’نیاز نامہ‘ پر ایک نظر

اُویس احمد بٹ

(ریسرچ اسکالر، یونی ورسٹی آف حیدرآباد ، تلنگانہ اسٹیٹ)

شاعری کی دُنیا لامحدود ہے؛ حیات و کائنات کے سارے خارجی و باطنی، محسوس و غیر محسوس، اجتماعی و انفرادی مسائل کو شاعری کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ شاعری میں افراد کی نفسیات کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے اور اجتماعیت کے تمام مسائل کا حل بھی پیش کیا جاتا ہے۔ مذہب، تمدن، تہذیب و ثقافت، اخلاق، معاشرت اور سیاست موضوع ِ فن بنتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ادب کی شریعت میں کوئی موضوع خاص اہمیت نہیں رکھتا ہے، شاعر سماج کا ایک حساس فرد ہوتا ہے جسے اپنے گردو نواح میں معمولی سی معمولی تبدیلی کا بھی پتا چلتا ہے جو اُس کے احساسات، جذبات اور خیالات کو متحرک کرتی ہیں؛ جس کا اظہار وہ پھر اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کو برائے کار لاکر اپنی تحریر سے کرتا ہے۔اسی طرح نیاز جیراجپوری بھی اپنے گرد و پیش کے حالات و واقعات کے مدوجزر کو شاعری کے پیرائے میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔اُن کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ اُن کی نظمیں، غزلیں اور گیت اُن کے جذبات، احساسات اور مشاہدات کے تخلیقی اظہار پر قادر ہیں۔اُن کی شاعری کے مطالعے سے عصری مسائل و مصائب کے ساتھ ساتھ رومانی جذبات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اُنھوں نے جدیدیت کے بعد اردو شعر وادب کے اظہار ، اسلوب اور فکریاتی سطح پر ہونے والے تجربات کو نہایت ہی ہنر مندی اور خوش سلیقگی کے ساتھ قبول کر کے اپنے شعری وجدان کو لا محدود کر دیا۔جس سے اُنھیں یہ فائدہ ہوا کہ اُنھوں نے جدید شاعری میں نئے اور عصری تلازموں اور تقاضوںکا چیلنج قبول کر کے دُنیائے شعر و ادب میں اپنے لیے ایک اہم مقام بنا لیا ۔

’’نیاز نامہ‘‘ نیاز جیراجپوری کی شخصیت اور شاعری پر صالحہ صدیقی کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی سے ۲۰۱۷ء میں شائع ہوئی ہے۔مذکورہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ حصہ اول میں ۳۹ مضامین شامل ہیں جب کہ حصۂ دوم میں ۱۰ نظمیں ہیں جو نیاز جیراجپوری اور اُن کی شاعری کی نذر کی گئیں ہیں۔’نیاز نامہ‘ کی مرتبہ صالحہ صدیقی اردو ادب کی ایک باذوق اور ذی حس و متحرک ذہن رکھنے والی ادیبہ ہیں۔اُن کی تصانیف میں ’’اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں‘‘(مرتبہ،۲۰۱۳ء)،’’ڈرامہ علامہ(علامہ اقبال کی زندگی پر لکھا گیا ڈرامہ،۲۰۱۵ء)،’’ضیائے اردو(مرتبہ،۲۰۱۶ء)،’’سورج ڈوب گیا کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ(۲۰۱۷ء)،’’ سورج ڈوب گیا(ہندی ترجمہ،۲۰۱۷ء)،’’ڈرامہ علامہ(ہندی ترجمہ،۲۰۱۷ء) اور’’نیاز نامہ(مرتبہ،۲۰۱۷ء) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ  متعدد اردو ادب کے موقر رسائل و جرائد میںاُن کے اردو اور ہندی دونوں زبانوںمیں مضامین، بچوں کی کہانیاں اور افسانے شائع ہوئے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔نیاز نامہ کو مرتب کرنے کا مقصد بیا ن کرتے ہوئے صالحہ صدیقی صاحبہ مذکورہ کتاب کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں:

