کارِ دعوت اور ہماری غفلت

محبوب عالم عبدالسلام

دین کی دعوت و تبلیغ انبیائی مشن اور حاملینِ کتاب و سنت کا لازمی فریضہ ہے۔ میدانِ دعوت و تبلیغ اور کتاب و سنت کی تعلیم و تعلم سے جڑے ہوئے وہ لوگ قابلِ مبارکباد اور لائقِ رشک ہیں جو اپنے قول و عمل اور کردار و گفتار کے ذریعہ اللہ کے بندوں تک اُس کے احکام و فرامین کو پہنچانے کا مہتم بالشان فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ دین کی تبلیغ و اشاعت اور اُس کی تعلیم و تعلم کے لیے داعی و معلم کا  کردار بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ داعی و معلم کے لیے سیرت و کردار کی درستی، بلند اخلاقی اور لہو و عبث چیزوں سے اجتناب و دوری بہت ضروری ہے؛ اگر معلم و داعی بازاری بن جائیں، سیرت و کردار کی عمدگی کے بجائے اپنے وقار اور حیثیت کو پس پشت ڈال دیں، سرِ عام سوشل میڈیا پر رکیک مزاق، سوقیانہ گفتگو اور بیہودہ حرکتیں کرتے پھریں تو وہ سب کچھ ہوسکتے ہیں، مگر اسلام کے داعی، حق کے راہی اور کتاب و سنت کے معلم ہر گز نہیں ہوسکتے، خواہ اُن کی ٹوپی ساتویں آسمان پر نظر آئے یا پھر اُن کے نام کے ساتھ لواحق و سوابق کی کثرت و بہتات ہی کیوں نہ ہو! اگر بازاری قسم کا مداری ہی بننا ہے تو پھر دین کے داعی و معلم کا لیبل چہ معنی دارد؟

ذرا آپ معلمِ اعظم اور داعی برحق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کو دیکھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی کوئی ناشائستہ حرکت نہیں کی اور نہ ایسے لوگوں کو پسند فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کریم کا عملی نمونہ تھے، مخالفین و معاندین نے اپنی لاکھ دشمنی کے باوجود کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت و کردار پر انگشت نمائی نہیں کی۔ حدیثوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں آتا ہے کہ :

"لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا، وَكَانَ يَقُولُ: "إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحْسَنَكُمْ أَخْلَاقًا” (بخاری و مسلم)

 یعنی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نہ بدزبان تھے اور نہ بد زبانی کو پسند فرماتے تھے، نہ آپ نے کبھی فحش گوئی کی اور نہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے: "تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔” یعنی کہ جن کے عادات و اطوار اور اخلاق و کردار سب سے اچھے ہوں وہی لوگ سب سے بہتر اور محبوب و پسندیدہ ہوتے ہیں۔

گویا ایک اچھا انسان بننے کے لیے سیرت و کردار کی بلندی نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح دین کا داعی و معلم بننے کے لیے خود میں داعی کے اوصاف و خصائص کا پیدا کرنا ازحد ضروری ہے؛ ورنہ پھر معلم و داعی اور تماش بین و مسخرہ باز میں کوئی فرق نہیں ہوگا اور نہ دعوت کے مثبت نتائج اور دیر پا اثرات ہی مرتب ہوں گے۔ اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں پیغام رسانی اور آپسی روابط کے لیے سوشل میڈیا جیسا مؤثر ہتھیار موجود ہے جس کے ذریعے ہم بآسانی خود مسلمانوں میں موجود ناخواندہ طبقہ اور ساتھ ہی غیر مسلموں تک بھی اسلام کے امتیازات و خصائص اور اس کے احکام و مسائل پہنچا سکتے ہیں، نیز اسلام سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں اور شکوک و شبہات کو دور کر سکتے ہیں، لیکن افسوس کہ میڈیا، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے بجائے آج ہمارے معاشرے میں دعوت و تعلیم کے نام پر مسخرہ بازی اور سفلہ پنی کا رواج کچھ زیادہ ہی عام ہوچکا ہے۔ برساتی مینڈکوں کی طرح شوشل میڈیائی نام نہاد داعیان کی بھرمار ہے۔ ہر جگہ نئے نئے پوز میں ایسے لوگ نظر آتے رہتے ہیں۔ یاد رکھیں! مختلف زاویہ سے بے ہنگم انداز میں جسمانی اعضا و جوارح اور خد و خال کی نمائش سے دین کی تبلیغ نہیں ہوتی نہ اس سے لوگ دین کے قریب ہوتے ہیں؛ بلکہ بسااوقات ایسے داعی لوگوں کو دین سے متنفر کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں اور عوام و خواص میں اپنی وقعت و حیثیت کا قیمہ بناکر خود کی اور دین اسلام کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔

