ڈرامہ علامہ: ایک مطالعہ

محمد شاداب شمیم

(ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی)

بلاشبہ غالب اور علامہ اقبال اردو زبان و ادب کی وہ مایہ ناز شخصیات ہیں جن پر سب سے زیادہ تحقیقی اور تنقیدی کا م ہوا ہے، ان کے کلام کی جانچ پرکھ مختلف زاویے سے محققین و ناقدین نے کیا ہے، ان کے دیوان کی مختلف شروحات ملتی ہیں، اور ہر شرح کی اپنی اہمیت ہے، یہ ان کے کلام کی خصوصیا ت ہی ہے کہ تقریبا ڈیڑھ سو برس کا عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی ان کے کلام کی شیرینی اور لطافت و نزاکت ابھی تک برقرار ہے، اور جس طرح اس وقت ان کے کلام کو ذوق وشوق سے پڑھا جاتاتھاآج بھی وہ ذوق وشوق اور جذبہ برقرار ہے۔

علامہ اقبال کے کلام پر ان کے زمانے میں بھی بہت کچھ لکھا گیا، اور ان کے بعد تو ان پر اور ان کے کلام پر لامتناہی تحقیق و تنقید کا سلسلہ شروع ہواجو آج تک جاری ہے، ان کے کلام کی الگ الگ انداز سے تشریح کی گئی، اور ہر شارح نے ان کے کلام کی خوبصورت تشریح و توضیح پیش کی ہے، اور غور و فکر کے نئے نئے در واکیے ہیں، علامہ کی شاعری کی طرح علامہ کا نثر ی سرمایہ بھی خاصا اہمیت کا حامل ہے، یہ اور بات ہے کہ جتنی توجہ ان کی نثر کو ملنی چاہیے تھی اتنی نہیں ملی، بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ ان کی شہرت و مقبولیت ان کی شاعری کی وجہ سے ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کو شاعر مشرق کہاجاتا ہے۔

علامہ اقبال کے کلام کی تشریح سماجی، سیاسی، تہذیبی، مذہبی اور معاشرتی ہر اعتبار سے کی گئی ہے اور ان کے اشعار کے مختلف نکات و خصوصیات نکالے گئے ہیں، ان پر تحقیقی اور تنقیدی کتابیں ہزاروں کی تعداد میں مختلف زبان میں لکھے گئے ہیں، نیز ان کی شخصیات کا مختلف طریقوں اور زاویوں سے مطالعہ کیا گیا ہے، لیکن علامہ کی خانگی زندگی کے سلسلے میں بہت کم مواد ملتا ہے، ان کی گھریلو زندگی، رہن سہن، گھر کاماحول، طرز زندگی، بود وباش، دوستوں کی محفل وغیرہ کا ذکر یکجا بہت کم ملتاہے۔

اردو کی مختلف مشہور و معروف شخصیا ت پر نہ صرف یہ کہ ڈرامے لکھے گئے بلکہ ان کو اسٹیج پر پیش بھی کیا گیا ہے، اور ان کو قارئین و ناظرین نے کافی پسند بھی کیا ہے، غالب، بہادر شاہ ظفر، داغ اور مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ پر ڈرامے لکھے گئے اور وہ کافی مقبول بھی ہوئے ہیں، لیکن علامہ اقبال کی زندگی پر’’ ـعلامہ‘‘ ڈرامہ سے پہلے کوئی ڈرامہ تحریر نہیں کیا گیا، علامہ اقبال کی خانگی زندگی پر ڈرامہ’’ علامہ‘‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ذہین، محنتی اور ادبی حلقوں میں متحرک اور فعال ریسرچ اسکالر صالحہ صدیقی نے تحریر کیا ہے، حالانکہ ڈرامہ نہ تو ان کے پی ایچ ڈی کاموضوع ہے اور نہ ہی اس سے پہلے انہوں نے کوئی ڈرامہ لکھا ہے لیکن اس کے باوجو د انہوں نے ایک خوبصورت ڈرامہ تحریر کیا ہے جو کہ ان کی تخلیقی بصیرت اور ذہنی و فکری صلاحیت پر دال ہے، اس ڈرامہ کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح ایک پرندہ اپنا گھونسلہ بنانے کے لیے ایک ایک تنکے کو چنتا ہے اور پھر بڑے سلیقے سے تنکے کو ترتیب دیتا ہے تب جاکر ایک خوبصورت گھونسلہ بنتا ہے بالکل اسی طرح صالحہ صدیقی نے بھی علامہ اقبال پر لکھی گئی تحقیقی کتابوں کا باریک بینی سے مطالعہ کیا اور ان کی خانگی زندگی کے متعلق جو مواد ان کو ملا اس کو انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ایک اچھوتے پیرائے میں ڈھال کر قارئین کے سامنے پیش کردیا۔

