وقت : انسانی زندگی کا عظیم سرمایہ

انسان دنیا میں چند دن کے لئے آیا ہے ،یہاں اس کا ٹھکانہ عارضی ہے ،انسانی زندگی خود اس کی بے ثباتی اور ناپائیداری کو بتاتی ہے ،دنیا میں پید اہونے والا ہر بچہ اس بات کا ثبوت ہے اسے کل مرنا ہے ۔موت سے کسی کو رست گاری نہیں ہے ۔اللہ تعالی نے اس عارضی دنیا میں انسان کو نیکیاں کمانے اور اجر و ثواب کو جمع کرنے کے لئے بھیجا ہے ، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا سے وہی لوگ کامیاب ہوکر جاتے ہیں جو وقت کی قدر کرنے والے ہوتے ہیں ،اور جنہیں ایک ایک لمحہ کا احسا س ہوگا اور کل پروردگارِ عالم کے سامنے حاضری کی فکر لاحق ہوگی۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس حقیقت کو مختلف انداز میں اجاگر کیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں اس کی اہمیت کو خوب بیان فرمایا ہے ۔تاکہ انسان کسی لمحہ غافل ہوکر جینے والا نہ بنے اور لاپرواہی کا شکار ہو کر مقصدِ اصلی کو فراموش نہ کربیٹھے۔انسان کی زندگی کے مختلف مراحل کو اللہ تعالی نے بیان فرمایا:ارشاد ہے: اعلموا انما الحیوٰۃ الدنیا لعب و لھو وزینۃ وتفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال و الاولاد کمثل غیث اعجب الکفار ثم یھیج فترہ مصفرا ثم یکون حطاما وفی الاخرۃ عذاب شدید ومغفرۃ من اللہ و رضوان وماالحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور۔( الحدید :20)خوب سمجھ لو کہ اس دنیا والی زندگی کی حقیقت بس یہ ہے کہ وہ نام ہے کھیل کود کا،ظاہری سجاوٹ کا ،تمہارے ایک دوسرے پر فخر جتانے کا،اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش جس سے اگنے والی چیزیں کسانوں کو بہت اچھی لگتی ہیں ، پھر وہ اپنا زور دکھاتی ہے ، پھر تم اُس کو دیکھتے ہو کہ زد پڑگئی ہے ،پھر چورا چورا ہوجاتی ہے ۔اور آخرت میں ( ایک تو)سخت عذاب ہے  اور( دوسرے ) اللہ کی طرف سے بخشش ہے ، اور خوشنودی ، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے انسانی زندگی کے مختلف مراحل کو ذکر فرمایا کہ انسان کن کن مرحلوں سے گذرکر انتہا کو پہنچتا ہے ، آخر انجام کے اعتبار سے اس کو اس دنیا سے کوچ کرنا ہے اور فانی جہاں کو چھوڑ کر ابد الآباد دنیا کی طرف جانا ہے ۔وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا کہ یہاں کہ رنگینوں میں مست ہوجائے اور آخرت کو فراموش کردے ،یہاں کی عارضی چمک دمک اس کو اپنی حقیقی منزل سے غافل کرنے والی نہ بنے ،اور وہ فنا ہونے والی زندگی میں مصروف ہوکر لافانی زندگی کو بھول نہ جائے ۔انسانی کی زندگی بچپن سے شروع ہوکر بڑھاپے پر ختم ہوجاتی ہے اس درمیان انسان کن چیزوں میں گم اور کھویا ہوا رہتا ہے اس کو اللہ تعالی نے مذکورہ آیت میں بیان فرمایااورا س کے لئے کسان اور کاشتکار کی مثال بھی بیان کی ہے جس طرح کھتی اور سبزی ابتدائی مرحلے میں بڑی خوشنمانظرآتی ہے لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی زد پڑجاتی ہے اسی طرح انسانی زندگی بھی شروع میں بڑی حسین و طاقت ور دکھائی دیتی ہے لیکن آخر کار بڑھاپا طاقت وقوت ، شوکت وشباب اور بہاروں کو ختم کردیتا ہے یہاں تک انسان مرکر مٹی ہوجاتا ہے ۔