کاش تریاق تیرگی  لے کر

مقصود عالم رفعت

کاش  تریاق   تیرگی  لے  کر

کوئی آئے  تو روشنی  لے  کر

بے کسی اور  بے  بسی لے کر

ہم کدھر جائیں مفلسی لے کر

ہمکو دے جائے گی دغا  آخر

کیا کریں ایسی زندگی لے کر

کون خاطر میں تم کو لائے گا

جارہے ہو  جو  سادگی لے  کر

شہر تیرا  کسے گوارا تھا

آگئی مجھ کو بے خودی لے کر

 کچھ خبر ہی نہیں کہاں آخر

مجھ کو جائے گی عاشقی لے کر

دشت و صحرا میں میں بھٹکتا ہوں

ایک عرصے سے بے کلی لے کر

دل کی روداد تھی سنانی مجھے

آگیا سو میں شاعری لے کر

 اس نے مانگا تھا صرف دل رفعت

اور آیا میں جان بھی لے کر

تبصرے بند ہیں۔