نہ ہوگی کہیں اتنی پیاری ہنسی

افتخار راغبؔ

نہ ہوگی کہیں اتنی پیاری ہنسی

تمھاری طرح ہے تمھاری ہنسی

 چہکنے لگا میرے دل کا پرند

نظر آئی تیری شکاری ہنسی

مجھے دیکھ کر مسکرا دو ذرا

مٹا دے گی ہر انتشاری ہنسی

 غم و رنج کی ساری افواج سے

سدا جنگ رکھتی ہے جاری ہنسی

 عطا ہو مجھے لازمی کی طرح

نہیں چاہیے اختیاری ہنسی

 کسی سے ہنسی لے کے ہنستا ہوں میں

مرے ہونٹ پر ہے ادھاری ہنسی

 لب و رُخ کی زینت بڑھائے سدا

کرے روح کی آبیاری ہنسی

 مرے حال پر کوئی ہنستا رہا

بڑھاتی رہی بے قراری ہنسی

 ہے روحِ خوشی کی غذا کی طرح

غمی پر بھی ہے ضربِ کاری ہنسی

 مری بے خودی کو بھی راغبؔ کرے

ترے لب پہ صد افتخاری ہنسی

تبصرے بند ہیں۔