پھر آمدِ بہار ہے!

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

 کچھ ہی دنوں میں "رمضان” کا مقدس اور بابرکت مہینہ آنے والا ہے،جو اپنی گوناں گوں فضیلتوں اور متعددخصوصیتوں کی وجہ سے جملہ مہینوں پر فوقیت وبرتری رکھتاہے۔ یہ وہ ابررحمت ہے جو تشنگان ِ مغفرت پر جھوم جھوم کر برستاہے، یہ وہ عظیم نعمت ہے جس کی قدردانی کرنے والا کبھی محروم و مایوس نہیں ہوتا،یہ وہ بیش قیمت خزینہ ہے ؛جس سے بندۂ مومن اپنے اپنے ظرف کے مطابق ذخیرہ اندوزی کرتاہے، یہ وہ آب حیات ہے جس کے پینے والوں کو نئی زندگی عطاء ہوتی ہے، نورانیت و روحانیت  میں اضافہ ہوتاہے اور ایک نیا حوصلہ، تازہ ولولہ اور عبادت کا جوش وخروش نصیب ہوتاہے۔ ماہِ رمضان المبارک کا آغاز در حقیقت مسلمانوں کے لئے موسم بہار کی آمد ہے یہ ضیافت الہی کا مہینہ ہے، اس مہینے میں وہی افراد ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھنے کا شرف حاصل کر پاتے ہیں جو اس مہمانی کے قابل ہیں۔

رمضان کا یہ دسترخوان، اللہ تعالی کے دسترخوانِ کرم سے مختلف ہے، اللہ پاک کا عمومی لطف و کرم تمام انسانوں ہی نہیں ؛بلکہ تمام مخلوقات کے لئے ہے اور سب کے سب اس سے بہرہ مند ہو رہے ہیں ؛مگراس ضیافت کا نداز نرالاہے،اس کایہ دسترخوان خاصان خدا اور قدردانوں کے ساتھ مخصوص ہے۔

ماہِ رمضان کی فضیلت :

ماہِ رمضان المبارک کی دوسرے مہینوں پرفضیلت و فوقیت مختلف اعتبار سے ہے؛جن کا احصاء تو مشکل ہے تاہم کچھ کا یہاں ذکر کیاجاتاہے۔

 1:قرآنِ مقدس میں اللہ تعالی نے مہینوں کی مقدار اور گنتی بیان فرمائی اور ساتھ میں تعیین کیے بغیر یہ بھی فرمایا کہ  ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ؛مگر ماہِ رمضان المبارک کا موقع آیا تو صراحت کے اس کا نام ذکر فرمایا باقی کسی بھی مہینے کا نام صراحت کے ساتھ نہیں لیاگیا۔

2:ماہِ رمضان میں قرآنِ مقدس کا نزول ہوا جیسا کہ سورۂ بقرہ میں مذکور ہے:رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا۔

3:اسی ماہ میں شبِ قدر ہے،جیساکہ جمہور کا موقف ہے؛ جس کا قیام (عبادت و شب بیداری) ہزار مہینوں کے قیام سے بہتر ہے۔

4:رب کریم کی خصوصی عنایت سےاس ماہ میں نیکیوں کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔

5:نفل کا ثواب فرض کے برابراور فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ہوجاتا ہے۔

6:جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں۔

7:آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور بندوں کی جائز دعائیں بابِ اجابت تک بالکل آسانی کے ساتھ پہنچ جاتی ہیں۔

ان کے علاوہ تاریخی حیثیت سےدیکھاجائےتب بھی یہ مہینہ نہایت اہمیت کاحامل معلوم ہوتاہے، مثلاًحضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کے صحیفے اسی ماہ کی ایک تاریخ کو نازل ہوئے۔ توریت کا نزول اسی ماہ کی ۶؍تاریخ کو ہوا۔ انجیل بھی اسی ماہ کی ۱۳؍تاریخ کو نازل ہوئی۔ خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کا وصال اسی ماہ کی ۳؍تاریخ کو ہوا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا وصال اسی ماہ کی ۱۷؍تاریخ کو ہوا۔ تاریخ اسلام کی سب سے پہلی اور عظیم جنگ، جنگِ بدر اسی ماہ کی ۱۷؍تاریخ کو لڑی گئی۔ فتحِ مکہ کا تاریخ ساز واقعہ اسی ماہ کی ۲۰؍تاریخ کوپیش آیا۔ حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی شہادت اسی ماہ کی ۲۱؍تاریخ کو ہوئی۔ وغیرہ