’’اس کتاب کو مرتب کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی۔۔نیا جیراجپوری آج کے اُن قلم کاروں کی فہرست میں شامل ہیں، جنھوں نے اپنی نو عمری سے ہی خود کو اردو ادب کے لیے وقف کر دیا، اُنھوں نے کبھی نام کمانے، انعام و اکرام حاصل کرنے، شہرت و بلندی حاصل کرنے کے لیے نہیں لکھا۔۔۔آج ہندستان یا ہندستان سے باہر اردو شعر و ادب سے تعلق رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اُن کے نام سے ناواقف ہو، ذاتی طور پر نہ سہی،تحریری صورت میں سبھی اُن سے متعارف ہیں اور اُنکی تحریروں سے مستفید بھی ہوتے ہیں، لیکن افسوس کہ اس اہم شخصیت اور اس کے طویل کارناموں اور اس کے فن پر آج تک باقاعدہ کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آئی۔ اسی لیے اس کتاب کو ترتیب دیا گیا ،جس سے نیاز جیراج پوری کی شخصیت اور کارناموں کو ممتاز اہل علم و دانش کی ہی زبانی سے سمجھا اور پرکھا جاسکے۔‘‘(پیش لفظ، ص۶۵)۔صالحہ صدیقی صاحبہ نے ’نیاز نامہ‘ کو نہایت خوش اسلوبی اور احسن طریقے سے ترتیب دیا ہے۔ مذکورہ کتاب میں چوں کہ مضامین کی تعداد اچھی خاصی ہے لہذا اس کام کو انجام دینا ایک چیلنج سے کم نہیں تھا۔ لیکن صالحہ صدیقی صاحبہ نے اپنے ادبی ذوق اور دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کام کو انجام کر کے دکھایا ہے۔نیاز صاحب کا اب تک کوئی شعری مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا ہے۔مگر صالحہ صدیقی صاحبہ نے ’نیاز نامہ‘ مرتب کر کے اُنھیں دُنیائے ادب سے متعارف کرایا ہے۔ اس کتاب میں مضامین کا ایک ایسا انتخاب شامل کر لیا گیا ہے جن کے مطالعے سے شاید ہی نیاز جیراجپوری کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے کسی ایک گوشے کی تشنگی باقی رہے گی۔اُمید ہے کہ مذکورہ کتاب نیاز جیراجپوری کو دُنیاے ادب میں زندہ جاوید کر دے۔ ’نیاز نامہ‘ کے مطالعے سے ایک ایسے شاعرکی شعری تخلیقات سے محظوظ ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے جو اب تک دُنیائے شعر و ادب میں بہ ظاہر طور(یعنی کسی شعری مجموعے کے ساتھ) متعارف نہیں ہوئے تھے۔ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر ’نیاز نامہ‘ مرتب نہ ہو پاتی تو ہم ایک ایسے شاعرکو پڑھنے سے محروم ہوجاتے جن کی شاعری پریم چند کی کہانیوں کا دیہی رنگ،ساحر لدھیانوی کی رومانیت اور نظیر اکبر آبادی کی مشترکہ تہذیب کے رنگا رنگ پہلوؤںسے بھری پڑی ہے۔ صالحہ صدیقی صاحبہ سے آگے بھی ’اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں‘ اور ’نیاز نامہ‘ جیسی مرتبہ تصانیف کی توقع ہے۔

