’نیرنگِ سخن‘ کاعظیم شاعر ادیب ؔوارثی

انجینئر محمد عادل ؔفراز

(علی گڑھ، یوپی)

انعام الحق ادیبؔ وارثی کا تعلق خیرآباد مئو کی ادبی سر زمین سے ہے۔یہ وہ سر زمین ہے جہاں شعر وادب کی ممتازشخصیات پیدا ہوئیںجن میں فضا ؔابن فیضی،برق ؔاعظمی،اوجؔ اعظمی،انجمؔ ضیائی کا نام سرِفہرست ہے۔انعام الحق کو برقؔ اعظمی اور اوجؔ اعظمی جیسے استاد ملے جنھوں نے ان کے فن کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔چونکہ کہ ادیبؔ وارثی کا رشتہ تصوف سے ہے وہ سلسلہ وارث شاہ سے وابستہ ہیں اس لئے انھوں نے ادیب ؔوارثی تخلص اختیار کیا ہے۔

ان کا مجموعۂ کلام ’’نیرنگِ سخن‘‘ ان کی شاعری کی مختلف جہتوں کاعکاس ہے۔جس کو ڈاکڑ حامد رضا صدیقی نے بحسن و خوبی مرتب کیا ہے۔کتاب کو ترتیب دینا بھی ایک فن ہوتا ہے اگر کلام کو صحیح طریقے سے مرتب نہ کیا جائے تو شاعر کے کلام کی نزاکتوں اور اس کے تخیلات کی بلند پروازی سے اہل ادب آشنا نہیں ہوسکتے اور نہ ہی شاعر کی قدر و قیمت کا صحیح تعین کیا جا سکتا ہے۔کہتے ہیں کہ غالبؔ کے کلام کو مرتب کرنے میں ان کے احباب کا بڑا اہم کردار تھا جس کی وجہ سے غالبؔ اردو ادب کے ایک معتبر شاعر بن کر ابھرے۔اسی طرح انعام الحق ادیبؔ وارثی کے کلام کو مرتب کرنے میں ڈاکٹر حامد رضا صدیقی کا اہم کردار ہے۔انھوں نے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ ادیب ؔ وارثی کے تیس چالیس برس کے کلام کو یکجاکرکے اہلِ ادب کو ایک اہم شاعرسے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔انھیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ ’’نیرنگ سخن‘‘خوبصورت اور بہترین انداز میں منظر عام پر آیا اور اہل نقد و نظرادیب ؔوارثی کی شاعری کی طرف توجہ دینے پر آمادہ ہوئے۔

    در اصل ادیب ؔوارثی ایک گوشہ نشین شاعر ہیں اورانھیں دنیا کی ریا کاری سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔وہ اپنے تجربات اور احساسات کی دنیا کو اپنی شاعری کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔انھوں نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ۔اس مجموعۂ کلام میںحمد،نعتیں،مناقب،غزلیں،منظوم نظمیں،رباعیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔جس کی بنا پر ہم ادیبؔ وارثی کی شعری کائنات کا تعین کرسکتے ہیں۔

      ان کا خاصہ یہ ہے کہ جب وہ حمدیہ اشعار کہتے ہیں تو اس میں جہاں اﷲسے عقیدت و محبت،اس کی رحمت کا اقرار ،عاجزی و انکساری کے نقوش پائے جاتے ہیں وہیں وہ سرکارِ دوعالم حضرت محمد مصطفیٰؐ کا وسیلہ اختیار کرتے ہوئے مناجاتی لہجہ بھی اختیار کرتے ہیں مثلاً:

ہر اک جانب سے گھیرے ہے مجھے منجدھار یا اللہ

تو کردے رحمتوں سے اس کا بیڑا پار یا اللہ

یہی ہے آرزو اس بندۂ ناچیزکے دل کی

ترے محبوب کا ہو قبر میں دیدار یا اللہ

ترا کعبہ ہو میرے سامنے اور ہو جبیں میری

پھر اس کے بعد دیکھوں، روضۂ سرکار یا اللہ

   نعتیہ کلام کی بات کریں تو نعت لکھنا ایک ایسا فن ہے جو محبتِ رسولؐ کی ترجمانی کرتا ہے جس کے دل میں ختمی مرتبت سے جتنا جزبۂ عشق ہوگاوہ اتنا ہی نعتیہ اشعار عقیدت و مودت کے پیرائے میں کہے گا۔

با الفاظِ دیگر جب تک رسولؐ سے گہری محبت اور سچی عقیدت نہیں ہوگی تو کوئی شاعر نعت نہیں لکھ سکتا ۔

