جب تلک خود پہ بھروسا نہیں ہونے والا

افتخار راغبؔ

جب تلک خود پہ بھروسا نہیں ہونے والا

تیرا مقصد کبھی پورا نہیں ہونے والا

جس کو معلوم ہے دنیا کی حقیقت اے دوست

وہ کبھی طالبِ دنیا نہیں ہونے والا

لاکھوں اشعار بھی کہہ دوں پہ کبھی بھی شاید

دردِ فرقت کا احاطا نہیں ہونے والا

چھو کے گزری ہو جسے آتشِ اُلفت کی ہوا

وہ کسی طور بھی اچھّا نہیں ہونے والا

دل تو کہتا ہے کہ ہم لوگ ملیں گے اِک دن

عقل کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونے والا

اب ہٹا دو رُخِ تاباں سے گھنیری زلفیں

’’اِن چراغوں سے اُجالا نہیں ہونے والا‘‘

کس کو ہے علم بتائے جو یقیں سے راغبؔ

ہونے والا ہے کیا اور کیا نہیں ہونے والا

تبصرے بند ہیں۔