خطبۂ رسالت مآبﷺ :

اللہ جل شانہ نے ہماری سہولت کے لیےرغبت دلانے کی خاطر اپنے حبیب ﷺکی زبانِ حق شناش سےاس ماہ مقدس کے تئیں بعض ایسی ہدایتیں ہمیں عطافرمائی ہیں جوہماری باطنی ترقی میں اضافہ کا باعث ہیں۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، شعبان کا آخری دن ہے، ا ﷲ کے آخری نبیﷺ منبر پر تشریف فرما ہیں ، اور ارشاد فرمارہے ہیں :

’’ اے لوگو! تمہارے سروں پر ایک بابرکت اور عظیم الشان مہینہ سایہ ڈال چکا ہے، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے، اﷲ نے اس کاروزہ فرض اور اس کی رات میں نماز کو نفل قراردیا ہے، اگر کوئی اس میں نفل ادا کرکے اﷲ کا قرب حاصل کرتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسے اس ماہِ مبارک کے علاوہ میں فرض ادا کرنے والاہو، اور جو کوئی اس میں فرض ادا کرتا ہےوہ ایسا ہے جیسے اس کے علاوہ کسی ماہ میں ستّر فرض ادا کیا ہو۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ غمخواری کا مہینہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے۔ جس نے اس ماہ میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا اس کے گناہوں کی مغفرت ہے، اور اسے جہنم سے رہائی کی بشارت ہے، اور اس کے لئے وہی ثواب ہے جو روزہ دار کو ہے، مگرروزہ دار کا ثواب کچھ کم نہ ہوگا۔

پوچھنے والوں نے پوچھ لیا کہ یارسول اﷲ! ہر ایک کو اتنی وسعت کہاں کہ روزہ دار کو افطار کرائے؟ ( اس سوال پر رحمت کا دامن پھیل گیا) ارشاد ہوا، یہ ثواب اس شخص کو بھی ملے گا جوایک کھجور کھلاکر، ایک گھونٹ پانی یا لسّی پلاکر افطار کرادے۔ یہ مہینہ! اس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے، اور آخری حصہ جہنم سے نجات ہے۔ اس ماہ میں جس نے اپنے خادم کے کام میں تخفیف کردی، اﷲ تعالیٰ اس کو گناہوں کے بوجھ سے ہلکا کردیں گے اور جہنم سے آزاد فرمائیں گے۔

اس مہینہ میں چار کام کثرت سے کرو، دوکام وہ ہیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرلو گے، اور دوکام ایسے ہیں جن سے تم بے نیاز اور بے پرواہ نہیں ہوسکتے، وہ کام جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو،وہ یہ ہیں لاالٰہ إلااﷲ کی گواہی دو،اور اس سے مغفرت مانگو۔ اور وہ کام جن سے تم کو بے نیازی نہیں ہوسکتی، وہ یہ ہے کہ اﷲ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے اس کی پناہ چاہو۔ جس نے روزہ دار کو پانی پلایا، اس کو اﷲ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا پانی پلائیں گے کہ جنت میں داخل ہونے تک (میدان قیامت کی شدید گرمی میں ) پیاس نہیں لگے گی۔ ( ابن خزیمہ)

اس ارشاد گرامی میں فضائل بھی ہیں اوربشارتیں بھی، احکام بھی ہیں اورانعام بھی۔ ایمان والے ان فضائل کے لئے، ان بشارتوں کے لئےاور ان احکام کے لئے سینہ کھول دیں اور شوق ورغبت سے انھیں قبول کریں ، رمضان کا مہینہ پورے سال کا مرکزی مہینہ ہے، یہ ماہ مبارک، اطمنان و یکسوئی کےساتھ عبادات میں گزرگیا، تو پورا سال روشن اورمنور رہے گا؛لیکن اگر اس میں کوتاہی اور سستی ہوئی توپھر اس کےاثرات پورے سال پر پڑیں گے۔

