چودھویں شب کی سنہری چاندنی مہنگی پڑی 

مقصود اعظم فاضلی

چودھویں شب کی سنہری چاندنی مہنگی پڑی
ہم کو تو اک اجنبی سے دوستی مہنگی پڑی

دیکھتے ہی دیکھتے گھر نذرِ آتش ہو گیا
اک ذرا سی آرزوئے روشنی مہنگی پڑی

ایک اک پل کا غموں نے لے لیا مجھ سے حساب
جو مقدر سے ملی وہ ہر خوشی مہنگی پڑی

پتھروں کی مہربانی سے بدن ہے چور چور
عشق میں اے دل تری وارفتگی مہنگی پڑی

ہو گیا سارے جہاں کے درد سے دل آشنا
اعظمِ آشفتہ سر کو شاعری مہنگی پڑی

تبصرے بند ہیں۔