جب تلک خود پہ بھروسا نہیں ہونے والا
افتخار راغبؔ
جب تلک خود پہ بھروسا نہیں ہونے والا
تیرا مقصد کبھی پورا نہیں ہونے والا
…
جس کو معلوم ہے دنیا کی حقیقت اے دوست
وہ کبھی طالبِ دنیا نہیں ہونے والا
…
لاکھوں اشعار بھی کہہ دوں پہ کبھی بھی شاید
دردِ فرقت کا احاطا نہیں ہونے والا
…
چھو کے گزری ہو جسے آتشِ اُلفت کی ہوا
وہ کسی طور بھی اچھّا نہیں ہونے والا
…
دل تو کہتا ہے کہ ہم لوگ ملیں گے اِک دن
عقل کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونے والا
…
اب ہٹا دو رُخِ تاباں سے گھنیری زلفیں
’’اِن چراغوں سے اُجالا نہیں ہونے والا‘‘
…
کس کو ہے علم بتائے جو یقیں سے راغبؔ
ہونے والا ہے کیا اور کیا نہیں ہونے والا
تبصرے بند ہیں۔