استقبال رمضان کس طرح کریں ؟:

ماہ رمضان کے سلسلے میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان ایسے بے شمار علل و اسباب میں گھرا ہوا ہے جو اسے ذکر الہی سے غافل اور راہ پروردگار سے منحرف کر دیتے ہیں ،گوناگوں خواہشیں اور جذبات اسے پستی و تنزلی کی جانب ڈھکیلتے ہیں۔ رمضان کی آمد پر انسان کو ایک موقع ملتا ہے کہ اپنی روح کو بلندیوں کی سمت لے جائے، قرب الہی حاصل کرے اور اخلاق حسنہ سے خود کو آراستہ کر لے۔ ایک طرف دن  کے روزےاور رات کا قیام، دوسری طرف تلاوت کلام پاک کی  لذت وحلات اور اس کے علاوہ اس مہینے کی مخصوص دعائيں انسان کے نفس کو پاکیزہ اور اس کے باطن کو طاہر بنا دیتی ہیں۔ ہر سال کا ماہ رمضان بہشت کے ایک ٹکڑے کی حیثیت سے ہماری مادی دنیا کے تپتے صحرا میں اتار دیا جاتا ہے اور ہم اس مبارک مہینے میں ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھ کر جنت کے موسم بہاراں سے آشنا اور لطف اندوز ہونے کا موقع پاتے ہیں۔ چوں کہ ہر چیز کی تیاری اُس کے آنے سے پہلے ہوتی ہے، مثلاً مہمان کی آمد ہو تو اُس کے آنے بعد نہیں ، آنے سے پہلے تیاری ہوتی ہے، اِسی طرح رمضان بھی مؤمن کے لئے ایک بہت ہی اہم اور معزز مہمان ہے، اُس کی قدر دانی کے لئے بھی پہلے سے ذہنی اور عملی طور پر تیار ہونا چاہیئے۔

مولانا مفتی سلمان زاہدؔ لکھتے ہیں کہ رمضان کی تیاری دو اعتبار سے ہونی چاہیے :(1)دنیاوی اعتبار سے۔ (2)دینی اعتبار سے۔

دنیاوی اعتبار سے: اِس طرح کہ دنیاوی مشاغل و مصروفیات سے اپنے آپ کو جس قدر بھی فارغ کرسکتے ہوں کرلیں ، تاکہ رمضان المبارک کا مہینہ مکمل یکسوئی کے ساتھ عبادت اور رجوع الی اللہ میں گزارا جاسکے۔ اِس کے لئے چند اہم تجاویز ذکر کی جارہی ہیں ، اِن کی مدد سے ان شاء اللہ اپنے آپ کو رمضان کے لئے فارغ کیا جاسکتا ہے:

٭……عید کی تمام شاپنگ شعبان المعظم میں ہی کرکے فارغ ہوجائیں ، کیونکہ رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں کو شاپنگ مال اور مارکیٹس کے نذر کرنا، بالخصوص جبکہ اُس کی وجہ سے روزہ، نمازیں اور تراویح کی نماز متاثر ہوتی ہو یہ رمضان جیسے عظیم اور بابرکت کی بڑی ناقدری ہے، جس میں عوام و خواص بہت سے لوگ مبتلاء نظر آتے ہیں۔

٭……راشن اور گھر کا دیگر سودا سلف جو روز مرّہ کے معمولات میں خریدا جاتا ہے، وہ رمضان المبارک ہی میں جہاں تک ممکن ہو ایک ساتھ ہی خرید کر فارغ ہوجائیں تاکہ رمضان المبارک میں یکسوئی حاصل ہوسکے۔

٭……جو کام رمضان المبارک میں موقوف کیے جاسکتے ہوں اُنہیں موقوف کردیجئے۔ ہم اگر اپنے کاموں کا جائزہ لیں تو بہت سے ایسے کام نظر آئیں گے جنہیں اگر ایک مہینے تک ہم نہ کریں تو کوئی حرج لازم نہیں آئے گا، مثلاً اخبار بینی، دوستوں کے ساتھ گپ شپ، ٹی وی دیکھنے اور انٹر نیٹ استعمال کرنے کی مصروفیت، سیل فونز پر کی جانے والی بہت سی فضول اور لا یعنی مشغولیت، آؤٹنگ کے نام پر کی جانے والی پکنک اورتفریحات، ویک اینڈ منانے کے لئے فوڈز پوائنٹ پر جانا، یہ اور اِس جیسے اور بھی بہت سے ایسے کام ہیں جن میں بہت سے فضول اور لغو ہیں اور بہت سے گناہ کے زمرے میں آتے ہیں ، ان سب سے بچنا ضروری ہے اور رمضان المبارک میں ایسے کاموں سے اجتناب کرنااور بھی ضروری ہے۔