    نعت گوئی کاپہلا مرحلہ یہ ہے کہ شاعر نبیؐ کریم کی شان کو بیان کرتے وقت بہت محتاط رہے اور غلو سے کام نہ لے اگر وہ اس بات کا خیال نہیں رکھتا ہے تو وہ متاعِ ایمان کھو دے گا ۔لیکن ادیبؔ وارثی کا کمال یہ ہے کہ وہ جہاں عقیدت و محبت سے نعت گوئی کرتے ہیں وہیں اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ ان کی عقیدت راہِ مستقیم پر گامزن رہے۔مثال کے لئے چند اشعار دیکھیں:

تصویر نبی جب سے آنکھوں میں منور ہے

سانسیں بھی مہکتی ہیں اور دل بھی معطر ہے

میں کیسے بھلا دیکھوں جنت کا حسیں منظر

آنکھوں میں شہ دیں کے دربار کا منظر ہے

ایماں کا جام ہم کو پلایا رسولؐ نے

واقف ہمیں خدا سے کرایا رسولؐ نے

سیراب ہو رہا ہے جہاں جس سے آج تک

دریا وہ رحمتوں کا بہایا رسولؐ نے

   ادیب ؔ وارثی آلِ رسولؐ سے بھی بے انتہاء عقیدت رکھتے ہیں اس کا ثبوت ’’منقبت در مدح امام حسینؑ‘‘ میںدیکھنے کو ملتا ہے۔کہتے ہیں:

شبیرؑ کے دامن میں جگہ جب سے ملی ہے

بگڑی ہوئی تھی جتنی، وہ سب بات بنی ہے

اسلام کا سینچا ہے چمن تونے لہو سے

تیری اے شہہِ کرب و بلا شان بڑی ہے

خیرات جو دیتی ہے زمانے کو ضیاء کی

وہ ذاتِ وفا نور کے سائے میں پلی ہے

    حمدیہ ، نعتیہ اور منقبتی کلام کے بعد ان کی غزل گوئی کی طرف متوجہ ہوتے ہیںتو پتہ چلتا ہے کہ جہاں انھیں غزل میں اپنے احساسات اور جذبات کی دنیا آباد کرنے کا سلیقہ آتا ہے وہیں وہ دنیا اور اہلِ دنیا کی کہانی بھی بیان کرنے کا ہنرجانتے ہیں۔ان کی شاعرانہ انفرادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ زمانے کو ایک الگ انداز سے دیکھتے ہیں جس سے ان کی انفرادیت نمایاں طور پر واضح ہوتی ہے۔ انھیں روایتی شاعری کے تقاضوں کو دور حاضر کے مطابق نئے رنگ و آہنگ میں ڈھال کر پیش کرنے کا ہنر بخوبی آتا ہے۔اس سلسلے سے حامد رضا صدیقی ادیب ؔ وارثی کی غزل گوئی پر اظہارخیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ان کی غزلوں میں سادگی و سلاست کے ساتھ اثر پذیری اور اثر انگیزی بھی بہت پائی جاتی ہے۔ان کے یہاں غم حیات و کائنات کے ساتھ وہ تمام مسائل و موضوعات بھی ہیں جو ان کی غزلوں کو انفرادیت عطا کرتے ہیں ان کے یہاں پاکیزگی،معصومیت،ہجر و وصال اور راز و نیاز کے ایسے لازوال نقوش ملتے ہیں جو ان کو دیگر شعراء سے ممتاز بھی کرتے ہیں۔‘‘

   اس اقتباس سے ادیبؔ وارثی کی قدرو قیمت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ادیب ؔوارثی کے تجربات کی دنیا ان کو ایک نئی شعری کائنات کو خلق کرنے پر گامزن کرتی ہے۔وہ اپنی شاعری کے ذریعے دنیا کے مسائل کو پیش کرتے ہیں اور ان پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔اس سے واضح ہو تاہے کہ وہ ایک حساس دل رکھتے ہیں اور ہر لمحہ متحرک رہتے ہیں۔مثلاً یہ شعر دیکھیں:  ؑؑعصر حاضر کے حالات پر نظر بھی رکھتے ہیں شعر دیکھیں:

ہماری بربادیوں کا چرچا، کدھر نہیں ہے کہاں نہیں ہے

نظر جہاں تک بھی جا رہی ہے، کہیں بھی امن و اماں نہیں ہے

    ادیب ؔ وارثی ایک سچے وطن پرست ہیںحب الوطنی کا جذبہ بھی ان کی شاعری میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ساتھ میں اردو زبان سے بھی بے حد محبت رکھتے ہیں۔شعر دیکھیںـ:

تمام ملکوں سے ملک بہتر مرا یہ ہندوستاں نہیں ہے

بتائو تم نازش وطن کیا، ہماری اردو زباں نہیں ہے

    وطن کی محبت میں ڈوب کر انھوں نے جو اشعار رقم کئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں کیونکہ یہ ایسا موضوع ہے جس کا حق ہر کس و ناکس سے ادا نہیں ہو سکتا۔کیونکہ وطن کی محبت کا جذبہ فطری ہوتا ہے۔اس میں دکھاوے کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی۔جو سچا عاشقِ وطن اور خادمِ وطن ہوتا ہے اگر وہ شاعر بھی ہو تو پھر اس کے قلم سے وطن کی شان و شوکت کے لئے جو اشعار نکلتے ہیں وہ اہلِ وطن کے دل پر ضرور تاثر قائم کرتے ہیں۔ اشعار دیکھیں:

وطن کی خاک کا مجھ پر عظیم احساں ہے

وطن کے کام میں آئوں یہ دل میں ارماں ہے

وطن کی شان وطن کی سلامتی کے لیے

ہمیں فساد کے ماحول سے نکلنا ہے

   ان کے مندرجہ بالا اشعار سے جہاں وطن کی محبت عیاں ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ وطن میں امن و امان چاہتے ہیں اس کی تہذیب کی بقا کے بھی خواہاں ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں گنگا جمنی تہذیب کی ترجمانی بھی پائی جاتی ہے۔مثلاً:

کاشی کی صبح میںہے رخِ مہ لقا کا رنگ

شامِ اودھ میں ملتا ہے زلفِ رسا کا رنگ

     میر تقی میرؔ کے والد محمد متقی نے میرؔ کو مشورہ دیا تھا کہ بیٹا عشق کرو۔عشق ہی دنیا میں حقیقی ہے۔ادیبؔ ؔوارثی کے یہاں بھی اسی عشق یعنی عشقِ حقیقی کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے جس عشق کی ترجمانی میرؔ تمام عمر کرتے رہے جسے ہم تصوف سے عبارت کرتے ہیں۔یہ تصوف ادیبؔ وارثی کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کہتے ہیں:

عشق سے سابقہ نہیں جس کا

کیا بتائے وہ عاشقی کیا ہے

   یعنی جس کو معرفتِ الٰہی نہیں وہ دنیا کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہو سکتا۔

      ان کے یہاں ایسے زاہد کوبھی طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کا عشق سے کوئی سروکار نہیں اور ریاکاری جس کی فطرت ہے۔شعر دیکھیں:

عمر کٹتی ہے سجدہ ریزی میں

اور زاہد کی زندگی کیا ہے

   وہ ایسے افراد کو بھی قابلِ مزمت سمجھتے ہیں جو ظاہری حسن کی طرف مائل ہوتے ہیں اور عشق کی عظمت سے واقف نہیں ہوتے۔

شکل و صورت پہ کیوں فدا ہے تو

دیکھ کردار باطنی کیا ہے

ؑ   عصر حاضرمیں زمانے کے مختلف پہلو ئوںمثلاًقوم کی بد حالی اورملک کے سیاسی حالات پر بھی ان کی گہری نظرہے ۔وہ قوم کو متحد ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔کہتے ہیں:

متحد یہ نہیں ہیں آپس میں

کلمہ خوانوں کی زندگی کیا ہے

افرا تفری کا ہے دور چاروں طرف

کوئی ملتا نہیں رہبری کے لیے

رہنماو!سیاست سے باز آوکہ اب

کچھ کرو ملک کی بہتری کے لیے

ماحولیات اور دنیا کے دیگر مسائل بھی ان کے شاعری میں دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کس طرح آج انسانیت شرم سار ہورہی ہے اور انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں:

دورِ حاضر میں پانی ہے مہنگا بہت

خونِ انساں ہے دنیا میں سستا بہت

ساری مخلوق آپس میں ہے متحد

آدمی ہے عدو آدمی کے لیے

ہم نوا مظلوم کا کوئی نہیں

گرم ہرسو ظلم کا بازار ہے

   اس کے علاوہ انھوں نے عصر حاضر میںبدلتے ہوئے انسانی رشتوں کے تقاضوں کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔اس سے متعلق اشعار دیکھیں:

