وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

مبینہ رمضان
عورت نصف انسانیت ہے۔ عورت کے تصور سے ہی کائنات میں رنگ وبو ہے۔ عورت مختلف اور منفرد خصائل وصفات کی مالکہ، فہم وفراست، عود ومشک گلاب سے بہتر عزت وقار میں عرفہ وشفقت رحمت سے اسکے معور کا ہر خاکہ رنگین ومذین ہے۔ پھر بھلا اس صدی میں کون کئے گا کہ عورت مردوں سے کم تر ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ یقینی طور پر مشکلات کے ساتھ آسانیاں ضرور ہوتی ہیں عصر حاضر میں جب بھی عورت پہ کبھی کھبار یا اکثر لوگ عورت کو مرکز مباحث بناتے ہیں اور جو آراء سامنے آتی ہیں تو ظاہر تو وہ عورت کو ہمیشہ مشت کنارے پر کھڑا کرتے ہیں لیکن معاشرے کے چھوٹے سے کوزے میں جب ہلکی سی گہرائی میں جاتے ہیں تو شاید یہی آرا صر ف ایک فیصد مشت ثابت ہونگے۔ یہ میرا تجربہ ہیں کہ ہر جگہ تقریباً عورت مختلف حالات کے لباس میں کہیں مشکلات ومصائب کا سامنا کرتی ہیں تو کہیں آرام وآسائش میں سانس لے رہتی ہیں۔ دراصل عورت کی ساری زندگی میں ایک رسہ کشی جنم لیتی ہیں۔ عورت کی تخلیق میں خالق کائنات نے ایک مختلف انداز سے اور ایک منفرد کام کیلئے کی ہیں لیکن جب اس مقصد سے منحرف ہوگی تو عورت کی زندگی کے مقصد بھی راہیں بھی، حصول بھی، مرحلے بھی اور رشتے بھی تبدیل ہوتے گئے۔ تو دن اور صدیاں گزرتی گئی عورت نے اب خود کو کہیں افراط میں پریشان کردیا ہے تو کہیں اسے حالات نے مجبور ولاچار کردیا ہے۔ عورت کس مقام پر کھڑی ہے اور اسکی شاخت کیا ہے ایک دُھندلی سے تصویر ہے۔
عورتین یہ ذہن نشین کریں کہ دونو ں جہانوں کی فلاح کا راز صرف اللہ کی اطاعت ہی میں مضمر ہیں جب کوئی عورت نماز پنجگانہ ادا کرتی ہیں اور اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دونوں جہانوں کی خوشیوں سے ہمکنار کرئے گا۔ ہمارے پاس شریعت (قرآن وسنت) کا بیس بہا خزانہ ہے لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ زیورات سونا اور چاندی میں نہیں وہ زیورات کو کبھی کبھار اس زیب تن کرتے ہیں لیکن دن رات روز مرہ زندگی میں جو زیورات ہمارے کردار کو بلند مرتبہ عطا کرتے ہیں وہ اخلاقیات ہیں، آداب، سلیقہ شعاری، صبر وتحمل، اطاعت گذاری، حسن وزیبائش، نازوادا، قناعت، شرم حیا، متانت ساری خوبیاں اتنی قیمتی ہیں کہ کروڑوں کی مالیت رکھنے والے اگر ان خوبیوں سے قاصر ہیں تو کچھ بھی نہیں ہے وہ عورت تو اتنی عظیم ہیں کہ اس کے بطن سے بڑی ہستیوں نے جنم لیا۔ وہ لوگ جنہوں نے زندگی کے تمام گوشوں میں داستان رقم کیں ان کے جسم وبدن میں عظیم ماوؤں کا روحانی شیر تھا اور ایسی ہستیوں کیلئے ایسے ہی گہوارے ہوتے ہیں۔