ڈرامہ علامہ پہلی بار ۲۰۱۵ میں شائع ہوا تھا اور یہ اس کا نظر ثانی شدہ دوسراایڈیشن ہے، اور یہ اس کتاب کی مقبولیت کی دلیل ہے کہ ایک سال کے قلیل عرصے میں ہی اس کا دوسرا ایڈیشن آگیا، اس کتاب کا دیباچہ مشہور افسانہ نگار و نقاد مرزاحامد بیگ نے تحریر کیا ہے، اس میں انہوں نے علامہ کی خانگی زند گی پر مختصر روشنی ڈالی ہے، اور اس ڈرامہ میں علامہ اقبال کی زندگی کے متعلق پیش کیے گئے مختلف حادثات و واقعات کوانہوں نے تحقیقی اعتبار سے صحیح ٹھہرایا ہے۔ تقریظ ڈاکٹر طاہر حمید تنولی نے لکھاہے جس میں انہوں نے مصنفہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرامہ علامہ میں علامہ کے فکر کے کسی مشکل پہلو کو موضوع بحث بنانے کے بجائے علامہ کی ذاتی اور خانگی زندگی کو مو ضوع بحث بنایاگیاہے اور یہ ایسا موضوع ہے جس کے متعلق عام طور پر لوگ زیادہ دلچسپی سے بات کر تے ہیں نیز انہوں نے لکھا ہے کہ یہ مصنفہ کا بڑا کمال ہے کہ اس نازک پہلو کو بیان کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ علامہ کا فنی اور شعری پہلو نظر انداز نہ ہو۔

سات صفحے کے پیش لفظ میں مصنفہ نے علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی پر مختصر مگر جامع روشنی ڈالی ہے، نیز اس موضوع پر ڈرامہ لکھنے کا خیال ان کے ذہن میں کیسے اور کیوں کر آیااس کو بھی بیان کیا ہے، ـوہ لکھتی ہیں ’’شاعر مشرق علامہ اقبال کی نظموں کو پڑھ کر ان کی زندگی کو قریب سے جاننے کا موقع ملا، مجھے ان کی نظموں کے ذریعے ان کی شاعری میں ان کا درد، ان کی حب الوطنی اور ان کی زندگی کے نشیب و فرازخصوصا اسلام کے نشاۃ ثانیہ کو سمجھنے کا موقع ملا، اقبال کی نظموں کو پڑھنے کے بعد اس عظیم شاعرکی زندگی کے کچھ حصوں کو میں نے ڈرامے کی شکل دی ہے‘‘، علامہ اقبال  کے کلام کو پڑھ کربالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ خانگی طور پر اس طرح پریشان رہے ہوں گے یا اس طرح کے ذہنی کر ب سے دوچار رہے ہوں گے، ان کے کلام کی آفاقیت اور شہرت و بلندی اپنی جگہ، لیکن ظاہرہے کہ ہر انسان کی اپنی پرسنل اورخانگی زندگی ہوتی ہے اور ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں، اسی اتار چڑھائو اور خوشی وغم کو مصنفہ نے خوبصورت سانچے میں ڈھال کر یہ ڈراماترتیب دیا ہے، پیش لفظ میں ڈراما نگاری کے ارتقائی سفر کو بھی مختصرا بیان کیا گیا ہے، اور واجد علی شاہ سے لے کر موجودہ دور تک کے مختلف ڈرامانگاروں کی فہرست دی گئی ہے جس سے کہ ڈراما کے رفتہ رفتہ ارتقا کا اندازہ ہوتا ہے۔

