وسوسے اور ان کا علاج

جمشید عالم عبدالسلام سلفی

الحمد لله رب العالمین والصلوٰة والسلام علیٰ خیر خلقه محمد وعلیٰ آله وصحبه اجمعین امابعد :

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

قُلۡ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلنَّاسِ ١ مَلِكِ ٱلنَّاسِ ٢ إِلَٰهِ ٱلنَّاسِ ٣ مِن شَرِّ ٱلۡوَسۡوَاسِ ٱلۡخَنَّاسِ ٤ ٱلَّذِي يُوَسۡوِسُ فِي صُدُورِ ٱلنَّاسِ ٥ مِنَ ٱلۡجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ ٦ [سورۃ الناس]

ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجیے کہ میں پناہ میں آتا ہوں لوگوں کے رب کی، لوگوں کے مالک کی، اور لوگوں کے معبودِ (برحق) کی ، وسوسہ ڈالنے والے کی برائی سے جو (اللہ کا نام سن کر) پیچھے کھسک جانے والا ہے، جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، (خواہ) وہ (وسوسہ ڈالنے والا) جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔‘‘

اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کو اس کی تین مہتم بالشان صفات، ربوبیت، ملکیت اور معبودیت سے یاد کرکے وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس میں اللہ تعالیٰ عزوجل کی تین صفتیں بیان ہوئی ہیں، پالنے اور پرورش کرنے کی، مالک اور شہنشاہ ہونے کی، معبود اور لائق عبادت ہونے کی، تمام چیزیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اسی کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں مشغول ہیں، پس وہ حکم دیتا ہے کہ ان پاک اور برتر صفات والے اللہ کی پناہ میں آ جائے جو بھی پناہ اور بچاؤ کا طالب ہو، شیطان جو انسان پر مقرر ہے اس کے وسوسوں سے بچانے والا ہے، ہر انسان کے ساتھ یہ ہے۔ برائیوں اور بدکاریوں کو خوب زینت دار کر کے لوگوں کے سامنے وہ پیش کرتا رہتا ہے اور بہکانے میں، راہ راست سے ہٹادینے میں کوئی کمی نہیں کرتا، اس کے شر سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جسے اللہ بچا لے۔‘‘ [تفسیر ابن کثیر ۵/۶۶۳]

اس سورۂ مبارکہ میں بتایا گیا ہے کہ شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے اور پیچھے ہٹ جاتا ہے، یعنی بندۂ مومن جب اللہ سے غافل ہوتا ہے تو شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے اور جب اللہ کو یاد کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ رب العالمین نے فرمایا:

﴿وَمَن يَعۡشُ عَن ذِكۡرِ ٱلرَّحۡمَٰنِ نُقَيِّضۡ لَهُۥ شَيۡطَٰنٗا فَهُوَ لَهُۥ قَرِينٞ﴾

ترجمہ: ’’اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی ہوجاتا ہے۔‘‘ [الزخرف: ۳۶]

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:

’’الشیطانُ جاثمٌ علیٰ قلبِ ابنِ ادمَ، فَإذا سَهَا و غَفَلَ وَسْوَسَ وَإِذا ذَکر الله خنسَ‘‘ ترجمہ: ’’شیطان اولادِ آدم کے دل میں بیٹھ جاتا ہے، پس جب بندے سے بھول ہوئی اور غفلت میں پڑا تو شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے اور جب بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔‘‘ [جامع البیان ۱۵/۳۵۵، زبدۃ التفسیر، ص: ۶۰۴]

اسی طرح سورت کی آخری آیت سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ وسوسہ اندازی شیاطین الجن اور شیاطین نما انسانوں کی جانب سے بھی ہوتی ہے، اسی لیے دونوں کے شرور سے اس سورہ میں اللہ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔

وسواس اور خناس کی توضیح و وضاحت :

الوسواس: وسوسہ ڈالنے والا، دل میں برا خیال ڈالنے والا۔ یہ ’’وسوس‘‘ (باب فعللۃ) کا مصدر ہے اور اسم فاعل ’’الموسوس‘‘ کے معنیٰ میں مستعمل ہے یعنی وسوسہ انداز، دل میں برا خیال ڈالنے والا، اور بعض کے نزدیک ’’ذی الوسواس‘‘ کے معنیٰ میں ہے۔ وسوسہ کے لغوی معنیٰ محسوس نہ ہونے والی حرکت یا پوشیدہ آواز کے ہیں، جیسے زیور وغیرہ کی ہلکی جھنکار، اصطلاح شریعت میں شیطان کے انسان کو ورغلانے، بہکانے اور نیکی سے ہٹاکر بدی پر ابھارنے کا نام ہے۔ یعنی وسوسہ شیطان کی طرف سے انسان کے دل میں اللہ کی طرف سے اسے دی گئی قدرت کے تحت پیدا کردہ شر اور معصیت کا خیال و ارادہ ہےجو شیطان کی مسلسل جد و جہد کے باعث صرف ارادہ ہی نہیں رہتا قصدِ محکم اور عزیمتِ جازمہ بن جاتا ہے، اس لیے تمام معصیتوں اور گناہوں کی جڑ یہی وسوسہ ہے جس سے یہاں پناہ مانگی گئی ہے۔ [دیکھئے: القاموس الوحید مادہ وسوس، ص: ۱۸۵۱]

الخناس: چھپ جانے والا، پیچھے ہٹ جانے والا، سامنے آکر کھسک جانے والا۔ یہ خنَس (ن) سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنیٰ پیچھے ہٹنے، ظہور میں آکر چھپ جانے اور سکڑ جانے کے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ فَلَآ أُقۡسِمُ بِٱلۡخُنَّسِ ١٥ ٱلۡجَوَارِ ٱلۡكُنَّسِ ١٦﴾

ترجمہ: ’’میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے، چلنے والے، چھپ جانے والے ستاروں کی۔‘‘ [التکویر: ۱۵،١٦]

اس طرح خنَّاس کے معنیٰ ہوئے پیچھے ہٹ جانے والا، کھسک جانے والا اور یہ شیطان کی صفت ہے جو کہ ذکرِ الٰہی سے کھسک جاتا ہے اور اللہ کی یاد سے غفلت برتی جائے تو دلوں پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس کا یہ مفہوم بھی ہے کہ شیطان بار بار حملہ آور ہوتا ہے، ایک بار وسوسہ ڈال کر چھپ جاتا ہے اور پھر بہ تکرار وسوسہ اندازی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوجائے۔ مگر اللہ کا جو بندہ ذکر الٰہی کرتا ہے اور شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہے وہاں اس کی دال نہیں گلتی ہے۔ علامہ فیزوآبادی نے اس کے معنیٰ یہ بتلائے ہیں:

لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے نظروں سے بالکل دور رہنے والا اور جو بندۂ خدا اس کے فریب میں نہ آئے تو پیچھے بھاگنے والا، خنس میں چھپنے اور پیچھے ہونے کے معنیٰ سے مذکورہ مناسبت ہے۔ [القاموس الوحید ص:۴۷۹]

شیخ عبد الرحمان کیلانی رحمہ اللہ وسواس اور خنَّاس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’وسواس طبی نقطہ نگاہ سے یہ ایک مرض ہے جسے وہم بھی کہتے ہیں۔ یہ مرض غلبہ سودا کی وجہ سے ذہن کو ماؤف کر دیتا ہے اور انسان ایسی فضول باتیں کرنے لگتا ہے جو پہلے اس کے ذہن میں نہیں ہوتیں۔ دل میں آنے والی برائی اور بے نفع بات اور شرعی نقطہ نگاہ سے اس کا معنی شیطان کا کسی برے کام کی طرف راغب کرنا اور برے خیال دل میں ڈالتے رہنا اور اس کی نسبت صرف شیطان کی طرف ہوتی ہے۔ جس کی ایک صفت خناس ہے اور خناس شیطان ہی کا صفاتی نام ہے۔ خناس بمعنی ظاہر ہو کر چھپ جانے والا یا سامنے آکر پھر پیچھے ہٹ جانے والا۔ شیطان کا یہ عمل صرف ایک بار ہی نہیں ہوتا بلکہ بار بار ہوتا ہے۔ وسوس کے لفظ میں تکرار لفظی ہے جو تکرار معنوی پر بھی دلالت کرتا ہے۔ شیطان ایک بار وسوسہ ڈال کر چھپ جاتا ہے۔ پھر دوبارہ حملہ آور ہوتا ہے پھر چھپ جاتا ہے تاآنکہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو جاتا ہے۔‘‘ (تیسیر القرآن۴/۷۱۷)

