کتابِ زندگی

محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری

(استاذ دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد)

تذکرہ نویسی کی روایت تو بہت قدیم ہے، البتہ شکلیں مختلف رہی ہیں، قدیم زمانے میں آج کی طرح قلم و قرطاس کا وجود تو نہ تھا، لیکن علم کی حفاظت، زمانے کے احوال و کوائف اور عظیم شخصیات کے نقوش زندگی کو نئی نسل تک پہنچانے کے لئے ان لوگوں نے جو بھی کوششیں کیں، یقیناً وہ بہت لائق تحسین ہیں، چمڑے، کپڑے، پتھر اور در و دیوار کو کاغذ کے طورپر استعمال کرکے اپنے زمانے کی بہت ساری علمی امانتوں کو ہم تک پہنچایا، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہزاروں سال قدیم تاریخ اور ان زمانوں کی عظیم شخصیتوں کے کارنامے ہمیں کیسے وصول ہوتے ؟ قرآن کریم نے بھی متعدد اشخاص کے اعمال و کردار کا تذکرہ کیا ہے، جسے آج کی زبان میں ’’ سوانحی نقوش ‘‘ کہا جاسکتا ہے، اگرچہ قرآن کا مقصد سوانح نگاری نہیں ہے، بلکہ عبرت و موعظت، تزکیۂ قلوب اور آخرت کی تیاری کی تعلیم دینا ہے، حضرت آدم علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات تو تفصیل کے ساتھ ذکر کئے گئے اور بہت ساروں کے اجمالی، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان برگزیدہ انبیائے کرام کی زندگیاں، دنیا میں امن و سکون پیدا کرنے، اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلقات مضبوط کرنے اور انسانی زندگی کی اصلاح کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔

ایک حساس انسان جب کسی اچھے انسان کا تذکرہ پڑھتا ہے، تو اس کے اندر بھی اچھا بننے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے، انسان کی انسانیت جاگ اُٹھتی ہے، اصلاح و ترقی کی چاہت انگڑائی لینے لگتی ہے اور ایک نئے عزم و حوصلے کے ساتھ کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجزن ہوجاتا ہے، وہ یہ چاہتا ہے کہ ’’ کتابِ زندگی ‘‘ کا ہر ہر ورق درخشندہ و تابندہ ہو اور اللہ کی مخلوق کے کام آئے، اسی طرح کی ایک شخصیت تھی میرے دادا جان ماسٹر محمد نورالہدیٰ رحمانی ( وفات : ۸؍ اگست ۲۰۱۷ء) کی، جنھوں نے بچپن ہی سے عصری تعلیم کے ساتھ دینی و مذہبی کتابوں اور انبیاء و اولیاء کے تذکرے کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایا، انھیں صرف پڑھا ہی نہیں ؛ بلکہ خوب پڑھا اور ان کے اخلاقی سانچے میں اپنے کو ڈھالنے کی کوشش کی، اب تو وہ نہیں رہے ؛ لیکن ان کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے ’’کتابِ زندگی‘‘ ہمارے سامنے ہے، جس کے مرتب مولانا محمد نظر الہدیٰ قاسمی ( استاذ : مدرسہ اسلامیہ چہرا کلاں، ویشالی، بہار) ہیں، جو نوجوان عالم دین ہیں، سنجیدہ مزاج کے حامل ہیں، لکھنے پڑھنے کا جذبہ رکھتے ہیں، کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بھی ہے، یہ ان کی پہلی تالیف ہے، تاہم بہت سلیقے کے ساتھ ترتیب دی گئی ہے، کتاب دیکھنے کے بعد ان کے علمی ذوق کا پتہ چلتا ہے اور ان کے مستقبل کے لئے ڈھیر ساری دُعائیں نکلتی ہیں۔

