وقت کی قدر و منزلت

محبوب عالم عبدالسلام

 انسانی زندگی میں وقت کی بڑی قدر و منزلت ہے، وقت ایک قیمتی متاع، عظیم دولت اور گراں قدر سرمایہ ہے، وقت کی یہ خاصیت ہے کہ یہ کسی کا انتظار نہیں کرتا بلکہ بڑی برق رفتاری کے ساتھ کسی کا پاس و لحاظ کیے بغیر گزرتا رہتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جنھوں نے وقت کی قدر کی، وقت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اُسے مفید کاموں میں استعمال کیا تو وقت نے بھی اُن کی قدر کی، اُنھیں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کیا، اُنھیں زمیں سے اٹھا کر اوج ثریا پر پہنچا دیا اور جنھوں نے سستی و کاہلی کو اپنا کر وقت کو ضائع و برباد کیا، لیت و لعل اور خیالی پلاؤ بنانے میں لگے رہے تو وقت نے بھی اُنھیں ضائع اور برباد کردیا۔ وقت کے مفید استعمال نے ہی پس ماندہ قوموں کو ترقی کا معراج عطا کیا اور وقت کو ضائع و برباد کرنے کے سبب ترقی پذیر اور ترقی یافتہ قومیں بھی خس و خاشاک کی مانند صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔

      وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہمیں قرآن مجید سے بھی ہوتا ہے اللہ رب العالمین نے قرآن مجید کے اندر متعدد مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے۔ کبھی اللہ نے فجر کے وقت کی قسم کھائی ہے تو کبھی چاشت کے وقت کی، کبھی زمانے کی قسم کھائی ہے تو کبھی دن اور رات کی اور اللہ رب العالمین کا یہ اصول ہے کہ وہ غیر معمولی شے کی ہی قسم کھاتا ہے جس سے وقت کی بے پناہ اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت کا مختلف اوقات کا قسم کھانا کوئی معمولی  بات نہیں، بلکہ اُن کے ذریعے ہمیں جھنجھوڑا جارہا ہے کہ اپنی زندگی کی اوقات کو معمولی اور حقیر نہ سمجھو، بلکہ اُس کے ایک ایک لمحہ اور ایک ایک پل کا تم سے حساب لیا جائے گا کیوں کہ یہ زندگی، یہ کارخانہ حیات اور یہ گردشِ لیل و نہار محض کھیل تماشا اور لطف اندوزی کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کے پس پردہ ایک حقیقی مقصد کارفرما ہے کہ انسان اپنے اوقاتِ ثمینہ کو یوں ہی لہو و لعب میں برباد نہ کرے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے جملہ احکام و فرامین کی پیروی کرے، صرف اسی کی عبادت و بندگی بجا لائے اور تمام قسم کی فواحش و منکرات سے کنارہ کش ہو جائے۔

      احادیثِ مبارکہ کے اندر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی اور وقت کی قدر و منزلت پر ابھارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ اس سے غافل رہتے ہیں۔ ایک صحت و تندرستی اور دوسری نعمت فرصت اور فارغ البالی ہے۔ [صحیح بخاری : 6412]

      یہ دو نعمتیں جن کی جانب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کی رہمنائی فرمائی ہے یہ در حقیقت اوقاتِ زندگی سے ہی عبارت ہیں۔ انسان کے پاس صحت و تندرستی رہتی ہے؛ لیکن پھر بھی وہ غفلت کا شکار رہتا ہے اور رضائے الٰہی کے کاموں کو چھوڑ کر نافرمانی کے کاموں میں لگا رہتا ہے۔ اسی طرح آدمی کے پاس فرصت ہی فرصت ہوتا ہے؛ لیکن پھر بھی وہ ٹال مٹول کرتا رہتا ہے اور اپنے اوقات کو مفید کاموں کے بجائے لایعنی امور میں صرف کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا صحت و تندرستی کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے اوقات کو اللہ کی عبادت اور اُس کی رضا جوئی میں صرف کرنا چاہیے اور ہمہ وقت اپنی زبان کو ذکرِ الٰہی سے تر رکھنا چاہیے۔

      پھر اگر ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور اُن کے تربیت یافتہ تابعین، تبع تابعین اور فقہا و محدثین کی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ بھی اپنے اوقات کو مفید کاموں میں استعمال کرتے تھے، لایعنی امور سے دور رہتے تھے، کثرت سے نوافل کا اہتمام کرتے تھے اور ہرآن اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے وہ وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جس کا تصور ہی ایک سست رو شخص کے لیے محال ہے۔