اور آخر میں منزل مقصود کی طرف متوجہ کیا کہ اصل دوڑ دھوپ اور محنت و کوشش آخرت کے لئے ہونی چاہیے ۔ایک جگہ دوزخ میں ڈالے جانے کے بعد انسان کی بے قراری اور وہاں سے راہِ فراری کے تقاضے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: وھم یصطرخون فیھا ربنا اخرجنا نعمل صالحا غیر الذی کنا نعمل اولم نعمرکم مایتذکر فیہ من تذکر وجاء کم النذیر فذو قوا فما للظلمین من نصیر۔( الفاطر:37)اور وہ دوزخ میں چیخ و پکار کریں گے کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں باہر نکال دے تاکہ ہم جو کام پہلے کیاکرتے تھے ،انہیں چھوڑ کر نیک عمل کریں ۔( ان سے جواب میں کہا جائے گا کہ) بھلا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کسی کو اس میں سوچنا سمجھنا ہوتا وہ سمجھ لیتا؟اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی آیا تھا۔انسا ن کو اوسطا اتنی عمر دی جاتی ہے ،وہ اتنی طویل ہوتی ہے ،اور اس میں انسان اتنے مختلف مراحل سے گزرتا ہے کہ اگر وہ واقعی حق تک پہنچنا چاہے تو پہنچ سکتاہے۔( توضیح القرآن :3/1344)نبی کریم ﷺ نے فرمایا:لاتزال قدما ابن اٰدم یوم القیامۃ عند ربہ حتی یسال عن خمس:عن عمرہ فیما افناہ، وعن شبا بہ فیما ابلاہ ، وعن مالہ من این اکتسبہ ، وفیما انفقہ ، وماذا عمل فیما علم ۔(ترمذی:حدیث نمبر؛2353)اقیامت کے دن اللہ تعالی کے دربار میں بنی آدم کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے جب تک کہ پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے گا : (1) اس کی عمر کے متعلق کہ اپنی عمر کو کہاں فنا کیا ؟(2)اس کی جوانی کے بارے میں کہ اس کو کس چیز میں گنوایا ؟(3)اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا؟(4)مال کہاں خرچ کیا ( 5)اور علم کے بارے میں کہ جو علم اس کو حاصل تھا اس پر کہاں تک عمل کیا؟ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اغتنم خمسا قبل خمس : شبابک قبل ھرمک ، وصحتک قبل مرضک،وغناک قبل فقرک ، وفراغک قبل شغلک،وحیاتک موتک۔( المستدرک:حدیث نمبر؛7914)کہ پانچ چیزوں کوپانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔(1)اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ۔ (2)اپنی صحت کو بیماری سے پہلے۔(3)اپنی مالداری کو فقر سے پہلے ،(4)اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے ،(5)اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نعمتان مغبون فیھما کثیر من الناس : الصحۃ ، والفراغ۔( بخاری : حدیث نمبر؛5960) کہ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے کا شکار ہیں ایک صحت اور دوسری فراغت۔نبی کریم ﷺ نے مختلف حیثیتوں سے وقت کی اہمیت اور قدر ومنزلت کو بیان فرمایا اور اسے عظیم سرمایۂ حیات قرار دیا ۔انسان کی دین و دنیا کی کامیابی اور بھلائی وقت کے صحیح استعمال ہی میں مضمر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف میں وقت کی قدر کا غیر معمولی اہتمام تھا،وہ زندگی کے لمحہ لمحہ کی قدر کرتے تھے اور نہایت تول تو ل کر وقت کوخرچ کیا کرتے تھے ،اپنی زندگی کے اوقات کو فضول اور لایعنی مشاغل میں ضائع کرنے کے وہ عادی نہیں تھے بلکہ ہر لمحہ کو اپنی زندگی کا قیمتی لمحہ سمجھ کر اس کی حفاظت کرتے تھے ۔