رہتے تھے اک مکان میں سب اہل خاندان

لیکن ہیں باپ بیٹوں کے اب گھر الگ الگ

دوسروں سے وفا کی کیا امید

اپنا سایہ بھی جب وفا نہ کرے

دھوکے قدم قدم پہ انھیں نے دئیے مجھے

جن کو سمجھ رہا تھا میں اپنے خیال کے

    عصر حاضر میں جہاں ملک کی سیاست میں اہم تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے وہی ملک میںمیڈیا کی کار کردگی پر بھی سوالیہ نشان قائم ہوئے ہیں۔اس موضوع کو ادیبؔ وارثی نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:

مل جل کے کیسے قوم رہے انڈیا کی سب

جب میڈیا ہی جھوٹی خبر بولنے لگے

   غزلیات کے بعد انھوں نے نظموں میں بھی شاعری کے جوہر دکھائیں ہیں۔ان کی منظوم نظمیں’’ہولی‘‘ اور’’رخصتی‘‘ اس بات کی عکاس ہیں۔انھوںاپنی نظم’’ہولی‘‘میں ہولی کے تہوار کا ایک دلکش منظر پیش کیا ہے۔کہ کس طرح یہ تہوار منایا جاتا ہے۔اس دن لوگ کیا کرتے ہیں۔اورکس طرح یہ تہوار برائیوں کو مٹانے اور ایکتا کے رنگ میں رنگنے کی دعوت دیتا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہندو مذہب کی تلمیحات بھی اس نظم میں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔نظم کے اشعار دیکھیں:

پہن کے آیا ہے پھولوں کا ہار ہولی میں

وہ رشک گل ہے مجسم بہار ہولی میں

زمانے بھر میں مسرت کی لہر دوڑ گئی

رہا نہ کوئی کہیں سوگوار ہولی میں

جلے نہ بھگت پرہلاد، جل گئی ہولیکا

خدا رسیدہ سے پایا نہ پار ہولی میں

وہ اپنے بھکتون کی کرتا ہے اس طرح رکشا

عیاں ہے قدرت پروردگار ہولی میں

برائیوں کو مٹانے کا عہد کر اس دن

سدھر خود ، اور جہاں کو سدھار ہولی میں

   ادیب ؔوارثی کو انسانی جذبات کو پیش کرنے میں بڑی مہارت حاصل ہے۔ان کی نظم’’رخصتی‘‘  اس بات کی عکاس ہے۔شادی کے بعد بیٹی کی ’’رخصتی‘‘ کے وقت اہل خانہ پر کیا گزرتی ہے اس کی مکمل تصویر کشی اس نظم میں دیکھنے کو ملتی ہے:

جا مری نور نظر تیرا خدا والی ہے

آج نغموں سے ترے میرا چمن خالی ہے

لختِ دل انجمن آرا مری نازوں کی پلی

دل کے گلشن کا تو انجم رہی ننھی سی کلی

آج افسوس تو ماں باپ کا گھر چھوڑ چلی

بھائی افسردہ ہیں ماں فکر سے متوالی ہے

     ان کی رباعیات میںبھی ایک منفرد رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔انھوں نے مختلف موضوعات پر رباعیات قلم بند کی ہیں لیکن ماہِ رمضان،عید،اور رسولؐ کی شان میں شاندار رباعیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ملاحظہ کریں:

اہل ایماں لے کے رحمت ماہ رمضاں آگیا

روزہ داروں کے لئے برکت کا ساماں آگیا

اس مہینے کی بھلا عظمت بیاں کیسے کریں

جب اسی ماہ کرم میں رب کا قرآں آگیا

ہنستا،گاتا،مسکراتا چاند نکلا عید کا

یار کی خوشبو اڑاتا چاند نکلا عید کا

رنج و آلام وبلا کے سب اندھیرے مٹ گئے

نور خوشیوں کا لٹاتا چاند نکالا عید کا

جہاں کسی سے کہیںبھی سنا ہے نام رسولؐ

بصد خلوص وہیں پر پڑھا سلام رسول

زمیں پہ بیٹھے ہیں سیاح لامکاں لیکن

سمجھ سکا نہ کوئی آج تک مقام رسولؐ

   الغرض یہ کہا جاسکتا ہے کہ ادیبؔ وارثی کی شاعری کی مختلف جہتیں ہیں۔جو ان کو دور حاضر کے شعراء میں منفرد اور الگ مقام دلاتی ہیں۔ان کے اشعار کا جادو اہل علم و ادب کو ایک نئی دنیا سے روشناس کرانے میں معاون نظر آتے ہیں ۔ان کی شاعری انسانی جذبات اور خالص عقیدت مندی پر منحصر شاعری ہے۔

تبصرے بند ہیں۔