نہیں کیوں دیکھتے وہ جھانک کر اپنے گریباں میں

احمد علی برقی اعظمی

نظر آتا ہے جن کو کھوٹ اسلام و مسلماں میں
نہیں کیوں دیکھتے وہ جھانک کر اپنے گریباں میں

پڑھیں اس کو سمجھ کر آپ تو خود جان جائیں گے
نظامِ عدل کی ہے جابجا تلقین قرآں میں

جو دہشتگرد ہیں اُن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
عناصر ایسے ہیں موجود ہرجا نوعِ انساں میں

ہیں کچھ انساں نما ایسے درندے ابنِ آدم میں
نہیں ہو فرق جیسے کوئی انساں اور حیواں میں

جسے دیکھو وہ ہے اک دوسرے کے خون کا پیاسا
خزاں کے جیسے ہوں آثار اس فصلِ بہاراں میں

نظر آتا ہے طوفانِ حوادث ہر طرف مجھ کو
نہ اُڑ جائے کہیں میرا نشیمن باد و باراں میں

مجھے وہ دیکھ کر اکثر نگاہیں پھیر لیتے ہیں
جو بن کر خون بہتے تھے کبھی میری رگِ جاں میں

نگاہِ مستِ ساقی سے میں یوں سرمست رہتا ہوں
’’نہ میرا دل ترستا ہے نہ فرق آتا ہے ایماں میں‘‘

نہ جانے باغباں کے کیوں ہیں منظورِ نظر برقیؔ
لگانے پر تُلے ہیں آگ جو اپنے گلستاں میں

تبصرے بند ہیں۔