حضرت علیؓ کا قول ہے : الایام صحائف اعمارکم ،فخلدوا ھا صالح اعمالکم۔کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں ،اچھے اعمال کے ذریعہ ان کو دوام بخشو۔حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے تھے : میں اس دن سے زیادہ کسی چیز پر نادم نہیں ہوتا جو میری عمر سے کم ہوجائے اور اس میں میرے عمل کااضافہ نہ ہوسکے۔حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ فرماتے ہیں کہ:دن رات کی گردش آپ کی عمر کو کم کررہی ہے تو آپ عمل میں سستی کیوں کرتے ہیں۔جو قومیں وقت کو ضائع کرتی ہیں وقت انہیں ضائع کردیتا ہے ۔ایسی قوموں کا انجام غلامی ہو تا ہے ،دین و دنیا کا خسارہ ان کا مقدر ہوتا ہے ۔( وقت کی قدر : 18)امام شافعی ؒ فرماتے ہیں : کہ میں نے صوفیا کی صحبت اختیار کی ؛ دو باتوں نے مجھے فائدہ پہنچایا : ایک یہ کہ وقت ایک کاٹنے والی تلوارکی طرح ہے ،اگر تم اس کو نہیں کاٹو گے وہ تمہیں کاٹ دے گا ،دوسری یہ ہے کہ: اپنے آپ کو حق کے ساتھ مشغول رکھو ورنہ باطل تم کو مشغول کردے گا۔حضرت امام محمد ؒ کے بارے میں ہے کہ: وہ راتوں کو بہت کم سویا کرتے تھے ، کتابیں پاس رکھ کر رات بھر مراجعت اور مطالعہ فرماتے رہتے۔( قیمۃ الزمن عند العلماء:30)عامربن قیس ؒ ایک زاہد تابعی تھے، ایک شخص نے ان سے کہا کہ : آؤ بیٹھ کر باتیں کریں۔انہوں نے جواب دیا کہ : تم سورج کو بھی ٹھہرا لو۔یعنی زمانہ تو متحرک رہتا ہے اور گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آتا ، اس لئے ہمیں اپنے کام سے غرض رکھنی چاہیے اور بے کار باتوں میں وقت ضائع نہیں کرنا چا ہیے۔فتح بن خاقان خلیفہ عباسی المتوکل کے وزیر تھے ،وہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے اور جب سرکاری کاموں سے ذرا فرصت انہیں ملتی تو آستین سے کتاب نکال کر پڑھنے لگ جاتے ۔علامہ ابن رشد ؒ کے بارے میں ہے کہ:وہ اپنی شعوری زندگی میں صرف دوراتوں کو مطالعہ نہیں کرسکے۔جاحظ کے بارے میں ہے کہ: وہ کتا ب فروشوں کی دکانیں کرایہ پر لے لیتے اور ساری رات کتابیں پڑھتے رہتے۔( شاہراہِ زندگی پر کامیابی کاسفر: 19)حسن البناء ؒ نے فرمایا: کہ جس نے وقت کا حق پہنچان لیا اس نے زندگی کی حقیقت پالی ، کیوں کہ وقت ہی زندگی کا دوسرا نام ہے۔( وقت کا بہتر استعمال :34)مولانا ابوالکلام آزاد ؒ لکھتے ہیں : کہ اگر حقیقت حال کو اور زیادہ قریب ہو کر دیکھئے تو واقعہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کی پوری مدت ایک صبح شام سے زیادہ نہیں ۔صبح آنکھیں کھلیں ، دوپہرامید وبیم میں گزری ، رات آئی تو پھر آنکھ بند تھیں ۔لم یلبثوا الاعشیۃ او ضحاھا۔( غبارِ خاطر:247)ماضی قریب میں ایسے علم کے شیدائی او روقت کے قدر دان گزرے ہیں کہ جن کی زندگیاں مثالی اور شب و روز روشن و تابناک ہیں جو بلاشبہ آج مملکت علم کے فرماں روا بن کر دلوں پر حکومت کررہے ہیں اور جن کے فیوض سے ایک دنیا سیراب ہورہی ہے ۔