٭……سال بھر میں دفتر اور ملازمت سے ملنے والی ایسی چھٹیاں جن کو آپ کسی بھی استعمال کرسکتے ہوں اُن کو اِستعمال کرنے کے لئے رمضان المبارک کے مہینے سے بہتر کوئی وقت نہیں ، ایسی چھٹیوں کو رمضان میں استعمال کیجئے تاکہ خوب یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ صرف ایک کام یعنی عبادت اور رجوع الی اللہ کیا جاسکے۔

دینی اعتبار سے: رمضان کی تیاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شعبان المعظم کے مہینے میں ہی اپنے دن اور رات کے معمولات کو کچھ اِس طرح ترتیب دیجئے کہ فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات کا بھی خوب اہتمام ہونا شروع ہوجائے،پانچوں فرض نمازوں کو جماعت کے ساتھ مسجد میں اداء کیجئے، قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کریں ، نفلی نمازیں : اِشراق، چاشت، اوّابین اور تہجد وغیرہ کا اہتمام شروع کردیں اور خوب دعائیں مانگنے کی کوشش کریں ، اور اِس کے لئے قرآن و حدیث کی دعاؤں کا ایک بہترین مجموعہ”مُناجاتِ مقبول “ جس کو حضرت حکیم الامت تھانوی ﷫نے سات منزلوں پر تقسیم کرکے جمع کیا ہے تاکہ ہفتہ وار اُنہیں بآسانی مانگا جاسکے، اُس کو روزانہ پڑھنے کا معمول بنائیں۔ ( ماہ شعبان کے فضائل و اعمال)

یاد رکھئے ! دینی اور دنیاوی اعتبار سے رمضان کی تیاری کا مطلب شعبان میں ہی تیاری کرنا ہے؛کیو نکہ ہلالِ رمضان کے نکلنے کے بعد تیاری کرتے کرتے کافی وقت لگ جاتا ہے، اور پھر اُن معمولات کی عادت بنتے بنتے بھی دیر لگتی ہےاور اِسی میں رمضان المبارک کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے، اِس لئے جو بھی تیاری کرنی ہے وہ آمدِ رمضان سے قبل ہی کرکے فارغ ہوجائیں۔

خلاصۂ کلام:

وہ لوگ بڑے ہی خوش نصیب، خوش قسمت اور سعادت مند ہیں جنہیں اللہ رب العالمین اْن کی زندگی میں امن و ایمان، صحت و سلامتی اور اسلام کے ساتھ رمضان کا یہ آنے والا مہینہ مزید عطا فرمادے اور وہ مکمل شعور واخلاص کے ساتھ کر اِس مبارک اور عظیم مہینے کے ذریعے اللہ کی رحمتِ خاص، اْس کی مغفرت و بخشش، جہنم کی آگ سے نجات اور جنت کی عزت والی زندگی کے حصول کیلئے اللہ کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقے اور سنت کے مطابق محنت و مشقت اور جدوجہد کرے۔ لہذا ہم اس ماہ مبارک میں سستی اور غفلت کو ترک کریں ، طاعت وعبادت کے لئے مستعد رہیں ، شوق اور اہتمام سے تمام حقوق کی ادائیگی کے ساتھ روزے رکھیں ، تراویح میں شریک رہیں ، تلاوت قرآن کا التزام کریں ، کثرت سے کلمۂ طیبہ کاورد اور مسلسل استغفار کریں ، اﷲ سے جنت کا سوال کریں او رجہنم سے خدا کی پناہ چاہیں ، پھر دنیامیں بھی ہمارے لیےنور ہےاور آخرت میں بھی ہم کامیاب وکامراں ہوں گے۔

اللہ پاک توفیق عمل نصیب فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