طلاق ہر مظلوم بیوی کے حق میں رحمت ہے!

احساس نایاب

دکنی زبان میں ایک کہاوت بڑی مشہور ہے، شاید آپ سبھوں نے بھی سنا ہوگا، جب بھی کوئی بیکار، بےمطلب دکھاوے کی جھوٹی فکر جتاتا ہے تو لوگ اُس کی شان میں یہی کہاوت کہتے ہیں "کی جی میاں دُبلے، دنیا کی فکر زیادہ” کچھ یہی حال آج ہمارے وزیرآعظم مودی جی کا بھی ہے۔

جب بھی کوئی وکاس کو لیکر اُن سے سوال کرتا ہے تو جواب یہی ملتا ہے کہ فی الحال مسلم خواتین کی فکر زیادہ ہے، مودی جی کو ناجانے کیوں مسلم خواتین سے اتنی ہمدردی ہے جو یہ ہندوستان کے تمام مسائل کو نظرانداز کر خود کو صرف مسلم خواتین کا مسیحا بنا کر پیش کرنا چاہ رہے ہیں، جسکے لئے یہ مسلم گھرانوں میں تاک جھانک کرتے ہوئے ان کی ازدواجی زندگی میں دلچسپی دکھارہے ہیں، مانا جشودہ بین کے ساتھ ان کی ازدواجی زندگی ناکام رہی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ یہ اپنی ناکامی کا بدلہ مسلم خواتین کے مستقبل کو ہمیشہ کے لئے گرہن لگا کر چکایا جائے۔

