پروفیسر شکیل الرحمن – ہندوستانی جمالیات کا استعارہ

ڈاکٹر شمس کمال انجم

عابد سہیل، زبیر رضوی، ملک زادہ منظور احمد اور جوگندر پال کے بعد بچوں کے بابا سائیں بھی چل بسے۔ بابا سائیں یعنی پروفیسر شکیل الرحمن۔ تین تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر۔سابق مرکزی وزیر۔جمالیات کے امام۔بے شمار کتابوں کے مؤلف، مصنف اور کہانی کار۔

میں نے پروفیسر شکیل الرحمن کا نام سب سے پہلے ماہنامہ شاعر میں دیکھا۔ جولائی ۲۰۱۰ء کے شمارے میں افتخار امام صدیقی نے ان کا گوشہ شائع کیا تھا۔اس شمارے کو پڑھ کر شکیل الرحمن کے علم وفن سے متعارف ہونے کا موقع ملا۔جمالیاتی تھیوری اور اس کے اسرار ورموز کے حوالے سے پروفیسر شکیل الرحمن کی بنیادی خدمات سے واقفیت تو ہوئی، مگر تشنگی برقرار رہی۔ان کی مزید تالیفات وتصنیفات کو حاصل کرنے کی خواہش ہوئی۔ کشمیر سے شائع شدہ ان کی کتاب مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات دہلی کے ایک کتب خانے میں ملی تو اسے ایک ہزار روپیے میں خرید کر لایا اور مطالعہ کیا۔اس کے بعد ان کی اور بھی کتابیں پڑھیں اور جمالیات کے اسرار ورموز کو سمجھنے کی کوشش کی۔شکیل الرحمن نے جمالیات کا کچھ اس طرح تعارف کرایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

قدیم یونانی کہانی کے ’نارکی سس‘ کو سبھی جانتے ہیں۔ خوب صورت نوجوان، ہر صبح تالاب میں اپنا چہرہ دیکھتا۔ اس طرح دیکھتے دیکھتے خود پر عاشق ہوگیا۔ ایک صبح ایسا ہوا کہ تالاب میں اپنے چہرے کے حسن کو دیکھتے دیکھتے اور بھی پاس آگیا۔ گرا اور تالاب میں ڈوب گیا۔ اسی مقام پر ایک خوب صورت پھول پیدا ہوگیا۔ ہم اسی پھول کو نرگس یا نارکی سس کہتے ہیں۔ آسکر وائلد نے اس اساطیری کہانی کے اختتام کا ایک دوسرا ہی رخ پیدا کردیا ہے جس سے کہانی اور معنی خیز بن گئی ہے۔ وہ کہتا ہے جب ’نارکی سس‘ مرگیا تو جنگلوں کی پریاں اس مقام پر آئیں پانی چکھا، تالاب کا میٹھا پانی نمکین آنسوؤں میں تبدیل ہوگیا تھا۔ پریوں نے تالاب کے پانی سے پوچھا ’’تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘ تالاب کے پانی نے جواب دیا ’’میں نارکی سس کے لیے رو رہا ہوں ‘‘ پریوں نے کہا ’’واقعی تمہارے لیے یہ بہت المناک حادثہ ہے۔ بہت بڑا المیہ آنسوؤں کا اس طرح بہنا فطری ہے۔ تمہیں بہت دکھ پہنچا ہے۔ ہم تو نارکی سس کے پیچھے صرف جنگلوں میں دوڑتے رہتے تھے۔ تم تو روز ہی اس کے حسن کو اپنے قریب سے دیکھتے تھے۔ واقعی بہت حسین تھا وہ۔’’کیا واقعی نارکی سس بہت حسین تھا؟ تالاب کے پانی نے حیرت سے دریافت کیا۔ پریوں نے کہا ’’ بھلا تم سے زیادہ کون جانتا ہے کہ وہ بہت خوب صورت نوجوان تھا‘‘ پانی نے چند لمحے سوچا پھر کہا ’’میں یقینا نارکی سس کے لیے رو رہا ہوں لیکن مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ بہت خوب صورت تھا‘‘۔ میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ جب بھی صبح سویرے میرے پاس بیٹھتا اور مجھ میں جھانکتا تو میں خود اپنا حسن اس کی آنکھوں میں دیکھا کرتا تھا‘‘۔