چند باتیں کے عنوان سے مشہور و معروف ڈراما نویس شمو ئل احمد نے مصنفہ کی تخلیقی کاوش کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ’’صالحہ صدیقی نے علامہ اقبال کی زندگی کے ایک ایسے پہلو پر اپنے قلم کو جنبش دی ہے جس پر اقبال شناسی کے صاحب قلم حضرات بھی لکھتے ہوئے گھبراتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اقبال سے متعلق اس پہلو پر یا تو اہل قلم نے کچھ بھی تحریر کرنے سے گریز کیا یا یکسر نظر انداز کردیا، لیکن صالحہ صدیقی نے شاعر مشرق کی زندگی کے اس ان چھوئے پہلو پر تنقید و تنقیص کے بجائے اپنی تخلیقی صلاحیت کو بروئے کا ر لاکر ان پر علامہ کے نام سے ایک ڈراما تشکیل دیا ہے جو یقینا اقبالیات میں ایک اہم خوش کن اضافہ ہوگا‘‘۔

علامہ ڈرامہ کو سات مناظر میں ترتیب دیا گیا ہے اور ہر منظر حسین اور دلکش نظارہ پیش کر تا ہے، ۱۹۰۵ ستمبر سے اس ڈرامے کی کہانی شروع ہوتی ہے، اسٹیج کا پہلا منظر بہت دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے، پہلا منظر اس طرح ہے’’ایک لڑکی آرام کرسی پر نیم دراز لیٹی ہے بیک گرائونڈ سے موسیقی کی آواز آ رہی ہے، ظفر کی غزل کوئی سنا رہا ہے جس کاشعرــ’’۔ ۔ دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں۔ ۔ ‘‘اس کے بعد اقبال اور ان کی پہلی بیوی کریم بی کے درمیان ہلکی پھلکی نوک جھونک کو دکھایا گیا ہے جوکہ کھانابنانے کے سلسلے میں ہوتی ہے، اقبال کی پہلی بیوی ایک باحیثیت خاندان سے تھیں اور وہاں ان کے ناز و نکھڑے اٹھانے کے لیے باندیاں تھیں، اپنے والد کے گھر زندگی عیش کوشی میں گذری، اور ہر خواہش پوری کی گئی، مگر جب وہ اقبال کے گھر آئیں تو ان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، انہوں نے اپنے گھر میں کبھی کھانا نہیں بنایا مگر یہاں انہیں لکڑیوں سے کھانا بنانا پڑتاتھااسی نوک جھونک کو مصنفہ نے اس طرح پیش کیا ہے’’میرا تو دم گھٹتا ہے باورچی خانے کے دھوئیں میں، آپ کے ساتھ بندھ کر میں اپنے دیدے پھوڑ رہی ہوں، گجرات کے عطا محمد خان کی بیٹی جس کی جوتیاں بھی سیدھی کرنے کے لیے باندیاں لگی رہتی تھیں، آج اسی کے ہاتھوں پر پھپھولے پڑ رہے ہیں روٹیاں سینک سینک کر، اگر ابو کو پتا چلے گا تو ہائے۔ ۔ ‘‘اس طرح کے نوک جھونک میں الفاظ و جملوں کی ادائیگی کس طرح ہونی چاہیے اس کامصنفہ نے خاص خیا ل رکھا ہے، عورتیں ایسے مواقع پر ایک مخصوص انداز میں لعن طعن کرتی ہیں، اس انداز بیان کو بہت ہی خوبصورتی  سے پیش کیا گیا ہے۔