امام شافعیؒ کی حیات مبارکہ میں درج ہے کہ جب آپ کے ماں نے آپ کو حضرت امام مالک ؒ کے پاس تحصل علم کے پاس بھیجا تو رخصت کے وقت ایک پوٹلی باندھ کر کہتی ہے’’ کہ بیٹا میرے پاس کچھ نہیں ہے جو میں تمہیں زادراہ کیلئے ساتھ دوں میری خواہش ہے کہ تم علم دین پڑھو اور عالم بن کے لوٹو‘‘ آپ پندرہ یا سولہ سال امام مالکؒ کی خدمت میں رہے اور فقہ کے میدان میں محمد بن ادریس الشافعی نے عظیم کارنامہ انجام دیا کہ واحد امام شافعی نے خبرالواحد کا تصور پیش کیا اور انکی تصنیفات میں کتاب الام‘‘ بہت ہی مشہور ہے آپ امام مالکؒ کی خدمت میں مستفید ہوتے رہے اور امام مالکؒ نے انہیں اپنی نصف دولت دے کر رخصت کیا۔ جب ماں بیٹے کے استقبال کیلئے نکلی اور راستے میں ہی مال دیکھ کے پریشان ہوگئی کہ بیٹا شاید علم حاصل کرکے نہیں بلکہ مال لے کر لوٹا ہے تو امام شافعیؒ نے امی جان آپ پریشان ہو یہ امام مالک ؒ نے تحفے میں دیا ہے تو ماں نے کہا بیٹا یہ مال اسی جگہ صدقہ کرکے اپنے گھر میں داخل ہونگے تو امام شافعیؒ نے فرمایاایسا ہی کیا اور ماں کی خواہش پوری کی۔
سخاوت مال کی کثرت میں ہے
سعادت تو حقیقت میں ہے تقویٰ
عزیز بہنو یہ ظاہری چمک دمک سب ختم ہونے والی ہے ہمیں وہی سب کچھ اختیار کرنا چاہئے جس سے ساری دنیا روشن ہوجائیں جس سے گھروں میں اور ہمارے درمیان وہ سکون پھر سے لوٹ آئیں جس سے ہم نے کھویا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں اہل ایمان کے معاملے میں اللہ تعالیٰ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے کہ اس نے دعا کی اے میرے رب میرے لئے اپنے ہاں اہل جنت میں الگ گھر بنادے اور فرعون اور اسکے عمل سے بچالے اور ظالم قوم سے مجھ کو نجات دے۔
حضرت آسیہ کا ذکر قرآن میں ہے اور یہی خاتون مومنین ومومنات کیلئے ایک زندہ جاوید مثال ہے۔ کس طرح اللہ نے اسکی ظاہری وباطنی شخصیت کو مثال بنا کر پیش کیا ہے اور ایسی تمام عورتوں کیلئے نمونہ ہے جو زندگی میں ہدایت کی طلبگار ہیں اور اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ پر اپنی حیات کو سنوارنا چاہتی ہیں۔
بہنیں اکثر فضول کاموں میں وقت گنواتی ہیں تو ایسی حرکات سے پرہیز ضروری ہیں ہمیں ظاہری وضع قطع کو بھی خوبصورت بنانے پر خصوصی توجہ دیتی ہیں لیکن اللہ کی رضا کو اولین ترجیح دیں اپنے شوہر، عزیز واقارب بچوں کے ساتھ اپنی ہم جولیوں کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ خندہ پیشانی سے زندگی کے ہر مرحلے کا مقابلہ کرکے شکرگزاری کریں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنی چاہئے۔
کتب طبقات میں ہے کہ جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہؓ کئی کئی دن تک فاقہ کرتی تھیں ایک دن ان کے شوہر حضرت علیؓ نے محسوس کیا کہ ان کا چہرہ پیلا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا ’’ اے فاطمہ تمہیں کیا ہوگیا ہے‘‘ تین دن سے گھر میں کوئی چیز نہیں جسے میں کھا سکوں حضرت فاطمہؓ کا سیدھا جواب تھا۔