      آج اگر ہم اپنے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو ہر طبقے کے بیشتر افراد، وقت ضائع کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ زیادہ تر لوگ اپنے کام کو التوا میں ڈال کر یہی کہتے ہیں کہ ابھی تو بہت وقت ہے، ابھی تو پوری زندگی پڑی ہے بعد میں دیکھا جائے گا بعد میں ہم یہ کام چٹکیوں میں کرلیں گے، وقت ضائع کرنے یا بالفاظ دیگر ٹائم پاس کرنے کے لیے لوگوں کے پاس یوں تو بہت سارے ذرائع اور مشاغل ہیں؛ لیکن وقت کا صحیح استعمال کرنے کے ذرائع مفقود ہے۔

      موجودہ دور میں آدمی جس چیز میں سب سے زیادہ اپنے وقت کو برباد کرتا ہے وہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کی دنیا ہے، چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب، عالم ہو یا جاہل غرض کہ ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل فون موجود ہے اور بیشتر لوگ اس میں اپنا اچھا خاصا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مثلاً : اُس میں گیم کھیلنا، بلا ضرورت چیٹنگ کرنا، یو ٹیوب وغیرہ پر فضول قسم کی وڈیوز دیکھنا، فیس بک اور انسٹاگرام پر بے جا تبصرے کرنا، بے فائدہ پوسٹ اپلوڈ کرنا اور شئیر کرنا، مزاحیہ قسم کے مواد شیئر کر کے آپسی گفت و شنید کے ذریعہ اپنا قیمتی وقت گنوانا، جب کہ آج کی ترقی یافتہ اور تیز رفتار دور میں موبائل فون ایک مفید ایجاد ہے جس میں پوری دنیا سمٹ کر آگئی ہے اور اتصال کے ذرائع نہایت ہی آسان ہوگئے ہیں، اگر ہم چاہیں تو اس سے بہت کچھ استفادہ کر سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی استفادے کا بہتر موقع فراہم کر سکتے ہیں، اس میں مشہور قراء کی آواز میں قرآن کریم کی تلاوت سن کر ذہن و دماغ کو جلا بخش سکتے ہیں، خود بھی قرآن کریم میں تدبر و  تفکر کرسکتے ہیں، احادیثِ نبویہ کا مطالعہ کرسکتے ہیں، تحقیقی و تنقیدی موضوعات پر دسترس حاصل کر سکتے ہیں، ادیان و مذاہب کے درمیان تقابلی جائزہ لے سکتے ہیں، نماز کے لیے الارم لگا سکتے ہیں، کم پڑھے لکھے لوگوں تک سنجیدہ اور شائستہ اسلوب میں دین کی باتیں پہنچا سکتے ہیں، موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے معاشرے میں پنپنے والی برائیوں کا سدِّ باب کرسکتے ہیں، حکومت و اقتدار کے غلط رویوں اور بے بنیاد پالیسیوں پر آواز بلند کرسکتے ہیں، لیکن افسوس ہم میں سے بیشتر لوگ جدید ٹیکنالوجی کے اس مفید اور کارآمد ہتھیار کا مثبت استعمال نہیں کرتے بلکہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کی چمک دمک اور نیرنگیوں میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔

      کچھ لوگ اپنے وقت کو لایعنی اور بے مقصد امور میں ضائع تو نہیں کرتے لیکن اپنے وقت کا بیشتر حصہ سوچنے اور افسوس کرنے میں گزارتے رہتے ہیں یا تو وہ ماضی کی غفلتوں، تلخ یادوں، ناخوشگوار لمحوں اور کسی مہم میں ناکامی کے بارے میں سوچ سوچ کر کڑھتے رہتے ہیں یا پھر مستقبل جس کے ملنے کا کوئی ٹھکانا نہیں اس کو بہتر بنانے کے لیے طرح طرح کی پلاننگ اور اُونچے اُونچے خواب بُنتے رہتے ہیں اور اسی ماضی اور مستقبل کے اُدھیڑبن میں پھنس کر اپنے وقت کا ضیاع اور اپنے حال کو برباد کرتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً ماضی، حال مستقبل سب تاریک کر لیتے ہیں اور اپنی زندگی کو یوں ہی حسرتوں اور آرزوؤں کے حوالے کر کے یوں ہی ناکام زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، خود تو برباد ہوتے ہی ہیں اور اپنے پیچھے ایک کنبے اور قبیلے کو بھی تباہی کے دہانے پر چھوڑ جاتے ہیں۔

