ہم اپنے آپ سے پیچھا چُھڑانے لگتے ہیں
جمیل اخترشفیق
ہم اپنے آپ سے پیچھا چُھڑانے لگتے ہیں
بہت سے فیصلے جب دل دُکھانے لگتے ہیں
…
غزل کا درد سمجھتے نہیں مگرسن کر
عجیب لوگ ہیں تالی بجانے لگتے ہیں
…
میں جن کے واسطے پلکیں بچھائے پھرتا ہوں
وہ لوگ مجھ سے ہی نظریں چرانے لگتے ہیں
…
ستم تو یہ ہے کہ اس عہد کے مفاد پرست
مرے خلوص پہ انگلی اٹھانے لگتے ہیں
…
ضمیر بیچ کے شہرت خریدنے والے
مجھے عروج کا نسخہ بتانے لگتے ہیں
…
جنہیں پتہ نہیں خود ان کے ساتھ کیا ہوگا
وہ میرے حال پہ آنسو بہانے لگتے ہیں
…
میں رونے لگتا ہوں جس وقت آدھی راتوں میں
ہزاروں خواب مجھے چپ کرانے لگتے ہیں
…
شفیق جب بھی نکلتا ہوں چھوڑ کر خود کو
عجیب دکھ ہے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں
تبصرے بند ہیں۔