دراصل جب سے یہ اقتدار میں آئے ہیں اُس دن سے لیکر آج تک انہوں نے نہ کھاؤنگا نہ کھانے دونگا کہتے ہوئے بیچارے کسانوں کے منہ کا نوالا چھین لیا، چوکیدار بنکر ملک کی مالی حالت خستہ کردی، وکاس کے نام پہ ہزاروں بےوقوف نوجوانوں کو اپنی بھگتی کا چشمہ پہناکر نکموں میں شامل کردیا جو ہر وقت ہندوتوا کے نام کی مالا جپتے ہوئے ملک میں انتشار پھیلارہے ہیں اور جب اس سے بھی انکا جی نہیں بھرا تو یہ حقوق نسواں، آزادی نسواں کا راگ الاپتے ہوئے تین طلاق جیسے خالص مذہبی معاملے کو سیاسی مدعا بناکر جھوٹی ہمدردی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں اور آئے دن مرغی کے دوڑے کی طرح  تین طلاق کا دورہ پڑنا ان کے لئے عام بات ہوچکی ہے جو بیحد افسوس کی بات ہے، کہ ہمارے وزیر اعظم کو تین طلاق کے علاوہ  ہندوستان کے دیگر مسائل نظر ہی نہیں آرہے ہیں، چاہے وہ کسانوں  کی خودکشی کا معاملہ ہو یا نوجوانوں کی بےروزگاری ہو، یا معصوم بچیوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور جنسی استحصال کا معاملہ ہو، یا تیزی سے بڑھ رہے موب لنچنگ کے واقعات ہوں، ایسے سنجیدہ مسائل کو بھُلا کر ان سب کو نظرانداز کرکے صرف اور صرف مسلمانوں کی ذاتی زندگیوں میں  تاک جھانک کرنا کسی بھی ملک کے وزیرآعظم کو زیب نہیں دیتا، اُس پر ظلم اتنا کہ آنے والے دنوں میں ہر ایک ہندوستانی کی سوشیل سرگرمیوں پہ جاسوسی کرنے کی تیاری کی جارہی ہے جس کے لئے ” 20 ڈسمبر کو آئی ٹی ایکٹ کے 2000 کے (1) 69 کے تحت کمپیوٹر کی نگرانی سے متعلق 10 مرکزی ایجنسیوں کو اجازت دے دی گئی ہے، جو ایک طرح سے انسانوں کی آزادی چھین کر انہیں اپنا غلام بنانے کی گھٹیا سازش ہے، خیر اس معاملے کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے دیگر سیاسی پارٹیاں موجود ہیں جنہوں نے ای وی ایم نامی بلا پہ آواز اٹھائی ہے اُسی طرح اس پہ بھی چندروزہ بےفائدہ کا ہنگامہ برپا ہوگا، لیکن جو دعوے مودی جی نے عوام سے کئے تھے، ایک سر کے بدلے دس سر لائں ینگے، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کے تحت عورتوں کو خود مختار بنائینگے انہیں انکے حقوق دلوائینگے یہ سارے دعوے محض جملے بازی بن کر رہ گئے اور بھاجپا سرکار کی کہی ہر بات انہیں پہ الٹی پڑگئی، نہ شبری مالا مندر کے معاملے میں ہندو بہنوں کے جذبات سمجھے گئے نہ ہی بلاتکاریوں کی ہوس کا شکار بنی معصوم عورتوں و بچیوں کو انصاف ملا، نہ نجیب کی ماں کا درد انکی تڑپ کو سمجھا گیا، نہ اخلاق، پہلوخان اور جنید کے اہل خانہ کو انصاف مل سکا، نہ ہی گائے کے نام پہ معصوموں کے قتل پہ روک تھام کی گئی، نہ ہی ملک میں جرم کے خلاف کوئی سخت قانون نافذ کیا گیا، بلکہ اس کے برعکس ہمارے سچے حق گو نوجوانوں، صحافیوں کو دن دھاڑے قتل کردیا گیا اور آج ملک میں دہشت اتنی بڑھ گئی ہے کہ محافظ اور نگہبان کہلانے والے جھوٹے انکاؤنٹر کرنے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں، موجودہ حالات میں سچ کہنا سب سے بڑا گناہ بن گیا ہے اور جس رام راجیہ کی بات کیا کرتے تھے وہاں پہ آج بھاجپائی راونوں کا راج انتہا پہ ہے اور پانچ سالوں میں ہندوستان میں جرائم جتنی تیزی سے بڑھے ہیں، شاید ہی 2014 سے قبل  اتنے دیکھنے کو ملے ہوں اور اپنی ان ناکامیوں پہ پردہ ڈالنے کی خاطر بی جے پی سرکار بابری مسجد اور طلاق ثلاثہ کو 2019 کے انتخابات میں اہم مدعا اور اپنے لئے ڈھال کی طرح استعمال کرنا چاہتی ہے جس کے لئے ملک کا ماحول بگاڑ کر ایک طرف ہندوتوا کے نام پہ تو دوسری طرف مسلم عورتوں کو بھڑکا کر انہیں اپنا ووٹ بینک بنانے کی مسلسل ناکام کوشش ہورہی  ہے، مگر انشاءاللہ یہ اپنے گندے مقاصد میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے، کیونکہ ابھی ملک کی عوام صحیح، غلط پہچان چکی ہے، تبھی حالیہ اسمبلی انتخابات میں کئی ریاستوں نے بھاجپا کو تین طلاق دے دیا اور انہی اپنی ہی زمین پہ منہ کی کھانی پڑی جو کہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کے لئے کافی ہے، لیکن افسوس صد افسوس اتنا بڑا سبق ملنے کے باوجود انہیں عقل نہیں آئی اور  دوبارہ انکی سوئی کا کاٹا تین طلاق پہ آکر اٹک گیا ہے جیسے کہ مسلمانوں کا وجود انکے ذکر، فکر کے بنا بی جے پی کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔

خیر پل بھر کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ انہیں عورتوں سے سچ میں ہمدردی ہے، تو پہلے اُنہیں جشودہ بین اور بھاجپا کے کئی منتریوں کی بیویوں کے بارے میں سوچنا چاہئیے جو سہاگن ہوکر بھی بیواؤں کی زندگی گذاررہی ہیں، انصاف کا سب سے پہلا حق تو ان بیچاریوں کا بنتا ہے اور وہ ریڈ لائٹ علاقوں میں رہنے والی جسم فروش عورتیں جنکی زندگی جہنم سے بدتر ہے، انکے بہتر مستقل کے لئے اقدامات اٹھانے چاہئیے اور ہماری کئی ایسی غیرمسلم بہنیں ہیں جنہیں آئے دن گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اُنکی زندگی اجیرن ہوچکی ہے، جہیز کے نام پہ انہیں زندہ جلایا جارہا ہے، ایسی معصوم عورتوں کی تحفظ کے لئے سخت سے سخت قانون بنانا ضروری ہے۔