اللہ تعالیٰ نے ﴿يُوَسۡوِسُ فِي صُدُورِ ٱلنَّاسِ﴾ فرمایا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کی رسائی انسان کے دل تک نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ دل سے دور رہ کر دلوں میں وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’يوسوس في قلوب الناس، کے بجائے ’’يُوَسۡوِسُ فِي صُدُورِ ٱلنَّاسِ‘‘ (لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے) کہنے میں یہ نکتہ ہے کہ شیطان کی رسائی اصل دل تک نہیں ہو سکتی بلکہ وہ صرف انسان کے سینے میں جو قلب کے لیے بمنزلہ دہلیز کے ہے داخل ہو کر وسوسہ ڈالنے اور انسان کے ارادہ میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے میں کوشش کرتا ہے۔ یہ معلوم کرکے مومن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ اس کے شر کو دفع کرنے پر دلیر ہوتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے قصے میں ارشاد ہوا ہے : ’’فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ‘‘ ترجمہ : ’’شیطان نے اس کی طرف وسوسہ ڈالا۔‘‘ (طہ: ١٢٠) إلى کے استعمال کرنے میں بھی یہی نکتہ ہے کہ شیطان نے اپنا وسوسہ کسی قدر دور سے اس کے دل میں ڈالا ۔‘‘ (تفسیر معوذتین ص: ١٨٧)

﴿يُوَسۡوِسُ فِي صُدُورِ ٱلنَّاسِ﴾ میں الناس سے مراد انسان ہیں بعض لوگوں نے اس سے انسان کے ساتھ ساتھ جنوں کو بھی مراد لیا ہے کہ شیطان، انسان اور جنوں دونوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، اور ان لوگوں نے قرآن کریم کی اُس آیت کریمہ سے دلیل پکڑی ہے جس میں جنوں کے لیے ’’رجال‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، حالاں کہ ’’الناس‘‘ سے صرف  انسانوں ہی کو مراد لینا صحیح اور درست ہے۔

وسوسہ اندازی کن کی طرف سے ہوتی ہے :

فرمانِ الٰہی : ﴿مِنَ ٱلۡجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ﴾ کا  مفہوم یہ ہے کہ وسوسہ ڈالنے والا خواہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے ہو یعنی جس طرح شیاطین الجن کی طرف سے وسوسہ ڈالا جاتا ہے اسی طرح انسانوں کی طرف سے بھی وسوسہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلۡنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوّٗا شَيَٰطِينَ ٱلۡإِنسِ وَٱلۡجِنِّ يُوحِي بَعۡضُهُمۡ إِلَىٰ بَعۡضٖ زُخۡرُفَ ٱلۡقَوۡلِ غُرُورٗاۚ وَلَوۡ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُۖ فَذَرۡهُمۡ وَمَا يَفۡتَرُونَ﴾ [الانعام: ۱۱۲]

ترجمہ: ’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو  ان کا دشمن بنایا ہے، وہ ایک دوسرے کو دھوکا دینے کے لیے ملمع کی ہوئی باتیں ڈالتے ہیں، اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ یہ کام نہ کرتے، پس آپ انھیں اور جو کچھ وہ افتراء پردازی کرتے ہیں چھوڑیے۔‘‘

اور سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا:

’’يَا أَبَا ذَرٍّ! تَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ. قُلْتُ: أَوَلِلْإِنْسِ شَيَاطِينُ؟ قَالَ: ’’نَعَم‘‘ ترجمہ: ’’اے ابو ذر! انسانوں اور شیطانوں کے جنوں سے اللہ کی پناہ مانگو‘‘۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ [نسائی کتاب الاستعاذۃ باب الاستعاذۃ من شر شیاطین الانس رقم الحدیث: ۵۵۰۷، مسند احمد رقم الحدیث: ۲۱۵۴۶، ۲۱۵۵۲، شیخ البانی کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے مگر بعض دیگر محققین کے نزدیک ضعیف ہے]

نیز آیتِ کریمہ کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جن کے سینوں میں شیطان وسوسہ ڈالتا ہے وہ جن بھی ہیں اور انسان بھی ہیں یعنی جنوں اور انسانوں کے دلوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’﴿مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ﴾ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن کے سینوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے وہ جن بھی ہیں اور انسان بھی، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ وسواس ڈالنے والا خواہ کوئی جن ہو خواہ کوئی انسان‘‘۔ [تفسیر ابن کثیر ۵/۶۶۴]

حالاں کہ پہلا مفہوم ہی  صحیح ہے یعنی وسوسہ ڈالنے والے جنات اور انسان دونوں میں سے ہوتے ہیں۔ اور خود انسان کا اپنا نفس بھی وسوسہ اندازی کرتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَنَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِهِۦ نَفۡسُهُۥ﴾ ’’اور ہم انسان کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں کو بھی جانتے ہیں۔‘‘ [قٓ: ۱۶]، اسی لیے رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے وسوسۂ نفس سے استعاذہ کی تعلیم دی ہے چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے مشہور خطبۂ مسنونہ میں یہ الفاظ فرمایا کرتے تھے : ’’وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا‘‘ ’’اور ہم اپنے نفوس کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔‘‘ [ابوداؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ]  اور صبح و شام پڑھی جانے والی دعا میں ان الفاظ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے: ’’…… أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏وَشَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ‘‘ ’’میں تجھ سے اپنے نفس کے شر سے، شیطان کے شر سے اور اس کے شرک سے پناہ مانگتا ہوں‘‘ [ابوداؤد اول کتاب الادب ابواب النوم باب مایقول إذا صبح، رقم: ۵۰۶۷، ترمذی ابواب الدعوات عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باب منہ، رقم: ۳۳۹۲، دارمی کتاب الاستئذان باب مایقول إذا اصبح، رقم: ۲۷۳۱، مسند احمد رقم: ۵۱، الصحیحۃ رقم: ۲۷۵۳، الکلم الطیب مع تحقیق الالبانی ص: ۷۱ رقم: ۲۲] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس سلسلے میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے بطور خلاصہ لکھتے ہیں:

’’خلاصۂ کلام یہ کہ انسان کے سینے میں وسوسہ ڈالنے والی تین چیزیں ہیں: اوّل خود اپنا نفس، دوم: شیاطین الجن، سوم: شیاطین الانس۔

آیت ﴿مِن شَرِّ ٱلۡوَسۡوَاسِ ٱلۡخَنَّاسِ﴾ میں جو ’’وَسۡوَاسِ ٱلۡخَنَّاسِ‘‘ کا لفظ ہے، یہ نہ صرف جن کے وسوسہ کو شامل ہے، بلکہ انسانی وسوسہ کی دونوں قسموں یعنی اپنے دل کے خیالات اور دوسرے لوگوں کے ڈالے ہوئے وسوسہ کو بھی شامل ہے، ورنہ محض جن کے وسوسہ سے پناہ مانگنے کے کیا معنیٰ؟ اپنے دل کا اور شیاطین الانس کا وسوسہ ہر کسی کے حق میں ایک جیسے نقصان دہ ہیں، بلکہ اندرونی وسوسہ کبھی جن کے وسوسہ سے بڑھ کر مضرت رساں ثابت ہوتا ہے‘‘۔ [تفسیر معوذتین، ص: ۲۳]

وسوسہ اور الہام میں فرق :

دلوں میں پیدا ہونے والے برے خیالات  و احساسات کو ’’وسوسہ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ کبھی ازخود دلوں میں ابھرتا ہے، کبھی شیطان وسوسہ انداز ہوتا ہے اور کبھی انسان انسانوں ہی کے دامِ تزویر میں گرفتار ہو جاتا ہے جس سے اس کے اندر برے  خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ دلوں میں ابھرنے والے خیالات اگر نیک ہوں، اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کی طرف ابھارنے والے ہوں تو اسے وسوسہ کے بجائے ’’الہام‘‘ کہا جاتا ہے، جو اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ انسانی دل میں نیکی کے خیالات کو ابھارتا رہتا ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

’’إِنَّ لِلشَّيْطَانِ لَمَّةً بِابْنِ آدَمَ، وَلِلْمَلَكِ لَمَّةً ؛ فَأَمَّا لَمَّةُ الشَّيْطَانِ فَإِيعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَكْذِيبٌ بِالْحَقِّ، وَأَمَّا لَمَّةُ الْمَلَكِ فَإِيعَادٌ بِالْخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالْحَقِّ، فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَعْلَمْ أَنَّهُ مِنَ اللَّهِ فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ، وَمَنْ وَجَدَ الْأُخْرَى فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ‘‘ ثُمَّ قَرَأَ: ﴿الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ﴾‘‘