درحقیقت ایسے نام نہاد داعی دعوت و تبلیغِ دین سے یتیم و تہی داماں ہوتے ہیں اور اُن کا مقصود فقط اپنے دوکان کی تشہیر، سستی شہرت کا حصول اور خود اپنی ذات کو نمایاں کرنے کا ہوسِ بے جا ہوا کرتا ہے۔ ایسے لوگ دن رات یہ بتانے میں مشغول رہتے ہیں کہ مَیں یہاں ہوں، میں وہاں ہوں، میں فلاں مجلس کا میر کارواں ہوں، میں یہاں سے نکل رہا ہوں، میں وہاں سے آرہا ہوں، میں فلاں تقریب میں فلاں وقت پہنچ رہا ہوں، میں نے آج فلاں لباس زیب تن کیا ہے، وغیرہ اور اس طرح کے بہتیرے طفلانہ باتوں کی رٹ لگا کر ماحول کو پراگندہ اور اپنی وقعت و حیثیت کا کباڑا کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں، اُنھیں دین سے قریب کرنے کے بجائے اپنی ذات کے قریب کرتے ہیں۔ اور بدقسمتی سے ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اگر یہ لوگ اپنی ذات کی تشہیر کے بجائے دین کی تبلیغ و اشاعت پر اپنا وقت اور انرجی صرف کریں تو جہالت و ضلالت کا قلعہ قمع ہوجائے، معاشرے کے اندر انقلاب آجائے، معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے اور لوگ دین بیزار ہونے کے بجائے دین پسند ہو جائیں۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد۔

خود کو ثابت کرنا اور اپنی جائز و حقیقی حیثیت کو منوانا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ اُس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے ایسے حقیقی کارناموں کو بیان کرے جو خوشنودی الٰہی کا باعث اور کارِ دعوت میں لگے لوگوں کے لیے ممد و معاون اور حوصلہ افزا ثابت ہوں۔ اُن کارہائے نمایاں کی تشہیر سے تعلی و تکبر اور حسد و بغض کی بو نہ آتی ہو، وہ بے کار و عبث اور خلافِ شرع نہ ہوں، اُن میں عوام و خواص کے لیے کوئی دینی و دعوتی پیغام مضمر ہو۔ اب تو ہمارے یہاں یہ چیز عام ہو چکی ہے کہ بہت سے سرپھرے لوگ خود کو اسلام کا داعی و مبلغ اور معلم کہتے ہیں مگر اُن کے کرتوت اور سرگرمیاں قول و گفتار کے بالکل برعکس ہوتی ہیں۔ ہر جگہ انا کی جنگ چھیڑ کر تصنع و تکلف کے ذریعہ ہوسِ تشہیر کے پجاری بن بیٹھے ہیں اور تمام معاملاتِ زندگی میں اسلامی تعلیمات کے خلاف تکلفات و تصنعات کو اپنا شیوہ و وطیرہ بنا لیا ہے جب کہ عام معاملاتِ زندگی میں تکلف و تصنع سے اجتناب و دوری اختیار کرنا نبوی طریقہ ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے :

قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ(سورہ ص : 86)

 ترجمہ : "آپ کہہ دیں کہ اس پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والے لوگوں میں سے ہوں۔

 یعنی اے نبی! آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ اس دعوت و تبلیغ پر نہ تو میں تم سے کسی صلہ کا طلب گار ہوں اور نہ ان لوگوں میں سے ہوں جو اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے بناوٹ و تکلف کا سہارا لیتے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ پردہ و حجاب کے موضوع پر لچھے دار گفتگو کرتے ہیں، مگر مراہقہ قسم کی بھولی بھالی بچیوں کی تصویروں کی نشر و اشاعت میں کوئی قباحت نہیں محسوس کرتے، حیا و شرم کو ایمان کا جزو مانتے تو ہیں مگر خود کی شرمناک تصویروں کی تشہیر اپنا دعوتی فریضہ سمجھتے ہیں اور فرمان نبوی :

 "إِذَا لَمْ تَسْتَحِي فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ”(صحیح بخاری)

"جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے وہ کرو۔”  کا عملی نمونہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

دعوتی مشن کو مؤثر و کارگر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے اندر کسی طرح کا تضاد اور عملی نفاق نہ پایا جائے، ریا و نمود اور شہرت و جاہ طلبی کے شائبہ سے بھی دور رہا جائے، کیوں کہ ہماری نیتوں میں اگر خلوص کا فقدان اور کسی طرح کا فتور پایا جاتا ہے تو ہماری ساری تگ و دو بے کار و رائیگاں جائے گی اور آخرت میں سوائے خسارہ کے اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

اللہ سے دعا ہے کہ مولا ہمیں صحیح سمجھ اور اخلاص عمل کی توفیق عطا فرمائے…آمین!

تبصرے بند ہیں۔