نہ کہ  مٹھی بھرنام نہاد بکی ہوئی عورتوں کی فکر کرنی غیر ضروری ہے جن کا نہ دین ہے نہ دھرم۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ لاتعداد مسلم خواتین اپنے شرعی قوانین سے مطمئن ہیں اور اس بات کا اظہار لاکھوں کڑوروں پردہ پوش خواتین نے چلا چلا کر فخر سے سوشیل میڈیا سے لیکر پرنٹ میڈیا یہاں تک کہ الیکٹرانک میڈیا پہ ساری دنیا کے آگے کیا ہے کہ مسلم خواتین کو شریعت میں کسی بھی ایرے غیرے کی مداخلت یا  کسی بھی قسم کا ردوبدل ناقابل برداشت ہے اور ہمارے اس فیصلے کا جیتا جاگتا ثبوت ہمارا وہ سیلاب ہے جو ہندوستان کی کئی ریاستوں میں تحفظ شریعت کے لئے امڈ پڑا تھا اور ہمارے وہ 5 کڑور دستخط ہیں جو ہمارے جذبہ کو ظاہر کرتے ہیں باوجود اسکے طلاق کو مدعا بناکر تمام مسلم خواتین کو کیوں بدنام کیا جارہا ہے؟ دو چار لالچی عورتوں کے لئے ہمارے ساتھ ناانصافی کیوں ؟اور طلاق آرڈیننس لاکر، بل پیش کرکے ہمارے جذبات کے ساتھ بھدا مذاق کیوں کیا جارہا ہے؟جس سے ہمارے گھریلو نظام درہم برہم ہونے کا خدشہ ہے، آخر سیکولر ملک میں موجودہ سرکار کی طرف سے بار بار یہ کیسی حماقت کی جارہی ہے ؟؟؟جو سیاسی مفاد کے لئے اپنے بےتکے فیصلوں کو جبرا ہم پہ تھوپنا چاہ رہے ہیں، جبکہ ہندوستانی آئین ہمیں اس بات کی پوری اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنے شرعی قوانین کے مطابق اپنی زندگی گذاریں، بول چال، کھانے پینے، پہناوے سے لیکر اپنے مذہبی رسومات کو انجام دینا ہمارا حق ہے۔

 لیکن ایک سیکولر ملک  میں تعصبانہ سوچ رکھنا اور جسطرح سے آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں یہ بھی ایک طرح سے ملک سے غداری کہلائے گا کیونکہ ہندوستانی آئین کو ماننا اس پہ عمل کرنا ہر عام و خاص عوام سے لیکر وزیرآعظم  پہ بھی ضروری ہے اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرنے کی جراءت کرتا ہے تو بیشک وہ دیش کا غدار ہوگا بھلے وہ وزیرآعظم ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ ملک میں وزیرآعظم کی مدت صرف پانچ سال کی ہے لیکن آئین کسی بھی ملک کا ڈھانچہ ہے اور ہندوستان کا سیکولرازم اسکی روح اسکی اصل پہچان ہے، جسکے بنا سیکولر ملک کی تشکیل ناممکن ہے۔

اسلئے سرکار کو چاہئیے کہ غیر ضروری مدعوں پہ واویلا مچانے کی بجائے  ہماری بچیوں کے لئے مفت اعلٰی تعلیمی نظام قائم کروائیں، ہر شعبے میں انہیں بھی آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کروائیں اور لڑکیوں کے تحفظ کے لئے بھاچپائی غنڈے منتریوں اور تعصبی اداروں پہ لگام کسی جائے، تاکہ ملک میں خواتین آزادی کی کھلی ہوا میں سانس لیتے ہوئے خود کو محفوظ محسوس کرسکیں اور آنے والے دنوں میں کسی بھی مسلم طلبہ یا طالبات کو صرف حجاب کی وجہ سے امتحان دینے یا اعلٰی تعلیم حاصل کرنے سے محروم نہ ہونا پڑے جیسا کہ حال ہی میں کئی جگہوں پہ ایسی شرمناک حرکتیں روزمرہ کی عام بات ہوتی جارہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اگر مزید اس طرح کے حالات ہوتے رہینگے تو وہ وقت دور نہیں جب پورے ہندوستان کی عوام مودی جی کو ہی تین طلاق دے دیگی پھر نہ طلاق کا مدعا کام آئے گا نہ  مسلم خواتین سے ہمدردی کا ڈھونگ رنگ لائے گا اور نہ ہی بھاجپا کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کوئی پار لگا پائیگا۔

