ہم اپنے آپ  سے  پیچھا  چُھڑانے لگتے ہیں

جمیل اخترشفیق

ہم اپنے آپ  سے  پیچھا  چُھڑانے لگتے ہیں

بہت سے فیصلے جب دل دُکھانے لگتے ہیں

غزل کا درد سمجھتے نہیں مگرسن کر

عجیب لوگ ہیں تالی  بجانے  لگتے ہیں

میں جن کے واسطے پلکیں بچھائے پھرتا ہوں

وہ لوگ مجھ سے ہی نظریں چرانے لگتے ہیں

ستم تو یہ ہے کہ اس عہد کے مفاد پرست

مرے  خلوص  پہ  انگلی  اٹھانے  لگتے ہیں

ضمیر بیچ   کے  شہرت  خریدنے والے

مجھے عروج کا نسخہ بتانے لگتے ہیں

جنہیں پتہ نہیں خود ان کے ساتھ کیا ہوگا

وہ  میرے  حال   پہ  آنسو  بہانے لگتے ہیں

میں رونے لگتا ہوں جس وقت آدھی راتوں میں

ہزاروں  خواب  مجھے   چپ   کرانے   لگتے ہیں

شفیق جب بھی نکلتا ہوں چھوڑ کر خود کو

عجیب    دکھ  ہے  قدم   لڑکھڑانے  لگتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