’’کتابِ زندگی ‘‘ نام کی ایک کتاب مولانا وحید الدین خاں کی بھی ہے، جس میں زندگی گزارنے کے رہنما اُصول کے تحت ان کے مختلف مضامین ہیں، ابھی میرے سامنے جو ’’کتابِ زندگی‘‘ ہے، وہ میرے دادا محترم الحاج ماسٹر محمد نورالہدیٰ رحمانی کی حیات وخدمات پر مشتمل ہے، جس کے مرتب کا تذکرہ ابھی چند سطر پہلے گزرا ہے، یہ کتاب مختلف اصحابِ علم اور صاحب تذکرہ کے افراد خاندان کے مضامین کا مجموعہ ہے، اصل کتاب شروع ہونے سے پہلے بیس صفحات کے اندر سب ٹائٹل، انتساب، فہرست مضامین، ’’مجھے بھی کچھ کہنا ہے ‘‘ کے تحت مرتب کی اپنی باتیں، صاحب تذکرہ کا اجمالی سوانحی خاکہ اور پھر ’’ یہ شجرہ طوبیٰ پھیلا ہے تا وسعت امکاں پھیلے گا ‘‘ کے تحت مرتب نے ’’ خاندان ہدیٰ ‘‘ کی ابھی سے آٹھ پشتوں تک کا سلسلہ نسب بہت عرق ریزی کے ساتھ خوبصورت انداز میں تیار کیا ہے، جس کی وجہ سے وہ مزید مبارکباد کے مستحق ہیں۔

’’کتابِ زندگی‘‘ چار سو صفحات پر مشتمل ہے، جس میں کل سات ابواب ہیں، باب اول ’’حیات و خدمات‘‘ کے عنوان سے ہے، جو صفحہ : ۲۱ تا صفحہ : ۶۴ ہے، اس میں صرف ایک ہی مضمون ہے، جس کا عنوان ہے: ’’ اباجی ! شجر سایہ دار‘‘ یہ مضمون مرحوم کے انتہائی ہونہار فرزند مشہور صاحب قلم، ہفت روزہ ’’ نقیب‘‘ کے ایڈیٹر، مقرر شیریں بیاں، امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم مفتی محمدثناء الہدیٰ قاسمی کے قلم سے ہے، جو ساٹھ ذیلی عناوین پر مشتمل ہے، کتاب کا سب سے تفصیلی مضمون یہی ہے، جسے کتاب کا لب لباب بھی کہنا مناسب ہوگا۔

جس شخصیت کے تذکرہ پر یہ کتاب مشتمل ہے وہ راقم سطور کے دادا محترم الحاج ماسٹر محمد نور الہدیٰ رحمانی کی شخصیت ہے، جو ضلع ویشالی بہار کے رہنے والے تھے، ان کی پیدائش ۱۹۳۱ء میں ہوئی اور وفات ۸؍ اگست ۲۰۱۷ء میں، ابتدائی تعلیم گھر میں اور اپنے علاقے کے ’’ مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی ‘‘ میں ہوئی، پھر اسکول و کالج اور یونیورسٹی کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں، عرصۂ دراز تک ہائی اسکول میں انگلش اور تاریخ کے ٹیچر رہے اور وہیں سے سبکدوش بھی ہوئے ؛ لیکن یاد رکھنے کی بات ہے کہ ابتدائے عمر سے انتہائے عمر تک جہاں کہیں بھی وہ رہے، اپنی اسلامی تہذیب و ثقافت اور شعائر اسلام کے ساتھ رہے، وہ علم دوست تھے، جس کی نشر و اشاعت میں اپنا وقت ہی نہیں ؛ بلکہ اپنا تن من دھن لٹا دیا، اپنے گھر اور خاندان ہی میں نہیں ؛ بلکہ کتنے اَن پڑھ خاندان اور گاؤں میں اہل علم کی ایک بڑی تعداد تیار کردی، جس سے نسلیں فائدہ اُٹھارہی ہیں، انسانوں سے محبت کرنا، بالخصوص علمائے کرام کی محبت، ان کی توقیر و تعظیم اورادب و احترام ان کی سرشت میں داخل تھا، امیر شریعت رابع حضرت مولانا محمد منت اللہ رحمانیؒ سے بیعت و ارشاد کا بھی تعلق تھا۔

