ڈھل کےاشعار میں آ، سادہ بیانی میں اتر

ثمریاب ثمر

ڈھل کےاشعار میں آ، سادہ بیانی میں اتر

اپنا  کردار    نبھا   اور   کہانی  میں  اتر

۔

کارواں زیست کا آگے نہ نکل جائے کہیں

ہمنوا  دیر  نہ کر  آکے  جوانی  میں  اتر

۔

تتلیوں سنگ کبھی صحن گلستاں میں بھی آ

بن کے خوشبو تُوکبھی رات کی رانی میں اتر

۔

خواہش دید لئے جھیل کنارے ہوں کھڑا

چاندنی اوڑھ کےجلدی سے تو پانی میں اتر

۔

اپنے بیمار سے مل آکے اے خوابوں کے رفیق

بن کے امرت تُو میری سوختہ جانی میں اتر

۔

میری غزلوں کی ثمر ظاہری ہیئت پہ نہ جا

فکر  کے  زینے سے آ،  اور  معانی میں اتر

تبصرے بند ہیں۔