اور آخر میں غور طلب بات یہ ہے کہ بنا طلاق دئیے بیوی کو چھوڑنا مطلب کسی کو اپنے نام کی زنجیروں میں جکڑ کر تاعمر اُسے اسکی حقیقی خوشیوں سے دور کرکے چار دیواری میں قیدیوں کی زندگی گذارنے پہ مجبور کرنے کے برابر ہے اور ایک جاہل پاگل عیاش مرد کے ساتھ زبردستی کی زندگی گذارنے سے بہتر ہے خلع یا طلاق لیکر وہ علیحدہ نئی زندگی کی شروعات کرے اسلئے، مظلوم بیوی کے حق میں طلاق زحمت نہیں بلکہ رحمت ہے، اور جب ہندوستان کے قانون میں سکیولرزم کے نام پہ اڈلٹری , ہم جنس پرستی ,  لیو ان ریلیشن شپ جیسے ناجائز فعل کو جائز قرار دے سکتے ہیں تو طلاق جیسے شرعی قانون کو جرم کے زمرے میں پیش کرنا مردوں کے ساتھ ساتھ اُن خواتین کے لئے بھی بہت بڑا ظلم ہے جو اپنی شادی شدہ زندگی سے پریشان، ناخوش ہیں، مجبوری کے رشتے میں جانوروں کی طرح بندھے رہنے سے بہتر ہے ایک دوسرے کو آزاد کر نئی زندگی کی شروعات کریں، اگر ایسا نہیں ہوا تو اسکا انجام بیحد خوفناک ہوگا، ہندوستان میں ناجائز رشتے پروان چڑھینگے، خواتین ذہنی اذیت کا شکار بنیں گی اور ہوسکتا ہے اس وجہ سے وہ خودکشی کرنے پہ مجبور ہوجائیں، ویسے بھی حال ہی میں کئے گئے ریسرچ کے مطابق مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ طلاق کے معاملے غیر مذاہب میں سامنے آئے ہیں، جہاں پہ مردوں نے جانوروں کی طرح بیویوں کے گلے میں منگل سُتر اور مانگ میں رسمی سندور تو لگادیا پھر چند روز بعد بنا طلاق دئے سڑنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور اُن بے بس عورتوں کو منحوس کُلٹا کہہ کر دھتکارا جاتا ہے اور وہی زیادہ تر گھریلو تشدد کا شکار ہورہی ہیں، وہیں پہ اُس جہالت کے برعکس ہمارا پیارا اسلام ایک عورت کے تحفظ اُس کی عصمت اور بہترمستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اُسے دوسری شادی کرکے عزت کی زندگی گذارنے کی اجازت دیتا ہے۔

اسلئے آج اگر کسی کو ہمدردی کی ضرورت ہے تو وہ مسلم خواتین نہیں بلکہ ہندو بہنوں کو ہے جن میں سب سے آگے جشودہ بین اور بھاجپا منتریوں کی بیویاں ہیں اور جہاں عورت کی تحفظ کی بات کی جائے تو ملک میں بھاجپا کے منتریوں سے عورتوں کی حفاظت کی جائے اور کاش اسلام کے ساتھ ہر مذہب میں طلاق کا قانون بنایا جاتا تو آج ہماری کئی غیر مسلم بہنیں عزت کی زندگی بسر کرتی۔

اور جہاں بیوی کو طلاق دینے والا شوہر گنہگار ہے تو بنا طلاق دئے بیوی کو چھوڑنے والا شوہر اُس سے بھی بڑا گنہگار ہے اور اگر طلاق دینے والا شخص سزا کا حقدار ہے تو بنا طلاق دئیے صرف اپنے نام کا ٹھپہ لگاکر چھوڑنے والا شخص اُس سے بھی بڑی سزا کا حقدار ہونا چاہئیے اور جہاں تک سزا کی بات آتی ہے تو ہر انسان کو ایک ہی نظر سے دیکھنا چاہئے، چاہے وہ عام انسان ہو یا کسی بھی ملک کا وزیر آعظم کیوں نہ ہو، کیونکہ قانون ہر ایک کے لئے برابر ہونا چاہئیے اور ہر گنہگار سزا کا حقدار ہوتا ہے، تبھی جاکر صحیح معنوں میں انصاف ہوگا۔

اب کوئی یہ بھی فیصلہ کرے کہ جشودہ بین کے گنہگار شوہر کو کونسی سزا ملنی چاہئیے؟

تبصرے بند ہیں۔