ترجمہ : ’’ابن آدم پر شیطان کا اثر (وسوسہ) ہوتا ہے اور فرشتے کا بھی اثر (الہام) ہوتا ہے۔ شیطان کا اثر یہ ہے کہ انسان سے برائی کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کو جھٹلاتا ہے۔ اور فرشتے کا اثر یہ ہے کہ وہ خیر کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کی تصدیق کرتا ہے، تو جو شخص یہ پائے وہ جان لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور وہ اس پر اللہ کا حمد و شکر ادا کرے۔ اور جو شخص دوسرا یعنی شیطان کا اثر پائے تو چاہیے کہ وہ شیطانِ رجیم سے اللہ کی پناہ حاصل کرے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت: (آیت کا ترجمہ : ’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تم لوگوں کو بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔‘‘ [البقرۃ : ۲۶۸]) تلاوت فرمائی۔‘‘ [ترمذي ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باب و من سورۃ البقرۃ، رقم: ۲۹۸۸،شیخ زبیر علی زئی نے اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے (انوار الصحیفہ ص:۲۷۶)، جبکہ شیخ البانی نے پہلے اسے ضعیف قرار دیا تھا اور پھر اسے صحیح قرار دیا۔ دیکھیے: تراجع العلامہ الالبانی ص:۲/۳۹۶رقم: ۶۰۴]

درحقیقت نیکی اور بدی کا آغاز اسی دل سے ہوتا ہے، یعنی کسی بھی کام کے کرنے سے پہلے اس کا خیال دل میں آتا ہے۔ اگر وہ خیال برائی و بدی کا ہے تو سمجھئے کہ یہ وسوسہ ہے، گویا وسوسہ ہی ہر برائی کی جڑ ہے یہیں سے برائیوں کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے، اسی لیے سورۂ ناس میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات کے ساتھ وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے استعاذہ کی تعلیم دی گئی ہے تاکہ جڑ ہی سے برائی کا قلع قمع کر دیا جائے۔ اور اگر وہ خیال کتاب و سنت کی رو سے کسی نیک داعیہ پر مبنی ہو تو سمجھیے کہ یہ الہام ہے۔

انسان کے ساتھ شیطان کی وسوسہ اندازی :

اسی لیے ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان اور ایک فرشتہ مقرر کیا گیا ہے۔ شیطان انسان کو برائی اور اللہ کی نافرمانی کی طرف بلاتا ہے اور اس کے دل میں برے خیالات ڈالتا ہے، جبکہ فرشتہ انسان کو نیکی کی طرف بلاتا ہے، بھلائیوں کی ترغیب دیتا ہے، برائیوں سے روکتا ہے۔ آدمی کی قوتِ ایمانی ہی الہام اور شیطانی وسوسے کے درمیان تفریق کر سکتی ہے، اگر آدمی کے اندر ایمانی کمی ہے تو شیطانی وسوسہ بھی اسے الہام ہی معلوم ہوگا۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

’’مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ وَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ.‘‘ قَالُوا: وَإِيَّاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ’’وَإِيَّايَ، إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمُ، فَلَا يَأْمُرُنِي إِلَّا بِخَيْرٍ‘‘

ترجمہ : ’’تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک قرین (ساتھی) جنوں میں سے اور ایک قرین فرشتوں میں سے مامور کیا گیا ہے۔‘‘ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم نے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! آپ کے ساتھ بھی؟ آپ نے فرمایا : ہاں، میرے ساتھ بھی لیکن اللہ نے اس کے خلاف میری مدد کی ہےلہٰذا میں اس سے سلامتی میں رہتا ہوں اور وہ مجھے خیر و بھلائی ہی کا حکم دیتا ہے۔‘‘ [مسلم کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار باب تحریش الشیطان و بعثہ سرایاہ لفتنۃ الناس، رقم : ۲۸۱۴، دارمی کتاب الرقاق باب مامنکم احد الا ومعہ قرینہ من الجن، رقم: ۲۷۷۶، مسند احمد رقم: ۳۸۰۲]

حدیث میں وارد لفظ ’’فَأَسْلَمُ‘‘ کو ’’فَأَسْلَمَ‘‘ بھی پڑھا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ کی مدد سے آپ کے ساتھ کا قرین مسلمان ہوگیا ہے اس لیے وہ آپ کو صرف بھلائی کا حکم دیتا ہے۔ دونوں طرح سے پڑھنا درست ہے۔

وسوسہ ڈالنے والوں کا شر

وسوسہ ڈالنے والے شیاطینِ انس و جن کے شر کی مختلف نوعتیں ہوتی ہیں، ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اللہ کے نیک و صالح بندوں کو راہِ حق سے بھٹکا دیں اور وہ ہمیشہ اپنی اس تگ و دو میں کوشاں رہتے ہیں۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ نے شیطانی شر کی کئی بڑی صورتی بیان کی ہیں، جس کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:

سب سے پہلے تو وہ آدمی کو صریح کفر و شرک اور اللہ اور اس کے رسول کی بغاوت اور دشمنی پر آمادہ کرتے ہیں، اگر اس میں ناکام ہوں اور آدمی اس پر قائم رہے تو وہ اسے دوسرے شر یعنی بدعت میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدعت میں مبتلا کرنا انھیں آدمی کو بڑے سے بڑے گناہ میں مبتلا کرنے سے بھی زیادہ پسند ہے، کیونکہ یہ ایسا گناہ ہے جسے آدمی نیکی سمجھ کر کرتا ہے۔ اگر وہ سنت پر قائم رہے تو اسے کسی نہ کسی کبیرہ گناہ سے آلودہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خصوصاً اگر وہ دینی عالم ہو، تاکہ بدنام ہوکر دین کا کام نہ کرسکے۔ اگر اس میں بھی کامیاب نہ ہوں تو چھوٹے گناہوں کی رغبت دلاتے ہیں، تاکہ وہ انھیں معمولی سمجھ کر ان کے بوجھ تلے دب جائے۔ یہ بھی نہ کرسکیں تو نیکی کے کاموں سے ہٹاکر ان کاموں میں لگانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں نہ ثواب ہے نہ عذاب اور اس طرح اس کی عمر برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر وہ اپنے کو بے کار کاموں میں لگانے پر کسی صورت آمادہ نہ ہو تو نیکی کے بڑے کام سے ہٹاکر چھوٹے کام میں لگانے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً دعوت و جہاد سے ہٹاکر نفلی نماز روزے میں لگا دیتے ہیں۔ یہ بھی نہ ہو سکے تو دل میں ریا یا اپنے عمل پر غرور پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر وہ کسی صورت ان کے قابو میں نہ آئے تو شیطان اور اس کے وہ چیلے بے شمار طریقوں سے اسے بدنام کرنے اور تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ نہ ہو سکے تو اسے غصہ دلاکر فہم و شعور سے بیگانہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس وقت بھی اگر وہ اللہ کی پناہ میں چلا جائے تو ان کی تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ [تفسیر القرآن الکریم جلد چہارم ص: ۱۰۳۱]

بدگمانی سے بچیں اور بچائیں :

شیطان انسان کے رگ و پے میں دوڑتا ہے اور وہ ہر طرح سے اسے شرور و فِتن اور وسوسوں میں مبتلا کرنے کی کوشش و تاک میں لگا رہتا ہے۔ انسان کا اپنا ایمان و عقیدہ جس قدر مضبوط و پختہ ہوگا وہ اُتنا ہی شیطان سے محفوظ رہے گا۔اسی طرح ہر کسی مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود ہی اپنے متعلق پیدا ہونے والی غلط فہمی کو لوگوں سے دور کردے تاکہ کوئی مسلمان وسوسے، بدگمانی اور غلط فہمی میں نہ مبتلا ہو۔ اس سلسلے میں ام المومنین سیدتنا صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں :

’’كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا، فَحَدَّثْتُهُ، ثُمَّ قُمْتُ فَانْقَلَبْتُ ، فَقَامَ مَعِي لِيَقْلِبَنِي – وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ – فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’عَلَى رِسْلِكُمَا ، إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ‘‘ فَقَالَا: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: ’’إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا سُوءًا‘‘، أَوْ قَالَ: ’’شَيْئًا‘‘