صالحہ صدیقی صاحبہ نے مذکورہ کتاب میں ۵۸ صفحات پر مشتمل ایک طویل پیش لفظ تحریر کیا ہے، جس میں اُنھوں نے نیاز صاحب کی شاعری کی موضوعاتی لامحدودیت کے متنوع پہلو اور اشارے کنایوں،علامات ، استعارات و تشبیہات اور زبان و بیان کے خوبصورت پیرائے اظہار سے پیدا شدہ فنی نزاکتوں کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔نیاز جیراجپوری کی شاعری حقیقت اور رومان کاسنگم ہے ،جہاں وہ ایک طرف اپنے اطرف و جوانب میں ہونے والی چھوٹی سی چھوٹی تبدیلی کو بھی اپنے خلاقانہ ذہن سے شعرکے ذریعے بیان کرتے ہیں وہیں دوسری طرف اُن کی شاعری سے اُن کا ذوق جمال بھی اپنی متنوع رنگوں میں نظر آتاہے۔ شاید اسی لیے صالحہ صدیقی نے اُنھیں اعظم گڑھ، عظیم آباد اور جیرراجپور کا ساحر لدھیانوی اور قتیل شفائی قرار دیا ہے، کیوں کہ اُن کی شاعری رومان پرور فضا میں بکھری ہوئی ہے۔نیاز جیراجپوری کی شاعری کا ایک وصف یہ ہے کہ اُس میں ذرا سا بھی تصنع کاری، پیچیدگی اور مشکل پسندی نہیں ہے۔اُن کا طرزاسلوب اور زبان و بیان نہایت سادہ پُرکار، فطری اور دل آویز ہے۔اُن کی شاعری عصری مسائل کی سنگینی خصوصاً زعفرانی سیاست کے منفی رویوں اور موجودہ وقت کے اہم تقاضوں کا بھر پور احساس دلاتی ہے،یعنی عصری حسیت اُن کی شاعری کا مرکز ہے۔

ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی نے نیاز جیراجپوری پر’ شخصیت نامہ‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں اُنھوں نے نیاز صاحب کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں کواُجاگر کیا ہے۔اُنھوں نے نیاز کی پیدائش سے لے کر تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ تلاش معاش کی تگ و دو کے مختلف پڑاؤ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔نسیم اعظمی کے نزدیک نیاز صاحب فطرتاً وسیع الذہن اور کُشادہ مزاج رکھنے والے انسان ہیں۔اُن کی شخصیت علاقائی تنگ نظری،مذہبی عصبیت، تعصب اور اُونچ نیچ کے پہلوؤں سے عاری ہے۔وہ آپسی یگانگت، میل جول، بھائی چارے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد و یکجہتی کو فروغ دیتے ہیں۔

نیاز جیراجپوری کی شاعری ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی امین ہے؛ اس کی وضاحت مذکورہ کتاب میں ابراہیم افسر نے اپنے مضمون’نیاز جیراجپوری کی شعری جہات‘میں کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ نیاز صاحب نظیر اکبر آبادی کی طرح ہندوستانی میلوں ٹھیلوں اور تہواروں سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی شاعری میں ساون کے گیت، گرمی کے گیت، ہولی، عید، دیوالی وغیرہ جیسے تہواروں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیاز صاحب کی شاعری کُل میں جز کی متلاشی نہیں ہے بلکہ جز میں کُل کو تلاشتی ہے۔ایک اہم بات کی طرف افسر صاحب نے اشارہ کیا ہے جس کا اشارہ مذکورہ کتاب کی مرتبہ نے بھی اپنے پیش لفظ میں کیا ہے کہ نیاز صاحب کی شاعری میں ساحر لدھیانوی کے رنگ و بو کا احساس ہوتا ہے۔ یعنی ساحر لدھیانوی بھی جنگ کے سخت مخالف تھے اور ’اے شریف انسانوں‘نظم اس کی مثال ہے، ٹھیک اُسی طرح نیاز صاحب بھی جنگ و جدل کے حق میں نظر نہیں آتے ہیں اور ایک عمدہ نظم’جنگ‘ لکھ دی۔اس بات کی تائید اخلاق بندوی صاحب نے بھی کی ہے ۔ لیکن اُنھوں نے نیاز صاحب کی شاعری کو پڑھتے ہوئے منشی پریم چند کے دیہی رنگ کو بھی محسوس کیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ نیاز کی شاعری میں دو رنگ نظر آتے ہیں ۔ اول منشی پریم چند کی کہانیوں کا دیہی منظر نامہ اور دوم نظیر اکبر آبادی کی نظموں کا ہنگامہ پن۔اخلاق بندوی صاحب نے اگر چہ ایک طرف نیاز کی شاعری کا موضوعاتی اور فنی اعتبار سے سراہا ہے لیکن ہئیت کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو حمد، نعت، گیت، غزل، قطعہ، سانٹ یا دوہہ بہ ظاہر تو مختلف صنفیں ہیںجس میں زبان و بیان کی سطح پر ایک امتیاز قائم رکھنا ضروری ہے ۔ لیکن نیاز صاحب کے یہاں ایک ہی زبان و بیان کی ایک جیسی شائستگی و برجستگی ہے جو کہ ایک طرف شعری خوبی ہونے کے ساتھ ساتھ خامی بھی ہے۔ اخلاق بندوی صاحب لکھتے ہیں’’۔۔۔لیکن مختلف النوع ہونے کے باوجود ہر صنف لا مزاج ایک جیسا ہے۔ ایک سی زبان کی شائستگی اور ایک سی بیان کی برجستگی۔ یہ شاعری کی خوبی بھی ہے اور خامی بھی۔‘‘(ص۹۳)۔