شکیل الرحمن اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یہ ہے جمالیات کہ جس میں ٹریجڈی کی جمالیات بھی جذب ہے۔ یہ انسان کی نفسیات کی باریکی ہے۔ بڑے تخلیقی فنکار کے لیے تالاب معاشرہ ہے۔ وہ اپنے شعور اور لا شعور کے ساتھ اس تالاب کی گہرائیوں میں اترتا ہے۔ اپنے حسن اور اپنے جمال کے ساتھ اس کے المیے کو بھی دیکھتا ہے۔ اس حد تک کہ تالاب یا معاشرہ اور تخلیق کار ایک دوسرے کے لیے آئینہ بن جاتے ہیں۔ تخلیقی فنکار ایسے’ نارکی سس‘ میں جو تالاب یا معاشرے کی سائیکی کے اندر بڑی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں زندگی کا جلال وجمال اور افراد اور معاشرے کی ٹریجڈی صاف جھلکنے لگتی ہے۔ فنکار کی جمالیاتی حسیات جہاں ’نارکی سس‘ کی خوب صورت آنکھوں سے انبساط حاصل کرتی ہیں وہاں تالاب کے آنسوؤں سے بھرے نمکین پانی کو چکھ کر زندگی کی ٹریجیڈی کا عرفان حاصل کرتی ہیں۔ اس کے بعد ہی ان کے جمالیاتی تجربوں کا ڈرامہ شروع ہوتا ہے۔(دیکھیے ماہنامہ شاعر جولائی ۲۰۱۰ء)

پروفیسر شکیل الرحمن نے جمالیاتی تھیوری تک پہنچنے کے لیے بڑی کد وکاوش کی۔ شکسپیر، بلیک، روسو، گیٹے، دوستو وسکی، برگساں، ولیم جمس، مارسل پروست ایڈلر، فرائی، یونگ، رومی، سعدی، حافظ شیرازی، غالب، پریم چند، منٹو، بھٹ نائک، بھٹ لوٹ اور ابھینو گپتا ایسے بہت سارے کلاسیکی ادیبوں، شاعروں اور ڈرامہ نگاروں کو پڑھا، انھیں جذب کرکے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کسی شہ پارے کی جمالیات کیا ہوتی ہے۔ قاری کا احساس جمال ان شہ پاروں کی جمالیات سے کس طرح انبساط حاصل کرتا ہے۔انھوں نے لکھنا شروع کیا اور بس لکھتے رہے۔اساطیر کی جمالیات، مولانا رومی کی جمالیات، جمالیات حافظ شیرازی، امیر خسرو کی جمالیات، محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات، نظیر اکبرآبادی کی جمالیات، کلاسیکی مثنویوں کی جمالیات، تصوف کی جمالیات، مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات، غالب کی جمالیات، ہندوستان کا نظام جمال، بدھ جمالیات سے جمالیات غالب تک (تین جلدیں ) ہندوستانی جمالیات، ہند اسلامی جمالیات، قرآن حکیم جمالیات کا سرچشمہ، محمد اقبال کی جمالیات، فراق کی جمالیات، فیض احمد فیض کی جمالیات، اختر الایمان جمالیاتی لیجنڈ، مجتبی حسین کا فن، جمالیاتی مظاہر، ادب اور جمالیات، بارہ ماسے کی جمالیات پر ان کی بہت وقیع کتابیں منظر عام پر آئیں۔(شکیل الرحمن ڈاٹ کام)