ترجمہ : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے تو میں ایک رات آپ کی  زیارت کے لیے آئی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کیں، پھر جب واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھے چھوڑ آنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ـ ام المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا مسکن اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے مکان میں تھا ـ  راستے میں دو انصاریوں کا گزر ہوا جب ان دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کو دیکھا تو جلدی جلدی چلنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’ذرا ٹھہر جاؤ جلدی نہ کرو، یہ صفیہ بنت حیی ہیں‘‘ دونوں نے عرض کیا : سبحان اللہ! یا رسول اللہ! (یعنی ہم بھلا آپ کے بارے میں کوئی شبہ کر سکتے ہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شیطان انسان (کے بدن) میں خون کے دوڑنے کی طرح گردش کرتا ہے، اس لیے مجھے ڈر لگا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں بھی کوئی برا خیال نہ ڈال دے۔‘‘ (یا آپ نے ’’سُوءًا‘‘ کے بجائے ’’شَيْئًا‘‘ فرمایا۔ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) [بخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنودہٖ، رقم : ۳۲۸۱، مسلم کتاب السلام باب استحباب القول ھٰذہٖ فلانۃ لیدفع ظن السوء بہٖ، رقم : ۲۱۷۵]

معلوم ہوا کہ وسوسہ ایک شیطانی حربہ ہے، جسے شیطان بندگانِ خدا کو راہِ حق سے بھٹکانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جب شیطان اللہ کے کسی بندے کو بہکانے اور گمراہ کرنے سے عاجز آجاتا ہے تو وہ وسوسہ اندازی کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی نے اسے یہ قدرت دے رکھی ہے ۔ چناں چہ شیطان شکوک و شبہات میں مبتلا متردد و بے اعتماد اور ضعیف العقیدہ شخص کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرکے انھیں گمراہ کرتا ہے اور جو لوگ اپنے رب پر ایمان رکھتے ہوئے اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہیں ان پر شیطان کا یہ زور نہیں چلتا ہے بلکہ شیطان کا زور و تسلط انھیں لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا ولی و سرپرست اور دوست بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿إِنَّهُۥ لَيۡسَ لَهُۥ سُلۡطَٰنٌ عَلَى ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَلَىٰ رَبِّهِمۡ يَتَوَكَّلُونَ إِنَّمَا سُلۡطَٰنُهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ يَتَوَلَّوۡنَهُۥ وَٱلَّذِينَ هُم بِهِۦ مُشۡرِكُونَ﴾ [النحل : ۹۹ـ۱۰۰]

ترجمہ : ’’بے شک اس (یعنی شیطان) کا زور ان لوگوں پر نہیں چلتا  جو ایمان لائے ہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔  اس کا زور تو صرف انھیں لوگوں پر چلتا ہے جو لوگ اسے اپنا سرپرست بناتے ہیں  اور ایسے ہی لوگ اسے اللہ کا شریک بناتے ہیں۔‘‘

قابلِ معافی وسوسہ :

کبھی کبھی بلا ارادہ و اختیار شیطان کی طرف سے یا خود اپنے نفس کی طرف سے از خود دل میں وسوسہ پیدا ہوتا ہے، انسان اس پر بے قابو ہوتا ہے اور اس کا ارادہ و اختیار اس میں شامل نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح کا وسوسہ شریعتِ اسلامیہ کے علاوہ تمام شریعتوں میں قابلِ معافی ہے اور دل میں پیدا ہونے والے اس طرح کے وسوسے قابل مواخذہ نہیں ہیں بشرطیکہ آدمی اسے عملی جامہ نہ پہنائے کیوں کہ انسان اس طرح کے وسوسوں کو دل میں آنے سے روک نہیں سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفۡسًا إِلَّا وُسۡعَهَاۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَعَلَيۡهَا مَا ٱكۡتَسَبَتۡۗ﴾       [البقرۃ : ۲۸۶]

ترجمہ : ’’اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا، جو نیکی وہ کرے گا وہ اسی کے لیے ہے اور جو برائی وہ کرے گا اس کا وبال اسی پر ہے۔‘‘

وسوسے کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جو خود کی اپج ہوتی ہے، انسان اپنے ذاتی ارادے کے تحت دل میں برائی کا تصور پیدا کرتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اس کا خیالی پلاؤ بناتا ہے۔ اس طرح کا وسوسہ بھی شریعتِ محمدیہ میں اس وقت تک قابلِ معافی ہے جب تک کہ وہ عملی صورت نہ اختیار کرلے، خواہ زبان کے ذریعہ یا جسم کے کسی اور عضو کے ذریعہ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَكَلَّمْ‘‘

ترجمہ : ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کے سینوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جب تک وہ ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر نہ لے آئیں۔‘‘ [بخاری کتاب العتق باب الخطأ والنسیان فی العتاقۃ، رقم: ۲۵۲۸  واللفظ لہ، مسلم کتاب الایمان باب حدیث النفس والخواطر بالقلب، رقم: ۱۲۷]

قابل مواخذہ وسوسہ :

دلوں میں پیدا ہونے والے ایسے وسوسے جن کا تعلق اعمالِ جوارح وغیرہ سے ہو مثلاً زنا چوری وغیرہ، اگر وہ عزمِ مصمم و پختہ ارادے میں تبدیل ہو جائیں مگر انسان انھیں عملی جامہ نہ پہنائے اور اپنی زبان پر بھی نہ لائے تو کچھ اہل علم کے نزدیک وہ بھی قابلِ معافی ہے اور اس پر کوئی مواخذہ و گرفت نہیں ہوگا، ان کی دلیل سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وسوسہ اس وقت تک ناقابلِ مواخذہ ہے جب تک کہ اسے عملی شکل نہ دی جائےگرچہ وہ عزم مصمم اور پختہ ارادہ میں داخل ہو جائے۔ جبکہ جمہور و بیشتر اہلِ علم کے نزدیک اس طرح کے وسوسہ پر اگر عزمِ مصمم کر لیا جائے تو وہ قابلِ گرفت ہے۔ علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ وغیرہ نے اسی موقف کو راجح قرار دیا ہے۔ [مرعاۃ المفاتیح ۱/۱۴۲] اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے لی گئی ہے:

﴿وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ﴾ ترجمہ: ’’لیکن وہ (اللہ) تمہاری گرفت کرے گا اس چیز پر جو کچھ تمہارے دلوں نے کیا ہے‘‘ [البقرۃ: ۲۲۵] یعنی جو کچھ تم نے سچے دل کے ساتھ کیا ہے اللہ تعالیٰ اس پر تمہارا مواخذہ کرے گا۔ نیز سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ بالا حدیثِ نبوی کے متعلق یہ بات کہی گئی ہے کہ اس میں مذکور قابلِ معافی وسوسہ کو ان وسوسوں پر محمول کیا جائے جو دلوں میں آئیں اور چلے جائیں، لیکن اگر وہ دل میں گھر کر جائیں اور آدمی انھیں دل سے جھٹکنے اور ان سے باز آنے کے بجائے انھیں انجام دینے پر عزم بالجزم کر لے تو یہ قابلِ گرفت ہے۔

اردۂ بد سے رکنے پر بھی نیکی :

اسی طرح برے وسوسوں پر عزمِ مصمم و پختہ ارادہ کر لینے کے بعد اگر انھیں اللہ تعالیٰ کے خوف و ڈر کی وجہ سے ترک کردیا جائے اور عمل میں نہ لایا جائے تو اس پر نیکی بھی ملے گی۔ إن شاء الله۔ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک حدیث قدسی میں فرماتے ہیں:

’’إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ بَيَّنَ ذَلِكَ فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، ‏‏‏‏‏‏كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، ‏‏‏‏‏‏كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً‘‘

ترجمہ : ’’بے شک اللہ نے نیکیوں اور برائیوں کو لکھ دیا ہے، پھر انھیں واضح طور پر بیان کر دیا ہے،پس جس کسی نے نیکی کا رادہ کیا لیکن اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ نے اسے اس کے لیے اپنے پاس ایک پوری نیکی لکھ دی۔ اور اگر نیکی کا اردہ کیا اور اس پر عمل بھی کر لیا تو اللہ نے اس کے لیے اسے اپنے یہاں دس گنا سے سات سو گنا تک یا اس سے زیادہ گنا تک نیکیاں لکھ لیا۔ اور جس کسی نے کسی برائی کا اردہ کیا اور اس کا ارتکاب نہیں کیا تو اللہ نے اس کے لیے اسے ایک پوری نیکی لکھ دی، اور اگر اس نے برائی کا اردہ کیا اور اس پر عمل بھی کر لیا تو اللہ نے اسے اس کے لیے ایک برائی لکھ دی۔‘‘ [بخاری کتاب الرقاق باب من ھم بحسنۃ او بسیئۃ، رقم: ۶۴۹۱، مسلم کتاب الایمان باب اذا ھم العبد بحسنۃ، رقم: ۱۳۱]

اعمالِ قلوب سے متعلق وسوسہ کا حکم :