مذکورہ کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیاز صاحب کی شاعری خیالی قلعہ بازی اور محض تفریح تفنن کا وہ ذریعہ نہیں ہے جس میں صرف لطف اندوزی مقصود ہوتا ہے اور سامعین کو شاعری کی رنگین کیفیات اور خیالی دُنیا کی سیر کرائی جائے بلکہ اُن کی شاعری زمینی حقائق سے بہت حد تک قریب ہے، وہ اپنے اطراف و اکناف کی ہر چھوٹی بڑی تبدیلی کو نہایت ہی حساس طریقے سے اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور پھر اُسے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے شاعری کے فنی و جمالیاتی عناصر کو ملحوظ نظر رکھ کر بیان کرتے ہیں۔نیاز کی شاعری کے مطالعے سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ اُن کے شعری وجدان میں داخلیت اور خارجیت اپنی سچائی اور صداقت کے ساتھ نظر آتی ہے۔اُن کی شاعری میں رومانیت(Romanticism) اور اشتراکیت (Socialism)کا ایک حسین امتزاج ملتا ہے۔

’نیاز نامہ‘میں شامل جملہ مضامین میں ایک بات مشترک ہے کہ نیاز جیراجپوری ایک غیر معمولی اور منفرد لب و لہجے کا شاعر ہے۔وہ لب و لہجہ بھی کیسا ہے جس میں رومانیت ، جمالیاتی وژن ، نفسیاتی رویے اورعصری سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی وتمدنی نیز ثقافتی حسیت اپنے اندر ٹھاٹھیں مارتی ہوئی نظر آتی ہے۔مولانا حالی نے ایک شعر کے لیے جو شرائط اور خوبیاں بیان کی ہیں، وہ کہیں نہ کہیں نیاز صاحب کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ڈاکٹر محمد مستمر صاحب نے اپنے مضمون ’’ نیاز جیراجپوری: اپنے فن کے آئینے میں‘‘ میں نیاز صاحب کی شاعری کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:’’۔۔۔شاعری کو پڑھتے وقت یہ محسوس نہیں ہوتا ہے کہ نیاز صاحب الفاظ کے گورکھ دھندے میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیںبلکہ تفحص الفاظ میں وہ مقصدیت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اُن کے یہاں تفکر بھی ہے اور تحیر بھی ہے،تخیل بھی ہے اور نیچرلٹی بھی ہے۔سادگی بھی ہے اور پرکاری بھی ہے۔صداقت بھی ہے اور نزاکت بھی ہے۔ایسی نزاکت جس میں گاؤں کی شفاقیت اور آفاقیت ہے۔نیز ان سب عناصر کو ملا کر ایک ایسا معجون و مرکب نیا ز صاحب نے اپنی غزلوں میں ریار کر دیا ہے کہ جو سادگی، جوش اور نیچر لٹی کے قریب ہے۔جس کو حالی نے اچھی شاعری کے لیے لازم قرار دیا ہے۔‘‘(ص،۲۶۲)۔