      اسی طرح وقت ضائع کرنے کے لیے لوگوں نے ہوٹل اور چائے خانوں کو اچھی جگہ بنا لیا ہے، گاؤں دیہات کا معاملہ ہو یا شہر و قصبہ کا ہر جگہ ہوٹلوں پر بیٹھ کر لوگ گپ شپ کرتے رہتے ہیں، اپنے منہ میاں مٹھو بن کر دوسروں کے عیوب و نقائص کو ٹٹولتے رہتے ہیں، اِدھر اُدھر کی فضول باتیں اور سیاست پر بے جا تبصرہ کرکے سارا دن ہوٹل پر گزار دیتے ہیں۔ شہروں میں تو یہ چیز نسبتاً کم ہے؛ لیکن دیہاتوں میں کوئی ایسا ہوٹل اور نکڑ نہیں ملے گا جہاں دو چار لوگ بیٹھ کر گپ شپ نہ کرتے ہوں اور ان مجلسوں میں بیٹھنے والے عموماً جہلا اور نسبتاً کم پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ جن کا کام ایک کپ چائے پی کر دن بھر ہوٹل پر بیٹھ کر ٹائم پاس کرنا ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سارے دین کے علم بردار بھی ان مجلسوں میں بیٹھ کر لہو و لعب کا حصہ بنے رہتے ہیں، حالاں کہ ایسی مجلسوں میں عموماً دوسروں کی غیبت کی جاتی ہے، دوسروں کے تئیں بدگمانی پیدا کی جاتی ہے، دوسروں کے عیوب و نقائص کو ٹٹولا جاتا ہے اور  کبھی کبھی نوبت تُو تُو مَیں مَیں سے ہوتے ہوئے لڑائی جھگڑا اور گالم گلوج تک بھی پہنچ جاتی ہے، اور پھر برسوں دشمنیاں چلتی رہتی ہیں، جب کہ کتاب و سنت کے اندر اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔ سورہ حجرات کے اندر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

      اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، کیوں کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور کسی کے اندر بھید نہ ٹٹولو، تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے، اس کو تم خود ناگوار سمجھتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ [الحجرات : 12]

      قرآن کریم کے اندر سورہ فرقان میں رحمان کے بندوں کی ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے، اور اگر کسی لغو و عبث چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو سنجیدگی اور متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور بدتمیزی سے پیش آئے تو سلام کرتے ہوئے اس سے الگ ہوجاتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اوقات کو مفید کاموں میں صرف کریں، فارغ اوقات میں نفع بخش کتابوں کا مطالعہ کریں، ایک دوسرے کا تعاون کریں، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں، ہر ایسے کام سے دور رہیں جو دنیا و آخرت میں خسارے کا سبب بنے، ہر ایسی مجلس کا بائیکاٹ کریں، جہاں ایک دوسرے کی غیبت اور چغل خوری کی جاتی ہو، علمائے کرام حتی المقدور ایسی مجلسوں سے دور رہیں اور اگر گاہے بگاہے ایسی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقع میسر آئے تو عوام کو سمجھائیں نہ کہ خود اُن کے گپ شپ میں شریک ہوکر زینتِ محفل بن جائیں، اس لیے کہ دعوت و تبلیغ کا یہ انداز بھی بہت سود مند ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آغازِ تبلیغ میں مکہ کی گلیوں میں نکل جایا کرتے تھے، اُنھیں دین کی باتیں بتلاتے، ان پر توحید کی اہمیت کو اجاگر کرتے، شرک کی خباثت کو آشکارا کرتے اور ُاُنھیں جنت کی نعمتوں اور جہنم کی ہولناکیوں سے باخبر کرتے۔ یقین مانیں جو باتیں ہم تقریر و تحریر کے ذریعے نہیں کہہ سکتے اُسے بآسانی عوامی زبان میں عوام الناس کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔

      سوال یہ ہے کہ آدمی اپنے وقت کو کیوں ضائع کرتا ہے؟ وقت آدمی اسی وقت ضائع کرتا ہے جب اس کے پاس زندگی کا کوئی واضح مقصد نہیں ہوتا وہ زندگی کی اہمیت و حقیقت سے ماورا ہوتا ہے، ورنہ انسان کی تخلیق اور دنیاوی زندگی کی راحتیں بذات خود ایک مقصد کے تحت برپا کی گئی ہیں۔ جس کا ذکر اللہ رب العالمین نے سورہ ذاریات کے اندر بڑے ہی واشگاف لفظوں میں بیان کر دیا ہے کہ اللہ نے انسان و جن کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ بے فائدہ اور لغو چیزوں میں آدمی کو اپنے اوقات ضائع نہیں کرنا چاہیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

      (من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ.) ترجمہ : آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے  کہ وہ لایعنی اور بے مصرف امور کو چھوڑ دے۔ [رواہ الترمذی]