لیکن اگر وسوسے کا تعلق اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی نبوت وغیرہ کے بارے میں شک و شبہ سے ہے اور انسان اسے اپنے دل میں بٹھاکر اس کا پختہ عزم و ارادہ بھی کرلے اور اس سے باز نہ آئے تو یہ کفر میں داخل ہے اور قابلِ گرفت جرم ہے کیوں کہ ان امور کا تعلق اعمالِ قلب سے ہے۔ اور اگر اس عزم بالجزم وسوسے کا تعلق ان اعمالِ قلوب سے ہے جو کفر کا باعث نہیں ہیں مثلاً کبر و گھمنڈ، ریا و نمود اور فخر و مباہات وغیرہ تو یہ کفر میں تو نہیں داخل ہے مگر معصیت کے درجہ میں ضرور ہے اور ایسا شخص گناہ گار ہوگا۔ کیوں کہ ان اعمال کا تعلق قلوب سے ہے اور اس کا عزم و پختہ ارادہ کر لینے کی وجہ سے وہ عملی صورت اختیار کر گئی۔

سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ آیت نازل ہوئی:

﴿لِلَّهِ مَا فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِي ٱلۡأَرۡضِۗ وَإِن تُبۡدُواْ مَا فِيٓ أَنفُسِكُمۡ أَوۡ تُخۡفُوهُ يُحَاسِبۡكُم بِهِ ٱللَّهُۖ فَيَغۡفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيۡءٖ قَدِيرٌ ٢٨٤﴾ [البقرۃ: ۲۸۴]

ترجمہ: ’’اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ اللہ اس پر تمہارا محاسبہ کرے گا، پھر جسے چاہے بخش دے گا اور جسے چاہے عذاب دے گا، اور اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔‘‘

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب پر یہ بہت گراں گزری، اس لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! ہمیں ایسے اعمال کا مکلف بنایا گیا تھا جو ہماری طاقت میں ہیں: نماز، روزہ، جہاد اور صدقہ، اور آپ پر یہ آیت اتاری گئی ہے جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا تم اسی طرح کی بات کہنا چاہتے ہو جس طرح تم سے پہلے دونوں اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) نے کہی تھی کہ: ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی؟ بلکہ تم لوگ کہو:

’’سَمِعْنَا، وَأَطَعْنَا، غُفْرَانَكَ رَبَّنَا، وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ‘‘ ’’ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، اے ہمارے رب! تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔‘‘

صحابہ کرام نے کہا: ’’ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، اے ہمارے رب! تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔‘‘

جب لوگوں نے اس بات کا اقرار کرلیا اور ان کی زبانیں اس کے تابع ہو گئیں تو اس کے بعد اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:

﴿ءَامَنَ ٱلرَّسُولُ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيۡهِ مِن رَّبِّهِۦ وَٱلۡمُؤۡمِنُونَۚ كُلٌّ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَمَلَٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ لَا نُفَرِّقُ بَيۡنَ أَحَدٖ مِّن رُّسُلِهِۦۚ وَقَالُواْ سَمِعۡنَا وَأَطَعۡنَاۖ غُفۡرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيۡكَ ٱلۡمَصِيرُ ٢٨٥﴾ [البقرۃ: ۲۸۵]

ترجمہ: ’’رسول اس پر ایمان لایا جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل کی گئی، اور مومنین بھی ایمان لائے، یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں:) ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کو دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔ اور ان لوگوں نے کہا: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، اے ہمارے رب! تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔‘‘

جب صحابہ کرام نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے اُس کو منسوخ کر دیا اور یہ آیت نازل فرمائی:

﴿لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفۡسًا إِلَّا وُسۡعَهَاۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَعَلَيۡهَا مَا ٱكۡتَسَبَتۡۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَآ إِن نَّسِينَآ أَوۡ أَخۡطَأۡنَاۚ﴾، قَالَ: نَعَمْ. ﴿رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَيۡنَآ إِصۡرٗا كَمَا حَمَلۡتَهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِنَاۚ﴾، قَالَ: نَعَمْ. ﴿رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِۦۖ﴾، قَالَ: نَعَمْ. ﴿وَٱعۡفُ عَنَّا وَٱغۡفِرۡ لَنَا وَٱرۡحَمۡنَآۚ أَنتَ مَوۡلَىٰنَا فَٱنصُرۡنَا عَلَى ٱلۡقَوۡمِ ٱلۡكَٰفِرِينَ﴾ [البقرۃ: ۲۸۶]، قَالَ: نَعَمْ.

ترجمہ: ’’اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا، جو نیکی وہ کرے گا وہ اسی کے لیے ہے اور جو برائی وہ کرے گا اس کا وبال اسی پر ہے۔ اے ہمارے رب! ہم سے جو بھول یا خطا ہو گئی ہو اس پر ہمارا مواخذہ نہ کرنا۔‘‘ (اللہ نے فرمایا: ہاں) ’’اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بھاری بوجھ نہ ڈالنا جیسا بوجھ تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔‘‘ (اللہ نے فرمایا: ہاں) ’’اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمارے اندر سکت نہیں۔‘‘ (اللہ نے فرمایا: ہاں) ’’ہم سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا مالک ہے، سو کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔‘‘ (اللہ نے فرمایا: ہاں)۔ [صحيح مسلم كتاب الإيمان باب بيان تكليف ما يطاق، رقم: ۱۲۵، مسند احمد رقم: ۹۳۴۴]

اوپر سورۂ بقرہ کی آیتِ کریمہ میں جو یہ بات کہی گئی ہے کہ دلی اعمال پر محاسبہ کیا جائے گا تو اس سے اختیاری وسوسے مراد ہیں یعنی دل کے وہ اعمال و خیالاتِ فاسدہ مراد ہیں جنہیں انسان دل میں اپنے ارادہ و اختیار سے جگہ دیتا ہو اور جن کا وہ پختہ ارادہ کر لے مثلاً ایمان، کفر، کسی نیکی یا بدی کا عزم اور پختہ ارادہ، مثلاً ایک شخص دل میں کفر رکھتا ہے، یا چوری اور زنا کا عزم رکھتا ہے، مگر اسے کفر کے اظہار کا یا چوری و زنا پر عمل کا موقع نہیں ملتا تو اس پر محاسبہ ضرور ہوگا۔ اور جو خیالات و وسوسے انسان کی طاقت و اختیار سے باہر ہیں اور خود بخود آتے جاتے رہتے ہیں اگر آدمی ان کو اپنے دل میں جگہ نہ دے تو ان پر محاسبہ نہیں ہوگا، جیسا کہ اوپر مذکور سورۂ بقرہ ہی کی آخری آیتِ کریمہ سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے، لہٰذا آیتِ کریمہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ انسان اپنے اختیار سے یعنی جان بوجھ کر غلط عقائد اپنے دل میں باندھ رکھے یا معاصی و ذنوب کا پختہ ارادہ کرلے تو ان وساوسِ قلبیہ پر اس کا محاسبہ ہوگا۔ نیز اوپر کی روایت میں منسوخ کی جو بات کہی گئی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ پہلی آیت میں جو ابہام تھا دوسری آیتِ کریمہ میں اس کی وضاحت فرما دی گئی۔ جیسا کہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نسخ کا لفظ وضاحت کے معنیٰ میں بھی استعمال کرتے ہیں۔‘‘ [دیکھئے: تفسیر القرآن الکریم جلد اول ص: ۲۳۵]

وسوسے سے نفرت ایمان کی نشانی :

مومن کے دلوں میں وسوسوں کا آنا کوئی معیوب بات نہیں ہےبس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی سنگینی کو سمجھا جائے اور اسے زبان پر بھی لانے کو بڑا گناہ سمجھا جائےکیوں کہ شیطان انھیں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے جن پر اس کا زور نہیں چلتا ہےوگرنہ وہ تو کافروں اور گناہوں میں ڈوبے لوگوں کو جس طرح چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ چناں چہ دلوں میں پیدا ہونے والے برے وسوسوں سے نفرت کرتے ہوئے اس سے باز آجانا اور اسے عمل میں نہ لانا خالص ایمان کی نشانی ہے، اور یہی ایک مومن سے مطلوب بھی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں تشریف لائے اور عرض کیا :

’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَحَدَنَا يَجِدُ فِي نَفْسِهِ – يُعَرِّضُ بِالشَّيْءِ – لَأَنْ يَكُونَ حُمَمَةً أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ. فَقَالَ: ’’اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَدَّ كَيْدَهُ إِلَى الْوَسْوَسَةِ‘‘

ترجمہ : ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! ہم میں سے کسی کے دل میں ایسا وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اسے زبان پر لانے کے بجائے جل کر کوئلہ بن جانا پسند کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا : اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، ہر طرح کی حمد و ثنا اللہ کے لیے ہے جس نے شیطان کے مکر کو وسوسے کی طرف پھیر دیا۔‘‘ [ابو داؤد کتاب الادب باب فی رد الوسوسۃ، رقم : ۵۱۱۲ واللفظ لہ، مسند احمد رقم : ۲۰۹۷، حدیث صحیح ہے۔]