دوسرا منظر اس طرح شروع ہوتا ہے کہ علامہ اپنی ایک خوبصورت نظم اپنے گھر میں کچھ لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور سب لوگ سبحان اللہ اور الحمدللہ کے ذریعہ داد دے رہے ہیں، اور یہ وہ وقت ہے جب علامہ کی پہلی بیوی ان سے ناراض ہوکر اپنے والد کے گھر چلی گئی اور علامہ کی زندگی میں تنہائیاں ہی تنہائیاں رہ گئی تھیں، علامہ کی تنہائی اور ان کی اداسی بھری زندگی سے نجات دلانے کے لیے ان کے دوست عبدل نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ دوسری شادی کرلیں تاکہ آپ کی ویرا ن زندگی خوشیوں سے بھر جائے ’’آپ کا دل کیسے لگتا ہے، گھبراہٹ نہیں ہوتی اس اکیلے پن سے؟کافی عرصے سے ایک نوکر کے ساتھ زندگی کے بے رنگ لمحوں کے ساتھ جیتے ہوئے، نہ بولنے کے لیے کوئی، نہ کوئی بات کرنے والا، آپ کس طرح اپنی زندگی گذار رہے ہیں، کیا آپ کو یہ اکیلا پن کاٹنے کو نہیں دوڑتا؟‘‘اس طرح عبدل علامہ کو دوسری شادی کے لیے راضی کر لیتے ہیں، اور علامہ کا نکاح سردار بیگم سے ہو جاتا ہے، لیکن رخصتی نہیں ہوتی ہے، اس منظر کا جو آخری جملہ ہے وہ واقعی بہت دلچسپ ہے اور قارئین کی جستجو کو بڑھا دیتا ہے کہ آگے کیا ہوگا، ’’اقبال مستقبل کے سنہرے خواب سجائے انتظار کر تے رہتے ہیں۔ ۔ لیکن ہونی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ‘‘۔

تیسرا، چوتھا اور پانچواں منظر بھی کا فی دلچسپ ہے اور علامہ کی خانگی زندگی کے مختلف حادثات و واقعات کا احاطہ کرتا ہے، الفاظ و جملوں کی نشست و برخواست قابل دید اور لائق تحسین ہے، روز مرہ میں استعمال ہونے والے الفاظ اور چھوٹے چھوٹے جملوں کے ذریعے ایسی خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے کہ قارئین کی دلچسپی و جستجو ہر صفحے کے بعد بڑھتی چلی جاتی ہے، لیکن ڈرامہ علامہ کا چھٹا منظر اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں اقبال اور ملکئہ برطانیہ کے نمائندوں کے درمیان جو گفتگو ہوتی ہے وہ انگریز ی زبان میں ہے، اس منظر سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مصنفہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھی قدرت رکھتی ہیں، یہ نمائندے اقبال کو سر کا خطاب دیے جانے کی اطلاع دینے کے لیے آئے تھے، اس گفتگو کو اردو زبان میں بھی لکھاجاسکتا تھا لیکن حقیقت حال کو بیان کر نے کے لیے اور منظر کو حقیقی روپ دینے کے لیے اس طرح کا انداز بیان ضروری تھا۔