      لیکن افسوس آج بہتیرے مسلمان فائدہ مند چیزوں کو چھوڑ کر لایعنی امور میں پڑے ہوئے ہیں۔ تلاوتِ قرآن اور ذکرِ الٰہی کو ترک کر کے دنیا و جہان کی بے مطلب مصروفیات میں لگے ہوئے ہیں۔ خصوصاً نوجوان طبقہ انٹرنیٹ کی دنیا کا اسیر ہوکر لایعنی چیزوں میں مصروفِ عمل ہے۔

      دنیا میں جو وقت اور زندگی کی مہلت اللہ رب العالمین نے ہمیں عطا کی ہے قیامت کے دن پہلی فرصت میں اسی کے متعلق باز پرس کی جائے گی اس لیے زندگی کے قیمتی لمحات کو رب کی اطاعت و فرماں برداری میں لگائیں۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

    : قیامت کے دن ابن آدم اپنی جگہ سے قدم ہلا نہیں سکے گا جب تک اِن پانچ چیزوں کے بارے میں بازپرس نہ کر لی جائے گی : اس کی عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کن مشاغل میں زندگی گزاری؟ اپنی جوانی کو کن مقاصد میں لگایا؟ مال کہاں سے اور کیسے حاصل کیا تھا؟ اُس حاصل شدہ مال کو خرچ کیسے کیا تھا؟ اور جو علم تم نے حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا تھا؟ [ترمذی (2416) علامہ البانی نے سلسلۃ الأحاديث الصحيحہ (946) میں اس حدیث کو حسن کہا ہے]

      یہ حدیثِ مبارکہ ہمارے اندر وقت کی اہمیت کا احساس جگاتی ہے کہ ہم اپنی زندگی اور اوقات کا جائزہ لیں، اپنا احتساب کرتے رہیں، فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع نہ کریں، اپنی جوانی کو اللہ کی اطاعت کے کاموں میں لگائیں، رزقِ حلال کے لیے تگ و دو کریں، حرام مال سے اپنا دامن بچا کر رکھیں، اپنے علم کے مطابق عمل کرتے رہیں اور اپنی زندگی کے ایک ایک قدم کو پھونک پھونک کر رکھیں۔ اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

      ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ برف کی مانند پگھلتا جارہا ہے اور ہم رفتہ رفتہ موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے قیمتی اوقات کو بہتر مصارف میں صرف کریں، اپنے وقت اور زندگی کی منصوبہ بندی کریں، اپنا ایک وژن بنائیں، اپنے اوقات کو تعلیم و تعلم سے جوڑیں، ذکر او اذکار میں لگائیں، اپنے اہل خانہ کو وقت دیں، خالی حالت میں بیٹھ کر خیالی پلاؤ نہ بنائیں، اپنے سے متعلق کاموں میں دلچسپی لیں، غیر متعلق امور میں دخل اندازی نہ کریں، اپنے کام کو پوری تن دہی کے ساتھ انجام دیں اور اپنی توجہ کو اپنے مقصد پر مرکوز رکھیں، اس لیے کہ اگر ہمارے سامنے کوئی مقصد ہے تو لازمی طور پر ہمیں اپنی ساری توجہ اسی کی طرف مبذول کرنا پڑے گا اور بقیہ دوسری چیزوں سے اپنی دلچسپی ختم کرنی پڑے گی اگر ہم اپنی توجہ اپنے اصل مقصد کے بجائے دوسری سرگرمیوں میں الجھائے رکھیں گے اور سب کچھ حاصل کرنے کی دھن میں لگے رہیں گے تو عربی کا مقولہ "طلب الکل فوت الکل” لامحالہ ہم پر صادق آئے گا اور سب کی طلب میں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ بیشتر لوگ اپنی زندگی کی بھاگ دوڑ میں فقید المثال جدوجہد کرتے ہیں، اپنے مشن کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں؛ لیکن اس کوشش میں جن کی نظر اپنے مقصد پر ٹکی ہوتی ہے وہی کامیاب ہوتے ہیں اور جو اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں ہرجگہ چونچ مارنے اور ہر فن مولا بننے کی للک رکھتے ہیں وہ کسی ایک فن یا کسی ایک میدان میں بھی اختصاص اور کمال پیدا نہیں کرپاتے اور اخیر میں صرف وقت کا ضیاع ہاتھ آتا ہے اور ناکامی و نامرادی اُن کا مقدر بنتی ہے۔

      اللہ ہمیں وقت کی قدر و قیمت کو سمجھنے اور اس کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

تبصرے بند ہیں۔