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا :

’’إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ. قَالَ: ’’وَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ ؟‘‘ قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: ’’ذَاكَ صَرِيحُ الْإِيمَانِ‘‘ ترجمہ : ’’ہم اپنے دلوں میں ایسی چیزیں پاتے ہیں جسے ہم میں سے کوئی بھی اپنی زبان پر لانا سنگین سمجھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا : ’’کیا تم لوگوں نے حقیقت میں ایسا ہی محسوس کیا ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا : ہاں۔ آپ نے فرمایا : ’’یہ صریح ایمان ہے۔‘‘ [مسلم کتاب الایمان باب بیان الوسوسۃ فی الایمان، رقم: ۱۳۲]

یعنی دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں پر یقین و اعتماد رکھنے کے بجائے اسے  زبان پر لانے کو ہی بہت بڑا سنگین جرم سمجھنا اور اس کی ہلاکت و سنگینی سے خوف کھانا صریح ایمان کی دلیل و نشانی ہے۔ کیوں کہ اس طرح کا تصور ایسے ہی شخص سے ہوگا جس کا ایمان و عقیدہ مکمل و مستحکم ہوگااور شکوک و شبہات اس سے ورے ہوں گے۔

اللہ کے بارے میں وسوسہ :

انسان کے سینوں میں وسوسے کا پنپنا اور اس کا دل میں جم جانا ایک بہت بڑی آفت و مصیبت ہے۔ اگر انسان اس پر بند نہ لگائے اور مسلسل تفکرات و خیالات ہی میں ڈوبا رہے تو یہ ایک بڑی بیماری کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔اس سے انسان خود اپنی ذات اور اہل و عیال سے متعلق مختلف واہموں کا شکار ہوجاتا ہے، بیماریوں کی دہشت سے خوف زدہ رہتا ہے اور بیماریوں سے متعلق توہم پرستی میں مبتلا رہتا ہے، کبھی اسے خود اپنی بیوی کی پاک دامنی سے خوف دامن گیر ہوتی ہے۔ طہارت و نماز سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ عقیدہ سے متعلق وسوسہ میں مبتلا ہوجاتا ہے، ذہن میں مختلف طرح کے سوالات ابھرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کو کس نے پیدا کیا؟  اس کی ہیئت کیسی ہے؟ وہ موجود ہے یا نہیں ہے؟ جب کہ ہمیں اللہ کی ذات اور اس کی ہیئت و صفات کے بارے میں بحث و کرید کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ ضلالت و گمراہی کا ذریعہ ہے، اگر اس طرح کا خیال دل میں آئے تو اسے فوراً جھٹک کر اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے اور شیطان کی پیروی سے باز آجانا چاہیے۔اللہ تعالیٰ کی عظمت و قوت اور اس کی وحدانیت کو سمجھنے اور جاننے کے لیے  ہمیں اللہ کی مخلوقات میں غور کرنا چاہیے اور اسی کا ہمیں حکم بھی دیا گیا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’تَفَکَّرُوا فِي خَلْقِ اللهِ، وَلَا تَفَکَّرُوا فِي اللهِ‘‘ ’’تم لوگ اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرو، اور اللہ کے بارے میں غور و فکر نہ کرو۔‘‘ [السراج المنیرفی ترتیب احادیث صحیح الجامع الصغیر ۱/۷۶، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ، رقم: ۱۷۸۸]

وسوسے کا علاج

  • اس طرح کے واہموں، شکوک و شبہات اور وسوسوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس طرح کے وسوسوں پر کوئی توجہ نہ دے، انھیں اپنے ذہن و دماغ سے دور بھگائے، اپنا قوتِ ارادی مضبوط و مستحکم بنائے، اپنے ایمان و عقیدے کو مضبوط رکھتے ہوئے اللہ رب العالمین کی ذات پر توکل و اعتماد رکھے اور اس کی پناہ طلب کرے یعنی ’’اعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم‘‘ پڑھے اور شیطانی خیال کو چھوڑ دے۔ اسی طرح ’’آمَنْتُ بِاللَّهِ  وَ رُسُلِهِ‘‘ کا ورد کرتے ہوئے  ’’اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ‘‘ پڑھے اور اپنی بائیں جانب تین مرتبہ تھتکار دے اور شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

’’يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ: مَنْ خَلَقَ كَذَا ؟ مَنْ خَلَقَ كَذَا ؟ حَتَّى يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ؟ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ‘‘

ترجمہ : ’’تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور کہتا ہے : اسے کس نے پیدا کیا؟ اسے کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک کہ وہ کہتا ہے : تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟جب وسوسہ یہاں تک پہنچ جائےتو اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے اور اس خیال سے رک جانا چاہیے۔‘‘ [صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنودہٖ رقم: ۳۲۷۶، مسلم کتاب الایمان باب بیان الوسوسۃ فی الایمان، رقم: ۱۳۴]

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

’’لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ: هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، فَلْيَقُلْ: آمَنْتُ بِاللَّهِ  وَ رُسُلِهِ‘‘

ترجمہ : ’’لوگ ایک دوسرے سے برابر سوال کرتے رہیں گے حتیٰ کہ کہا جائے گا: اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ لہٰذا جو کوئی یہ وسوسہ محسوس کرے تو چاہیے کہ وہ کہے: میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔‘‘ [مسلم کتاب الایمان باب بیان الوسوسۃ فی الایمان رقم: ۱۳۴ واللفظ لہ، ابوداؤد اول کتاب السنۃ باب فی الجہمیۃ، رقم: ۴۷۲۱]

یہی روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بایں الفاظ روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

’’إِنَّ أَحَدَكُمْ يَأْتِيهِ الشَّيْطَانُ، فَيَقُولُ: مَنْ خَلَقَكَ؟ فَيَقُولُ: اللَّهُ، فَيَقُولُ: فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَإِذَا وَجَدَ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَقْرَأْ: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ؛ فَإِنَّ ذَلِكَ يُذْهِبُ عَنْهُ‘‘

ترجمہ : ’’تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور کہتا ہے: تجھے کس نے پیدا کیا ہے؟ وہ کہتا ہے : اللہ نے۔ پھر وہ کہتا ہے: اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ اگر تم میں سے کسی کو یہ وسوسہ محسوس ہو تو چاہیے کہ وہ یہ پڑھے: ’’میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا‘‘۔ اس کے پڑھنے کی وجہ سے وہ وسوسہ ختم ہو جائے گا۔‘‘ [مسند احمد رقم : ۲۶۲۰۳، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ رقم : ۱۱۶]

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا :

’’لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ: هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ، فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَإِذَا قَالُوا ذَلِكَ فَقُولُوا: {اللَّهُ أَحَدٌ} {اللَّهُ الصَّمَدُ} {لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ} {وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ}. ثُمَّ لْيَتْفُلْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثًا، وَلْيَسْتَعِذْ مِنَ الشَّيْطَانِ‘‘

ترجمہ : ’’لوگ ایک دوسرے سے برابر سوال کرتے رہیں گے حتیٰ کہ کہا جائے گا: اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ پھر جب لوگ ایسا کہیں تو کہو: اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے،اور اس کا کوئی ہمسر و شریک نہیں۔ پھر چاہیے کہ وہ اپنی بائیں جانب تین مرتبہ تھتکار دے اور شیطان سے (اللہ کی) پناہ مانگے۔‘‘ [ابوداؤد اول کتاب السنۃ باب فی الجہمیۃ، رقم : ۴۷۲۲، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم: ۱۱۸]

علامہ البانی رحمہ اللہ وسوسہ سے متعلق احادیث پر گفتگو کرنے کے بعد بطور فقہ الحدیث کے لکھتے ہیں:

’’یہ صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس کسی کو ’’اللہ کو کس نے پیدا کیا؟‘‘ جیسا شیطانی وسوسہ لاحق ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بحث و کرید اور کٹ حجتی سے رک جائے اور اس کا جواب ڈھونڈھنے کے بجائے مذکورہ احادیث میں بیان کردہ اذکار کا اہتمام کرے۔ احادیث میں مذکور اذکار کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ کہے:

’’آمَنْتُ بِاللَّهِ  وَ رُسُلِهِ۔ اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ‘‘۔ پھر بائیں طرف تین مرتبہ تھتکار دے اور شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرے یعنی ’’اعوذ بالله من الشیطان الرجیم‘‘ پڑھے۔ اور وسوسہ میں منہمک ہونے سے باز آجائے۔