نیاز جیراجپوری کی شاعری اُن کی دلی کیفیات اور رومان دلفریب فضاؤ ں سے ہوتے ہوئے عصری سیاست و معاشرت کے نشیب و فراز اور اس کی زبو حالی، مسائل اور رجحانات و محرکات اور اپنے عہد کی سچائیوں اور صداقتوں کی آئینہ داری اور ترجمانی کرتی ہے۔اُن کی شاعری میں ڈاکٹر نشتر امروہوی کی زبان میں تہذیبی زوال،مُردہ ضمیری، بے حسی،طبقاتی کشمکش، دہشت گردی، رشتوں میں لاتعلقی، ظلم و ستم، جبر واستبداد، عدم تحفظ اور عدم انصاف کی جھلکیاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔نیاز صاحب کی شاعری کا لہجہ نرم ہے جس سے اُن کے کردار کی آئینہ داری ہوتی ہے نیزاُن کا شائستہ اسلوب ہندوستان کی تہذیبی روایات کی علامت ہے۔اُن کے یہاں جو مضامین کا تنوع ہے، اُسے اُن کی وسیع النظری اور فکریاتی لامحدودیت کا پتا چلتاہے۔اُنھوں نے فن شاعری میں اپنی خوش سلیقگی ، نفاست، تازگیٔ خیال، ندرتِ تجربہ اور جذبے کی شدت سے بہ زبان خواجہ حیدرعلی آتش ’مرصع سازی ‘کے جواہر پیدا کردیئے۔اُن کی شاعری روانی ، نغمگی اورموسیقیت کے عناصر سے پُر ہے۔اُنھوں نے ایک مرصع ساز کی طرح اپنی شاعری میں نگینوں کو جوڑ کر حسن پیدا کر دیا ہے۔ اُن کے یہاں بندش ِ الفاظ میں اس قدر نفاست ہے کہ شعر میں الفاظ آبدار موتی کی طرح لڑی میں پروئے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن مذکورہ خصوصیات کے با وجود بھی اُن کے زبان و بیان میں کمیوں اور خامیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ڈاکٹر سید وسیم حیدرہاشمی صاحب نے اپنے مضمون بعنوان’نیاز جیراجپوری کی مجموعی شاعری کا اجمالی جائزہ‘ میں نیاز صاحب کی شاعری کی متنوع خصوصیات کو بیان کیا ہے وہیں دوسری طرف غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’’زبان و بیان کی اکثر خامیوں اور کمیوں کے باوجود اُن کی شاعری کا انداز بہت سادہ اور اثر آفرین ہے‘‘(ص،۱۷۵)۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اُنھوں نے نیاز صاحب کے زبان و بیان کی خامیوں اور کمیوں کی کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کی ہے۔ جس سے اُن کے اس بیان میں عدم استدلال کا شائبہ ہوتا ہے۔بہر کیف مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ’نیاز نامہ‘ کا جائزہ لینے کے بعد راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ نیاز صاحب دبستان نظیر اکبر آبادی کے ایک مستند شاعر ہیں۔ جن کی شاعری میں ہمیں نظیر اکبر آبادی کی فکریاتی و نظریاتی عکس ملتا ہے۔ نیاز صاحب نے اپنی شاعری میں نہ صرف ہندوستان کی مشترکہ روایات کی پاسداری کی ہے بلکہ سماجی ہم آہنگی، سیاسی استحکامی،معاشرتی متوازیت اور اتحاد ویکجہتی جیسے عناصر سے اردو شاعری کے دامن کو موضوعاتی طور پر وسیع کرنے میں اپنا اہم کردار نبھایا ہے۔ انہی خصوصیات کی بنا پر اُن کی شعری جہات میں تنوع بھی پیدا ہو ااور کشادگی اور انفس و آفاق کے تمام پہلو بھی روشن ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