حضرت علیؓ نے کہا ’’ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں‘‘؟ تو انہوں نے جواب دیا ’’ میرے ابا جان نے رخصتی کے وقت فرمایا تھا۔ اے فاطمہ ؓ اگر علی تمہارے پاس کچھ کھانے کی چیز لائیں تو کھا لینا اگر وہ نہ لائیں تو ان سے کوئی سوال نہ کرنا‘‘
اب ہم سب اسکے برعکس کرتے ہیں صرف یہیں کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہم تو مشکل سے ایام گزارتے ہیں۔ گھر میں سب کچھ موجود ہوتے ہوتے بھی ہم ذخیرہ کرنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ شوہروں کے ساتھ تو کئی معاملے میں ہزاروں میں خرچہ کرکے بھی کہتے ہیں ہم کہاں فضول خرچ ہیں ہمارے پاس کچھ نہیں ہیں۔ حضرت اسما بنت ابی بکر فرمایا کرتی تھیں۔
’’ اللہ کے راہ میں خرچ کرو اور صدقہ کرو اور ضرورت سے زیادہ مال آنے گا انتظار نہ کرو‘‘
مومنوں کیلئے حیات خوبصورت ہے اور حیات بعد ممات بھی متیقیوں کیلئے بڑی پیاری ہے یہی لوگ نیک بخت اور خوش نصیب ہیں‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ خوش بخت عورت وہی ہیں جو سلیقہ شعار ہو۔ اور یہ لمحہ شکر گذار رہیں ہو۔ عورت کو گھر کی مالکہ اور گھر کی دہلیز سے تعبیر کیا گیا ہے کہ اگر سلیقہ شعار ہو تو جھونپڑی کو بھی محل بنائے گی۔ لیکن اگر ایسے صفات سے خالی ہو تو پورے محل جسے گھر کو کباڑ خانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھے گئی اکثر گھروں میں ازواجی تعلقات میں جو مسائل ابھرتے ہیں وہ صرف غلط طریقہ کاری اور بدسلوکی یا غلط فہموں کی بدولت جنم لیتے ہیں اگر ان سارے وقتوں میں سلیقہ شعاری اور صبر تحمل کامظاہرہ کیا جائے اور حکمت سے الجھے مسائل چٹکیوں میں سلجھ سکتے ہیں اور بات کا بتنگڑ نہیں بنے گا۔ شرط ہیں کہ بنیادی گن اور فن ہمارے پاس ہیں لیکن ہم انہیں استعمال تو کرے۔
آؤ سوچیں لمحہ بھر کیلئے غور کریں اگر ہم اپنی معیار بدلتے وقت اور زمانے کے بدلتی ہواؤں کی نظر کریں تو اس میں ہمارا نقصان ہی ہیں۔ اگر ہم اپنے ضمیر کو شعور کو دل ودماغ کو غیر اللہ کے ہاتھوں میں سوپنیں گے تو ہماری کوئی شناخت نہیں رہے گی۔ ہماری پناہ گاہ تو صرف شریعت ہے۔ ہمارے اہل وعیال میں نہیں بلکہ ہماری زندگی اللہ کی عنایت میں بھلا اسکو ہم کیسے کیسے غیر کے ہاتھو دیں ہم کہتے ہی طوفان دیکھیں جو ایمان کو چھینے کی جدوجہد کرتے ہیں لیکن ہماری غیرت بھی زندہ جاوید ہے کہ ہمیں ہواؤں کا رک موڑنا آتا ہے ہم اپنے آپ کو اپنے شعور ضمیر کی حفاظت جانتی ہیں اسلئے اپنی شناخت کی پہلے سے ہیں فکر کریں لیکن اگر ہم کوخود ہی پہچانتے میں کامیاب ہوئے تو سمجھ لیجئے کہ سب کچھ ہماری مٹھی میں ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