مجھے پختہ یقین ہے کہ جو کوئی خلوص و للہیت کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے ان امور کو انجام دے گاضروری ہے کہ اس سے اس طرح کا وسوسہ دور ہو جائے گا۔ اور اس نبوی فرمان: ’’فَإِنَّ ذَلِكَ يُذْهِبُ عَنْهُ‘‘ کے پیش نظر شیطان اس سے دھتکار دیا جائے گا۔ اس مسئلے میں عقلی کٹ حجتی و دلائل کے بالمقابل یہ پاکیزہ نبوی تعلیم انتہائی نفع بخش اور وسوسہ کو نابود کرنے والی ہے۔ کیوں کہ اس طرح کے معاملات میں عقلی دلائل و کٹ حجتی کا فائدہ بہت کم ہے۔

بڑے افسوس کی بات ہے کہ بیشتر لوگ اس پاکیزہ نبوی تعلیم سے غافل ہیں۔ لہٰذا اے مسلمانو! آپ سبھی متنبہ ہو جائیں، اپنے نبی کی سنت کو پہچانیں اور اس پر عمل پیرا ہوں، اس لیے کہ اسی میں آپ کی شفا اور عزت و سربلندی ہے۔‘‘ [سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ج۱ ص: ۲۳۶]

شیطانی وسوسوں سے بچنے کے لیے شیطانِ رجیم سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا مطلب صرف اتنا نہیں ہے کہ آدمی صرف زبان سے تعوذ پڑھ لے اور یہ اس کے لیے کافی ہوگی بلکہ ضروری ہے کہ صدق دل سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں اور عملی طور پر اس کا اظہار بھی ہو کہ شیطان کی اتباع و پیروی سے رک جائیں۔

  • اسی طرح دیگر قلبی  وسوسوں سے بچنے اور انھیں دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور قرآن کریم کی تلاوت کرے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے اور اللہ کے ذکر سے روگردانی کرنے سے انسان کی زندگی تنگ کر دی جاتی ہےاور اس کے اوپر شیطان کو مسلط کردیا جاتا ہے، اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت مومنین کے لیے شفا و رحمت کا باعث ہے اور اس کی وجہ سے دلوں کی بیماریاں اور شکوک و شبہات کافور ہوجاتے ہیں۔ جیسا کی اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:

﴿ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَتَطۡمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكۡرِ ٱللَّهِۗ أَلَا بِذِكۡرِ ٱللَّهِ تَطۡمَئِنُّ ٱلۡقُلُوبُ﴾ ترجمہ: ’’جو لوگ ایمان لائے اور جن کے دلوں کو اللہ کے ذکر سے اطمنان نصیب ہوتا ہے، سن لو! اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ملتاہے۔‘‘ [الرعد: ۲۸]

﴿وَمَنۡ أَعۡرَضَ عَن ذِكۡرِي فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةٗ ضَنكٗا وَنَحۡشُرُهُۥ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ أَعۡمَىٰ﴾ ترجمہ: ’’اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گاتو بے شک اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا بنا کر اٹھائیں گے۔‘‘ [طٰہٰ: ۱۲۴]

﴿وَمَن يَعۡشُ عَن ذِكۡرِ ٱلرَّحۡمَٰنِ نُقَيِّضۡ لَهُۥ شَيۡطَٰنٗا فَهُوَ لَهُۥ قَرِينٞ﴾ ترجمہ: ’’جو کوئی رحمان کے ذکر سے روگردانی کرتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔‘‘ [الزخرف: ۳۶]

﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ ٱلۡقُرۡءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٞ وَرَحۡمَةٞ لِّلۡمُؤۡمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ ٱلظَّٰلِمِينَ إِلَّا خَسَارٗا﴾ ترجمہ: ’’اور ہم قرآن میں جو کچھ نازل کررہے ہیں وہ مومنوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہےمگر ظالموں کے حق میں خسارہ ہی میں اضافہ کرتا ہے۔‘‘ [الاسراء: ۸۲]

  • دلوں میں جب کوئی وسوسہ پیدا ہو تو بطور خاص یہ آیتِ کریمہ: ﴿هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ ‏‏‏‏‏وَالظَّاهِرُ ‏‏‏‏‏‏وَالْبَاطِنُ ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ پڑھنا بھی مفید ہے۔ جیسا کہ ابو زُمیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ:

’’مَا شَيْءٌ أَجِدُهُ فِي صَدْرِي؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا هُوَ؟ قُلْتُ؟ وَاللَّهِ مَا أَتَكَلَّمُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ أَشَيْءٌ مِنْ شَكٍّ؟‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَضَحِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا نَجَا مِنْ ذَلِكَ أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ ﴿فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ﴾‏‏‏‏ الآية. قال:‏‏‏‏ فَقَالَ لي:‏‏‏‏ إِذَا وَجَدْتَ فِي نَفْسِكَ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْ:‏‏‏‏ ﴿هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ ‏‏‏‏‏‏وَالظَّاهِرُ ‏‏‏‏‏‏وَالْبَاطِنُ ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾‘‘

ترجمہ: ’’میں اپنے سینے میں کیسی باتیں پارہا ہوں؟ انھوں نے کہا: وہ کیا؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ تو انھوں نے مجھ سے کہا: کیا کوئی شک کی بات ہے؟وہ  یہ کہہ کر ہنسے اور بولے: اس سے تو کوئی نہیں بچا ہے، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ﴾ ’’اگر تجھے اس (کتاب) میں شک ہے جو ہم نے تجھ پر اتارا ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں‘‘ (یونس: ۹۴) پھر انھوں نے مجھ سے کہا: جب تم اپنے دل میں اس طرح کی کوئی چیز پاؤ تو یہ پڑھو: ﴿هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ ‏‏‏‏‏وَالْبَاطِنُ ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ ’’وہی اول ہے اور وہی آخر بھی، وہی ظاہر ہے اور وہی باطن بھی، اور وہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے۔‘‘ [الحدید: ۳]  پڑھ لیا کرو۔‘‘ [ابوداؤد ااول کتاب الادب باب فی رد الوسوسۃ، رقم: ۵۱۱۰، حسن الاسناد]

  • شیطانی وسوسوں سے بچنے کے لیے خلوت و تنہائی سے بچنا چاہیے اور بروں کی صحبت سے اجتناب کرتے ہوئے نیکوکاروں کی صحبت و ہمنشینی اختیار کرنی چاہیے۔ اپنے آپ کو کسی نیک عمل میں مشغول رکھنا چاہیے کیوں کہ جب انسان تنہائی میں ہوتا ہے تو بلاضرورت مختلف طرح کی شبہات و تفکرات میں مبتلا رہتا ہے اور بروں کی صحبت اس کے دین و ایمان اور سوچ و فکر کو متاثر کرتی ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

’’الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ‘‘ ترجمہ: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔‘‘ [ابوداؤد اول کتاب الادب باب من یومر ان یجالس، رقم: ۴۸۳۳، ترمذی ابواب الزھد عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باب ۴۵، رقم: ۲۳۷۸، مسند احمد رقم: ۸۴۱۷، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ رقم: ۹۲۷]

  • نماز جو کہ مومنوں کے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کی راحت و سکون کا باعث ہے۔ شیطان اس نماز میں بھی وسوسہ ڈالتا ہے، رکعات کی تعداد اور قرآن کریم کی تلاوت وغیرہ میں التباس پیدا کرتا ہے، اور وہ وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو نمازی کے ذہن و خیال میں نہیں ہوتی ہیں۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ وَلَهُ ضُرَاطٌ، حَتَّى لَا يَسْمَعَ التَّأْذِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا قَضَى النِّدَاءَ أَقْبَلَ، حَتَّى إِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ أَدْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا قَضَى التَّثْوِيبَ أَقْبَلَ حَتَّى يَخْطِرَ بَيْنَ الْمَرْءِ وَنَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ: اذْكُرْ كَذَا، اذْكُرْ كَذَا لِمَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ، حَتَّى يَظَلَّ الرَّجُلُ لَا يَدْرِي كَمْ صَلَّى‘‘

ترجمہ: ’’جب نماز کے کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتا ہوا بڑی تیزی کے ساتھ پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے۔ اور جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے، اور جب نماز کے لیے تکبیر کہی جاتی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ پھر جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو وہ واپس آکرآدمی اور اس کے نفس کے بیچ وسوسہ اندازی کرنے لگتا ہے۔ وہ کہتا ہے: فلاں بات یاد کرو، فلاں بات یاد کرو، اور اس طرح ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو انسان کو یاد نہیں رہتی ہیں۔ حتی کہ اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔‘‘ [بخاری کتاب الاذان باب فضل التاذین، رقم: ۶۰۸، مسلم کتاب الصلاۃ باب فضل الاذان وھرب الشیطان عند سماعہٖ، رقم: ۳۸۹]