ساتویں اور آخری منظر میں اقبال کی زندگی کے آخری لمحات کو پیش کیا گیا ہے، ا ن کی صحت تقریبا چار سالوں سے مسلسل خراب چل رہی تھی، متعدد بیماریوں کی وجہ سے وہ کافی پریشان رہتے تھے، کھانسی اتنی زیادہ تھی کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کلیجہ منہ کو آجائے گا، آنکھوں کی روشنی سے بھی وہ تقریبا محروم ہو گئے تھے کمر کا درد تھا کہ ان کو ہر وقت پریشان کیے رہتا تھا، عمر کے آخری پرائو میں اقبال کی یادداشت کافی کمزور ہو گئی تھی، یہاں تک کہ ان کو کھا نا پینا بھی یاد نہیں رہتا تھا، اقبال اپنے خادم علی بخش سے عشاء کے وقت معلو کرتے ہیں کہ انہوں نے صبح سے کچھ کھایا ہے کہ نہیں، ’’اچھا علی بخش دماغ پر ایک دھواں سا چھارہا ہے، کچھ بھی یاد نہیں رہتا، علی بخش بتائو میں نے صبح سے کچھ کھایا یا نہیں ‘‘؟اقبال کو یقین ہو گیا تھا کہ اب دار فانی سے جانے اور مالک حقیقی سے ملنے کا وقت قریب ہے، اسلیے اپنے بیٹے جاوید کو وہ نصیحت کر تے ہیں کہ میرے بعد بالکل گھبرانا نہیں، اللہ اور اس کے رسول کی پیروی و اطاعت کرنا، اور اسلام کے پانچ بنیادی ارکان کو ہمیشہ یاد رکھنا، ’’میرا وقت آگیا جاوید۔ اب مجھے جانا ہوگا، بالکل گھبرانا نہیں، اس پر یقین رکھنا، ہمیشہ یاد رکھنا یہ پانچ چیزیں۔ ۔ توحید، رسالت، آخرت، نماز کی پابندی اور زکوۃ‘‘۔

 اقبال اپنے دوست چودھری محمد حسین کو وصیت یاد دلاتے ہیں کہ تمہی میرے بچوں کے ولی ہو، لہذا میرے بعد میرے بچوں کا خیا ل رکھنا، اور پھر بالکل آخر میں ڈاکٹر یہ جانکاہ خبر دیتا ہے کہ اقبال صاحب اس دنیا میں نہیں رہے، اور اس طرح یہ خوبصورت ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے، اس کے بعد حیا ت اقبال کے عنوان سے علامہ کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو مئو ثر پیرائے میں بیان کیا گیا ہے، اس کے مطالعے سے علامہ کی زندگی کے تقریبا تمام گوشوں سے خاطر خواہ واقفیت ہو جاتی ہے، اس کتاب میں علامہ کی زند گی کو اسلیے شامل کیا گیا ہے کہ جو حضرات علامہ کی خانگی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کے متعددعلمی و ادبی کارناموں سے واقف ہونا چاہیں تو وہ کتاب کے اس گوشے کا مطالعہ کر کے اپنی علمی تشنگی کو دور کر سکتے ہیں۔

کتا ب کے آخر میں ’’ڈرامہ علامہ مشاہیر نقد و ادب کی نظر میں ‘‘ کے تحت مشہور و معروف علمی و ادبی شخصیات کی آراء پیش کی گئی ہیں جو انہوں نے اس ڈرامہ کے مطالعہ کے بعد تحریر کیا ہے، اس طرح کے حوصلہ افزا کلمات نئے لکھنے والوں کے لیے بہت ضروری ہیں تاکہ وہ مستقبل میں بھی اسی طرح محنت و لگن سے اردو زبان و ادب کے فروغ میں نمایاں کارنامہ انجام دیتے رہیں۔ اس کتاب کا سر ورق دیدہ زیب ہے اور اس کے کاغذات بھی نہایت عمدہ ہیں، البتہ پروف ریڈنگ اور بعض جگہوں پر تذکیر و تانیث کی غلطیاں رہ گئی ہیں، امید کرتا ہوں کہ جب اس کا تیسرا ایڈیشن آئے گا تواس میں یہ سب خامیاں نہیں ہوں گی، یہ کتاب اقبالیات میں ایک خوش کن اضافہ ہے، اور ادبی حلقوں میں اسے جس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا گیا وہ اس کی مقبولیت کی دلیل ہے، اور علمی و ادبی حلقوں میں اسی طرح اس کو قدر کی نگاہوں سے دیکھاجائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