انھوں نے نہ صرف ادبیات کی جمالیات کو کھنگالا اور ان میں غوطہ زنی کی بلکہ فنون لطیفہ پر بھی انھوں نے برسوں کد وکاوش کرکے ہندوستانی جمالیات کے مناظر کو اس طرح دیکھا کہ وہ خود ہندوستانی جمالیات کا نادر استعارہ بن گئے۔بدھ جمالیات سے لے کر غالب جمالیات، فن تعمیر، فن موسیقی، فن مصوری، فن رقص، رگ وید، اپنیشدوں، لوک کہانیوں، اسلامی اور ہند اسلامی جمالیات پر ایسا کام کیا جو بقول شکیل الرحمن کئی آسیبوں کاکام ہے۔شکیل الرحمن نے بدھ جمالیات، کبیر کی جمالیات، اساطیر کی جمالیات، ہندوستانی جمالیات، شاعروں اور ادیبوں کی جمالیات کو موضوع بنایا تو قرآن کریم کو انھوں نے جمالیات کا عظیم تر سرچشمہ قرار دیا۔ وہ لکھتے ہیں : ’’قرآن کریم میں جمالیات بکھری ہوئی ہے۔ رنگ ونور کی بڑی حیرت انگیز دل میں اتر جانے والی تصویریں ہیں۔ جمال زندگی کے جانے کتنے نقوش دکھائے گئے ہیں۔ اللہ ظلمات سے نکال کر نور کی جانب لے جاتا ہے۔ وسیع رحمت والا ہے۔ کائنات اور اس کا جلال وجمال رحمت الہی ہے۔ زندگی حسن، خوشبو، نغمہ، آہنگ سب اللہ کی رحمتوں کی دین میں آسمان وزمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اس رحمت کے دائرے میں ہے‘‘۔

اساطیر کی جمالیات میں لکھتے ہیں کہ’’ اساطیر تخلیقی ذہن کی ہمہ گیر روایت ہے۔ یہ انسان کی بہت بڑی وراثت ہے کہ جس میں قدم قدم پر جبلتوں، آرزوؤں، تمناؤں، حسرتوں، محبتوں، نفرتوں اور قدروں کی شکت وریخت اور ان کی نئی تخلیق کی پہچان ہوتی ہے۔ انسان کے جذبوں کا آزادانہ اظہار ہوا ہے۔ یہ معنی خیز تہ دار اور جہت دار روایت بری خاموشی سے سفر کرتے ہوئے فنون ادبیات میں جذب ہوئی ہے۔ اس کا سفر بہت پر اسرار رہا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم لوگوں کا لا شعور اساطیر کی گہرائیوں میں کتنا ڈوبا ہوا ہے۔ اچھے فنکار اپنے آرٹ میں غیر شعور طور پر اساطیر کی روشنی حاصل کرتے ہیں ‘‘۔

میں نے شکیل الرحمن کو بغور پڑھا۔ میری خواہش ہے کہ عربی ادبیات کے بحر ناپیدا کنار میں بکھرے ہوئے جمالیاتی موتیوں کوتلاش کرکے اردو قارئین تک پہنچایا جائے۔ جاہلی شاعری کی جمالیات، امرؤ القیس کی جمالیات شعر کہ اس میں اسی طرح کی جنسی حسیات کی جمالیات پوشیدہ ہے جیسی کہ شکیل الرحمن نے قلی قطب شاہ کی شاعری میں دریافت کی ہے۔ خانماں برباد شاعروں کی جمالیات، جریر، فرزدق، اخطل ایسے شعری مخاصمتوں سے اموی دور کی چادر ادب پر گلکاری کرنے والے لڑاکو شاعروں کی جمالیات، متنبی، بحتری، ابو نواس، عمر بن ابی ربیعہ، ابن زیدون، ابن ہانی ایسے بے شمار شعراء کی جمالیاتی حسیات کو اجاگر کیا جائے۔ بابا سائیں نے ہند مغل جمالیات میں مشرقی شعریات کی جمالیات کی طرف بھی اختصار سے اشارہ کیا ہے۔ میں نے انہیں پڑھ  کر انہیں خط لکھا جس کاایک اقتباس یوں ہے:

’’آپ کا گوشہ شاعر کے جولائی کے شمارے میں نظر نواز ہوا اور آپ کی فکر وفن کی جمالیات کے بے شمار تہ در تہ اسرار ورموز کو سارے عالم کے لیے وا کردیا۔ بہت سارے لوگ حسن وجمال اور جمالیات کا لفظ استعمال کرتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ جمالیات کی صحیح قدر، جمالیات کا صحیح استعمال، جمالیات کا صحیح انکشاف آپ سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔ہر چند کہ ابھی تشنگی باقی ہے مگر جمالیات کے اسرار تو بہر صورت روشن ہوگئے۔آپ کے گوشے کے مطالعے کے بعد مجھے آپ کی کتابوں کو پڑھنے کا بے انتہا شوق دامن گیر ہوا۔ تلاش بسیار کے بعد مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات ایک کتب خانے میں ملی تواسے فورا میں نے خرید لیا تاکہ جمالیات کے مزیداسرار ورموز سے آشناہوسکوں۔مولانا رومی کی جمالیات، امیر خسرو کی جمالیات، کبیر، نظیر اکبرآبادی کی جمالیات، قلی قطب شاہ کی جمالیات اور فراق کی جمالیات وغیرہ کتابیں دیکھنے کا شوق ہے۔ آپ کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ عربی ادبیات کی جمالیات پر بھی اسی انداز کا کام کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات میں عربی ادبیات کے حوالے سے بھی مختصر سی گفتگو کی ہے۔ البتہ جن ادباء اور شعراء کے نام اس میں وارد ہوئے ہیں ان سب میں پروف کی خامی ہے۔ آپ کے کام اور آپ کی شخصیت کو دیکھ کر بے انتہا حیرت ہوئی۔ سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں آپ جمالیات کے امام کہے جانے کے مستحق ہیں ‘‘۔

پروفیسر شکیل الرحمن کے علم وفن پر کئی رسالوں نے گوشے شائع کیے۔ جن میں ماہنامہ شاعر بمبئی، ماہنامہ انشاء کلکتہ، مجلہ روشنائی کراچی قابل ذکر ہیں۔ کئی معتبر نقادوں نے کتابیں لکھ کر شکیل الرحمن کے جمالیاتی اسرار کو عالم آشنا کرانے کی کوشش کی۔ جن میں شکیل الرحمن کا جمالیاتی وجدان، حقانی القاسمی۔شکیل الرحمن ایک لیجنڈ، شعیب شمس۔شکیل الرحمن اور مولانا رومی کی جمالیات، محمد صدیق نقوی۔ شکیل الرحمن تنقیدی دبستان کا ایک منفرد دبستان، اقبال انصاری۔شکیل الرحمن کی غالب شناسی، مسعود ہاشمی۔شکیل الرحمن اردو تنقید کا نیا وزن، محمد صدیق نقوی کی کتابیں قابل ذکر ہیں۔ شکیل الرحمن کی جمالیاتی حس پراتنا سب کچھ لکھے جانے کے باوجود بقول شیخ عقیل ان کی’’ تنقیدی جمالیات کو کما حقہ ابھی تک کسی نے دریافت نہیں کیا ہے۔ شاید کم ظرف صوفیوں کی طرح ان کے نقاد بھی راہ مقام میں بھٹک جاتے ہیں ‘‘(ادب اور جمالیات)

پروفیسر شکیل الرحمن کے نام اورکام کو دیکھ کر قاری حیرت واستعجاب کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے۔جس قدر وقیع ان کا علمی کارنامہ ہے اسی قدر ان کی ایڈمنسٹریٹو لائف بھی بڑی قابل رشک رہی ہے۔ بہار کی دھرتی سے نکل کر وادی گل پوش میں قدم رکھا تو آخری دم تک دانش گاہ کشمیر کو سجاتے سنوارتے رہے۔اردو شعبے میں لیکچرر بنے۔ریڈر پروفیسر ہوئے۔ صدر شعبہ بنے۔آرٹس فیکلٹی اور فیکٹی آف اورینٹل اسٹدیز کے ڈین ہوئے۔ سنٹر آف سینٹرل ایشین اسٹیز کے بھی قائم مقام ڈین بنے۔ اس کے بعد کشمیر یونیورسٹی، بہار یونیورسٹی، متھلا یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ لوک سبھا کے ممبرہوئے۔ مرکزی وزرات کا عہدہ سنبھالا۔ سنٹرل حج کمیٹی کے ممبر بنے۔ شاعر کے معاون مدیر رہے۔ غرضیکہ شکیل الرحمن نے جس میدان میں قدم رکھاوہاں اپنا جلوہ دکھایا۔ اپنے عشق کے جذبے سے اسے اوج کمال تک پہنچاکر دم لیا۔

تبصرے بند ہیں۔