اس طرح کے وسوسوں سے بچنے کے لیے بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ مکمل توجہ و انہماک اور پورے خلوص و جذبے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط بنائے اور یہ تصور کرے کہ گویا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں یا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اپنے ذہن و دماغ سے ان وساوس کو دور بھگائے، اور تعوذ پڑھ کر اپنی بائیں جانب تین دفعہ تھتکار دے۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا:

’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ حَالَ بَيْنِي وَبَيْنَ صَلَاتِي وَقِرَاءَتِي، يَلْبِسُهَا عَلَيَّ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’ذَاكَ شَيْطَانٌ يُقَالُ لَهُ: خِنْزَبٌ، فَإِذَا أَحْسَسْتَهُ فَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْهُ، وَاتْفِلْ عَلَى يَسَارِكَ ثَلَاثًا‘‘ قَالَ: فَفَعَلْتُ ذَلِكَ، فَأَذْهَبَهُ اللَّهُ عَنِّي.‘‘

ترجمہ : ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! شیطان میری نماز اور قرأتِ قرآن کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور مجھے قرآن بھلا دیتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’وہ شیطان ہے جس کا نام خِنزَب ہے۔ جب تمھیں اس کے وسوسے کا احساس ہو تو اس سے اللہ کی پناہ مانگواور اپنی بائیں طرف تین مرتبہ تھتکار دو۔‘‘ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مجھ سے دور بھگا دیا۔‘‘ [مسلم کتاب السلام باب التعوذ من شیطان الوسوسۃ فی الصلاۃ، رقم : ۲۲۰۳، مسند احمد رقم: ۱۷۸۹۷]

  • شیطانی وساوس سے بچنے کے لیے پورے خلوص و انہماک اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا و التجا کی جائے وہ ضرور ہماری پکار کو سنے گا اور اپنے فضل و کرم سے شیطانی وسوسوں اور دیگر مصائب و آلام کو ہم سے دور فرما دے گا۔ بطور خاص شیطان سے بچاؤ اور استعاذہ پر مشتمل دعاؤں نیز کرب و الم اور دکھ و تکلیف کو دور کرنے والی نبوی دعاؤں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ سطور ذیل میں رنج و غم کو دور کرنے والی چند دعائیں لکھی جارہی ہیں :

❶  سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ‘‘ ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو عظمت والا بردبار ہے، کوئی سچا معبود نہیں سوائے اللہ کے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، اور عرشِ عظیم کا رب ہے۔‘‘ [بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الکرب، رقم: ۶۳۴۵، مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار باب دعاء الکرب، رقم: ۲۷۳۰]

❷  سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تمھیں ایسے کلمات نہ بتاؤں جنھیں تم مصیبت کے وقت پڑھا کرو؟ (وہ کلمات یہ ہیں) ’’اللَّهُ، اللَّهُ رَبِّي، لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا‘‘ ’’اللہ، اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا‘‘۔ [ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب فی الاستغفار، رقم: ۱۵۲۵، ابن ماجہ کتاب الدعا باب الدعاء عند الکرب، رقم: ۳۸۸۲، مسند احمد رقم: ۲۷۰۸۲، تراجع العلامہ الالبانی ۱/۱۹۲ رقم: ۱۱۹]

❸  سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پریشان حال غمزدہ شخص کی یہ دعا ہے:

’’اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو، فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ، وَأَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ‘‘ ترجمہ: ’’اے اللہ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں، تو مجھے لمحہ بھر کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر، اور میرے سبھی کاموں کو درست فرمادے، تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔‘‘ [ابوداؤد اول کتاب الادب ابواب النوم باب ما یقول إذا أصبح، رقم: ۵۰۹۰، مسند احمد رقم: ۲۰۴۳۰،شیخ زبیر علی زئی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے (انوار الصحیفۃ ص: ۱۷۶) جب کہ شیخ البانی نے اسے حسن الاسناد قرار دیا ہے۔ دیکھیے: الکلم الطیب بتحقیق الالبانی ص: ۱۱۸ رقم: ۱۲۱]

  • شیطانی وسوسوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مشتبہ امور و معاملات سے اجتناب کریں، جن معاملات کی حلت و حرمت کا قطعی علم نہ ہو ان سے گریز کریں، حلت و حرمت کی پروا کیے بغیر کسی معاملے کو انجام نہ دیں، جن امور کی انجام دہی سے ممنوع و حرام کاموں میں ملوث ہونے کا اندیشہ ہو اس سے بھی پرہیز کریں اور دل کو ہر طرح کی آلودگی سے پاک و صاف رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے دل کو اس کے دینِ حق پر ثابت رکھنے کی یہ دعا: (يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ) کرتے رہیں۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’الْحَلَالُ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ‘‘

ترجمہ: ’’حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے بیچ کچھ شبہ والی چیزیں ہیں جنھیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں۔ جو کوئی شبہ والی چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہو گیا اس کی مثال اس چرواہے جیسی ہے جو چراگاہ کے ارد گرد بکریوں کو چرائے تو قریب ہے کہ اس میں واقع ہو جائے گا۔ خبردار! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے، خبردار! اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سن لو! جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہے تو سارا جسم درست ہوگا اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جائے گا۔ اور وہ دل ہے۔‘‘ [بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرا لدینہ، رقم: ۵۲، کتاب المساقاۃ باب أخذ الحلال وترک الشبہات، رقم: ۱۵۹۹ وغیرہ]

  • شیطانی وسوسوں سے بچنے کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ ہم ان تمام راہوں اور امور سے اجتناب و دوری اختیار کریں جن کے وسیلہ سے شیطان ہمارے دلوں میں داخل ہوتا ہے۔ ان میں سے چند وسیلے اور راہیں یہ ہیں:

اول: شیطان انسان کی شرمگاہ کی شہوت کے راستے سے اس کے دل میں داخل ہوتا ہے۔ پھر اسے زنا پر ابھارتا ہے،  اور اس کے لیے اجنبی عورتوں کے ساتھ خلوت نشینی اختیار کرنے، انھیں دیکھنے، ان سے ملنے، ان کے گانوں کو سننے وغیرہ جیسی برائیوں کو مزین کرتا ہے۔ اور وہ مسلسل انسان کو بہکاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بدکاری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس طرح کے وسوسوں سے بچنے کے لیے شہوانی خواہشات پر مکمل بند لگانا ضروری ہے۔

دوم:  شیطان انسان کی پیٹ کے راستے سے اس کے دل تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ پھر وہ اسے حرام کھانے، شراب پینے، نشہ آور چیزوں کو استعمال کرنے اور اس جیسی دیگر برائیوں پر اکساتا ہے۔ اس لیے اس قسم کے وسوسۂ شیطانی سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چیزوں پر قناعت کریں اور پیٹ کی اشتہا کی خاطر حرام راہوں کو نہ چنیں۔

سوم: شیطان انسان کے ملکیت حاصل کرنے کی شدید خواہش اور ثروت و مالداری کی طرف رجحان کے راستے سے اس کے دل تک پہنچتا ہے۔ پھر  وہ اسے  کمائی کے اسباب و ذرائع کو حلال و حرام کے ذریعہ وسعت دینے پر ابھارتا ہے، اس طرح انسان لوگوں کے مالوں کو باطل طریقے سے کھانے میں کوئی پروا نہیں کرتا ہے، چہ جائے کہ  ذرائع آمدنی کا ذریعہ سود یا چوری یا غصب یا ڈاکہ یا دھوکا وغیرہ  ہو۔ لہٰذا اس قسم کی وسوسۂ شیطانی سے بچنے کے لیے مالک و مالدار اور بڑا بننے کے جذبے کو دل سے نکال پھینکنے کی ضرورت ہے۔

چہارم: شیطان انسان کے تسلط حاصل کرنے، تعلی و تکبر اور بڑا بننے کی شدید خواہش کے راستے سے اس کے دل میں رسائی حاصل کرتا ہے۔  پھر انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتا ہے، لوگوں پر فخر کرتے ہوئے انھیں حقیر سمجھنے لگتا ہے اور ان کا مذاق اڑاتا ہے۔ اس طرح کے وسوسوں سے بچنے کے لیے خود کو سب سے بڑا ثابت کرنے والی خصلت سے بچنا ضروری ہے۔ (مستفاد از: فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ، فتویٰ نمبر: ۹۲۹۷، بتصرف یسیر)

اللہ ہمیں نفس کی شرارتوں اور شیطانِ رجیم کی فریب کاریوں سے محفوظ رکھے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