نہ ہوگی کہیں اتنی پیاری ہنسی
افتخار راغبؔ
نہ ہوگی کہیں اتنی پیاری ہنسی
تمھاری طرح ہے تمھاری ہنسی
…
چہکنے لگا میرے دل کا پرند
نظر آئی تیری شکاری ہنسی
…
مجھے دیکھ کر مسکرا دو ذرا
مٹا دے گی ہر انتشاری ہنسی
…
غم و رنج کی ساری افواج سے
سدا جنگ رکھتی ہے جاری ہنسی
…
عطا ہو مجھے لازمی کی طرح
نہیں چاہیے اختیاری ہنسی
…
کسی سے ہنسی لے کے ہنستا ہوں میں
مرے ہونٹ پر ہے ادھاری ہنسی
…
لب و رُخ کی زینت بڑھائے سدا
کرے روح کی آبیاری ہنسی
…
مرے حال پر کوئی ہنستا رہا
بڑھاتی رہی بے قراری ہنسی
…
ہے روحِ خوشی کی غذا کی طرح
غمی پر بھی ہے ضربِ کاری ہنسی
…
مری بے خودی کو بھی راغبؔ کرے
ترے لب پہ صد افتخاری ہنسی
تبصرے بند ہیں۔