کبھی صحرا کبھی دریا رہا ہوں

افتخار راغب

کبھی صحرا کبھی دریا رہا ہوں

بجھا کر پیاس بھی پیاسا رہا ہوں

 مصیبت کی گھڑی میں مسکرا کر

مصیبت پر مصیبت ڈھا رہا ہوں

 بتاؤں کس طرح کیا جی میں ہے اب

کہاں محفل سے تیری جا رہا ہوں

 نہ سمجھیں گے رہِ باطل کے راہی

 میں کیوں ٹھوکر پہ ٹھوکر کھا رہا ہوں

 کسی کو بھول جانے کی ہے کوشش

کہ اپنے آپ کو دفنا رہا ہوں

 یقیں ہے لوٹ کر آئے گا سورج

کھلوں گا پھر ابھی مرجھا رہا ہوں

 نوازش دیکھ کر غیروں پہ تیری

بجھا کیسے رہوں جل جا رہا ہوں

نہیں افسوس پر افسوس راغبؔ

نہ پچھتانے پہ اب پچھتا رہا ہوں

تبصرے بند ہیں۔