جن میں صرف ایک شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی ؒ کا تذکرہ ملاحظہ کیجیے،وہ فرماتے ہیں:کہ اس ناکارہ کا معمول 1335ھ سے ایک وقت کھانے کا ہوگیا تھا ۔۔۔کہ رات کو کھانے میں مطالعہ کا حرج ہوتا نیند بھی جلد آتی تھی ،پانی بھی زیادہ پیا جاتا تھا ۔ابتداء میری ایک چھوٹی بہن کھانا لے کر اوپر میر ی کوٹھری میں پہنچ جاتی تھی اور لقمہ بناکر میرے منہ میں دیتی تھی اور دیکھتی رہتی تھی کہ جب منہ بند ہوجاتا تو دوسرا لقمہ دے دیا کرتی تھی ،اس ناکارہ کو التفات بھی نہیں ہوتا تھا کہ کیا کھلایا ایک دوسال بعد اس کو بھی بند کردیا ،اس زمانے میں بھوک تو خوب لگتی مگر حرج کا اثر بھوک پر غالب تھا۔( متاعِ وقت کاروانِ علم :284)
بہرحال انسان اگر آخرت کی زندگی کو کامیاب بنانا چاہتا ہے وہ اپنی زندگی کے مقاصد کو متعین کرے اور اس کو اسی اصو ل کے مطابق گزارے ،وقت کی قدر پر صرف آخرت کی کامیابی ہی منحصر نہیں ہے ۔بلکہ دنیا کی تاریخ میں جنتے بڑے اور قابل و لائق انسان بنے ہیں وہ تمام وقت کے نہایت قدردان تھے ،وہ بڑی نزاکت اور احتیاط کے ساتھ اپنے اوقات کو استعمال کرنے والے تھے ،ان کی کامیابیاں اور دنیوی ترقیاں دراصل ان کی شبانہ روز محنتوں کا نتیجہ تھا، جنتے اللہ کے برگزیدہ اور نیک بندے گزرے ہیں وہ بھی اوقاتِ زندگی کو غنیمت جاننے والے تھے اور اس کی بھر پور رعایت کرتے ہوئے ہر لمحۂ زندگی کی حفاظت کیا کرتے تھے ۔آج جن کی کتابیں اور قیمتی تحریریں ہمارے لئے سرمایۂ فخر بنیں ہوئی ہیں اور بڑی عزت و احترام کے ساتھ جن کا نام لیا جاتا ہے وہ بھی وقت کے بہت بڑے قدر دان تھے ۔کامیاب زندگی کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کے وقت کی قدر و منزلت کا احساس دل میں نہ پیدا ہوجائے ۔
اور یہ بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ اس وقت مسلمان وقت کی بہت ہی زیادہ ناقدری کرنے والے ہیں ،ان کے یہاں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وقت کی کوئی اہمیت اور قدر ہی نہیں ہے ۔تضیع اوقات کے مختلف بہانے ڈھونڈ رکھیں ہیں ،تفریح اور دل لگی کے عنوان پر زندگی کے قیمتی لمحات کو بڑی بے دردی سے پامال کیا جاتا ہے ،دعوتوں اور تقریبوں میں دل کھول کر وقت کا ضیاع ہوتاہے اور نوجوانوں کی صورت حال تو انتہائی تکلیف دہ ہے کہ جن کے پا س کوئی منصوبہ بندی نہیں اور مستقبل کا کوئی لائحہ عمل بھی نہیں ،صبح و شام بے پرواہی میں اور دن و رات فضول مشغولوں میں گزارتے گزارتے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ مہینوں کے گزرنے پر بھی احساسِ زیاں پیدا نہیں ہوتا اور زندگی کی قدر معلوم نہیں ہوتی ۔دنیا کی کامیابی ،اور آخرت کی سربلندی اگر مقصود ہے تو بھی وقت کی قدر وعظمت کا ہونا نہایت ضروری ہے اور اس کا صحیح استعمال کرنے کا طریقہ آنا بھی ناگزیر ہے۔ماں باپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ذہن ودل میں وقت کی قدر کا جذبہ پیدا کرے اور ضیاعِ وقت کے طریقو ں سے انہیں محفوظ رکھے۔ تاکہ ان کی یہ اولاد دنیا میں نیک نامی اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنے۔

تبصرے بند ہیں۔