چودھویں شب کی سنہری چاندنی مہنگی پڑی
مقصود اعظم فاضلی
چودھویں شب کی سنہری چاندنی مہنگی پڑی
ہم کو تو اک اجنبی سے دوستی مہنگی پڑی
…
دیکھتے ہی دیکھتے گھر نذرِ آتش ہو گیا
اک ذرا سی آرزوئے روشنی مہنگی پڑی
…
ایک اک پل کا غموں نے لے لیا مجھ سے حساب
جو مقدر سے ملی وہ ہر خوشی مہنگی پڑی
…
پتھروں کی مہربانی سے بدن ہے چور چور
عشق میں اے دل تری وارفتگی مہنگی پڑی
…
ہو گیا سارے جہاں کے درد سے دل آشنا
اعظمِ آشفتہ سر کو شاعری مہنگی پڑی
تبصرے بند ہیں۔