور   مناسبت نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن کی ترتیب نزول قرآن کے اعتبار سے نہیں ہے۔

قران کے نظم کو ثابت کرنے والوں نے اس کے ثبوت کے لئے کہا ہے کہ ہر آیت ماقبل آیت سے مربوط ہے اسلئے مناسبت  کو تلاش کیا جائے گا۔ اور کہتے ہیں کہ کتاب کی عمدگی کی پہچان ہے کہ اس کے اندر ربط ہو اگر ایسا نہیں ہوتا تو قرآن کو پڑھنے سے اکتاہٹ آتی ہے۔

دوسرے گروہ کا کہنا ہےکہ قران بادشاہ کے دیوانِ فرآمین کی طرح ہے جس کے اندر ترتیب نہیں ہوتی صرف پوائنٹ ٹو پوائنٹ بیان کر دیئے جاتے ہیں۔

نظم قرآن کے قائلین میں کچھ لوگ اس حد تک گئے ہیں کہ انہوں نے ہر آیت کی مناسبت ماقبل آیت سے تلاش کرنے کے ثبوت میں کلام اللہ کو غیر اللہ کے کلام سے تشبیہ دے بیٹھے وہ اس طور پر کہ کہتے ہیں کہ اچھی کتاب اس وقت مانی جاتی ہے جب اس کے اندر ربط اور نظم ہو اس لئے قرآن کے اندر نظم و ربط ہے ہمیں ہر آیت کو ماقبل آیت سے ربط جوڑنا چھاہیئے۔ حقیقت ہے کہ قراان کے اندرنظم وربط تو ہے لیکن وہ ایک اعجازی مناسبت ہے کہیں تو ظاہر ہوتی جس کو ہر کوئی جان لیتا ہے کہیں ایسی ہوتی ہے اہل علم جان لیتے ہیں وہ بھی بغیر جستجو کے اور کہیں اس طرح ربط ہوتا ہے کی اسے کوئی نہیں جانتا اس میں بغیر تلاش کئے معنی میں کوئی خلل نہیں ہوتاجیساکہ سورۃنساء کی آیت ۳۲(وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُواْ اللَّهَ مِن فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍعلیما) ہے اور اس سے ماقبل آیت  ( إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلاً كَرِيمًا) سے جوڑے بغیر معنی میں کوئی بگاڑ نہیں۔ قرآن کے اندر کوئی نظم و ربط نہیں ہے اس کے قائلین بھی اللہ کی کتاب کو ایک بادشاہ کے دیوان سے تشبیہ دے دی۔ پہلے گروہ کے کچھ لوگ افراط میں پڑکر اللہ کی صفت کی تشبیہ کر بیٹھے اور دوسرے فریق تفریط کے شکار ہوکر تشبیہ کر بیٹھے۔ اس طرح لازم آتاہے اگرچہ  مشابہت کاعقیدہ نہیں ہے۔

یہ عقیدہ ہونا چاہیئے کی قرآن بانظم اور با مرتب ہے جيسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی نبی کریمﷺ کہتے تھے: ”  ضعوا هذه الأية فى السورة التى يذكر فيها كذا وكذا ” ( الاتقان ٢ / ١٣٤ بحث النوع الثامن عشر فى جمعه و ترتيبه)  لیکن عام کتابون کی طرح نہیں جہاں واضح ہے وہاں صاف ہے ورنہ اعجازی مناسبت ہے جیسے وعدہ کے بعد وعید جنت کے بعد جہنم، عقاب کے بعد ثواب کاتذکرہ وغیرہ۔ اگر عام کتابوں کی طرح نظم ہوتا تو جس طرح دیگر کتابیں بار بار پڑھنے سے اکتاہٹ ہوتی ہے اسی طرح ممکن تھا کہ اس سے بھی ہوتی۔

ہمیں معانی کے متعلق غورو فکر کرنے کو کہاگیا ہے  رہی بات اس کی کہ جہاں معانی مناسبت و ربط پر منحصر ہیں وہاں اللہ تعالی نے واضح کردیا ہے، معنی میں غورو فکر کرنے میں صحابہ کرام تکلف سے بچھتے تھے جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ وارد ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ منبر پر چھڑ کے فرمایا [کہ  "هذه الفاكهة قد عرفناها، فما الأب؟ثم رجع الى نفسه فقال إن هذا هو التكلف يا عمر.’’ "وفاكهة وابا ‘‘میں وفاكهة کا مطلب ہم نے سمجھ لیا اور ابا اس کے متعلق اپنے دل میں کہا کہ اے عمر یہ تکلف ‘ ]اس طرح کی بات ابوبکر رضی اللہ عنہ سے وارد ہے : عن ابراهيم التيمي أن أبا بكر سئل عن قوله تعالى وفاكهة وابا فقال أي سماء تظللني أرض تقللني إن أنا قلت في كتاب اللّه ما لا أعلم.( لمحات فی علوم القرآن:  دکتور محمد  بن لطفی الصباغ۔ صفحہ : ۲۲۰ )جب معانی کے اندر تکلف سے بچھتے تھے، تو پھرجہاں واضح نہیں ہے اور ربط نہ جوڑنے میں معنی کے اندر کوئی فرق نہیں پڑتا تووہاں بتکلف مناسبت اور ربط جوڑنا بدرجہ اولی رکنا چاہیئے جس کا حکم نہیں ہے اس میں بدرجہ اولی اللہ کی کتاب میں جستجو نہیں کرنا چاہیے۔

 صحابہ کرام سے بھی نہیں آتا کہ وہ مناسبت اور ربط کے تعلق سے جستجو کرتے تھے، اور رہے بات یہ کی وہ اہل زبان تھے تو ان کو مناسب وغیرہ کی تلاش کی ضرورت ہی نہیں تھی، اس کی تردید اس سے بھی ہوجاتی ہے کہ تمام صحابہ کرام کے پاس تمام آیتیں نہیں تھیں اسی طرح تمام لوگ قرآن کے فہم میں متفاوت تھے اگر اس کی ضرورت ہوتی تو ضرور نبی ﷺسے پوچھتے کہ ہمارے پاس جو آیتیں ان کو سمجھنے میں پریشانی ہورہی ہے تو اس سے ماقابل کو نسی آیتیں ہیں؟، یا ایک دوسرے سے پوچھنے کا تذکرہ ہوتا حالانکہ اس کا کوئی ذکر غالبانہیں آتا ہے۔ صحابہ کرام کے پاس جتنی آیتیں ہوتی انہیں پر عمل کرتے۔ اور اس کی تردید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے تھے کہ فلاں آیت کو فلاں جگہ رکھو۔ اہل زبان تھے ان کو کہنے کی کو ئی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ وہ ربط جان لیتے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآ ن بانظم اور با مرتب ہے اور یہ اعجازی ہے، جو ان وجوہات میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے قرآن کی تلاوت مین اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔

تبصرے بند ہیں۔