باب دوم ’’احوال و آثار‘‘ کے نام سے ہے، جس میں کل ساٹھ لوگوں کے چھوٹے بڑے مضامین ہیں، جن میں صاحب تذکرہ (دادا جان ماسٹر محمد نور الہدیٰ رحمانی) کے ممتاز شاگردوں میں انوار الحسن وسطوی، ابو صالح مکھیا، ابوطلحہ اور ماسٹر نصیر الدین علی منصوری وغیرہم کے بڑے قیمتی مضامین ہیں، عصر حاضر کے مشہور اصحابِ قلم میں ڈاکٹر ممتاز احمد، ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق، قمر حاجی پوری، مولانا آفتاب عالم مفتاحی، مولانا حکیم محمد شبلی قاسمی اور مولانا محمد انوار اللہ فلک قاسمی کے مضامین بھی کتاب کی قدر و قیمت میں اضافے کا باعث ہیں، اس کتاب کے اکثر مضامین صاحب تذکرہ کے بیٹوں، بہوؤں، پوتوں اور پوتیوں کے ہیں، دو مضامین دو پڑپوتیوں سعیدہ سراج اورعائشہ سراج کے بھی ہیں، جو راقم کی بیٹیاں ہیں، یہ سب مضامین معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہیں، جو صاحب تذکرہ کی زندگی کے مختلف گوشوں کو وا کرتے ہیں۔

باب سوم ’’منظوم خراجِ عقیدت‘‘ پر مشتمل ہے، جس میں تین شعراء حسن نواب حسن، مولانا سید محمد مظاہر عالم قمر اور کامران غنی صبا کی ایک ایک نظمیں ہیں اور ڈاکٹر عبد المنان طرزی کے قلم سے قطعۂ تاریخ وفات ہے، باب چہارم میں مختلف اہل تعلق کے تعزیتی مکتوبات ہیں، باب پنجم میں تعزیتی بیانات ہیں، جو اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے تھے، باب ششم میں دادا جان کے قلم سے نکلے ہوئے سات مضامین شامل ہیں، جن کو پڑھنے کے بعد صاف محسوس ہوتا ہے کہ اگر درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت توجہ مضامین و مقالات کی طرف بھی دی جاتی تو آپ اپنے وقت کے ممتاز اہل قلم میں شمار ہوسکتے تھے، باب ہفتم ’’ دستاویزات ‘‘ کے عنوان سے ہے، جن میں ان کاغذات کو رکھا گیا ہے، جن سے دادا جان کی زندگی کے احوال پر روشنی پڑتی ہے، مثلاً : ان کی انگریزی و اُردو تحریر کا عکس، اسکول سے سبکدوشی کے وقت کا سپاس نامہ، روزنامچہ کا ایک ورق اور دیگر کاغذات۔

ماشاء اللہ کتاب کے مضامین متنوع اور عمدہ ہیں، اگر مزید دو چار باتوں کی طرف توجہ دی جاتی تو راقم سطور کے لحاظ سے اس کتاب کی عمدگی میں چار چاند لگ جاتے، جیسے : کتاب کے ٹائٹل پیج کے اخیر میں بائیں جانب مرتب کا صرف نام لکھا ہوا ہے، جس سے پہلی نظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ’’ کتاب زندگی ‘‘ ان ہی کی اپنی سوانح حیات ( بایو گرافی ) ہے، اگر نام سے پہلے ’’ مرتب ‘‘ لکھ دیا جاتا تو بات بالکل واضح تھی، جیساکہ اندرون صفحہ پر درج ہے، باب دوم بہت طویل ہے، ایک مضمون کے علاوہ تمام نثری مضامین اسی میں جمع کردیئے گئے ہیں، اگر افراد خاندان اور دیگر اصحابِ قلم کو دو الگ الگ ابواب میں تقسیم کردیا جاتا تو مناسب ہوتا، کتابوں میں کتابت کی غلطیوں کا باقی رہ جانا کوئی بہت تعجب کی بات نہیں ہے، بالخصوص آج کے کمپیوٹرائزڈ زمانے میں کتابوں کے مطالعہ کے دوران ذوق کا یہ شعر بہت یاد آتا ہے  :

غلطی سے مبرا کوئی انسان نہیں ہے

یہ ذوق کا دیوان ہے قرآن نہیں ہے

ہاں ! اگر تحریری غلطیاں زیادہ ہوں تو صاحب کتاب کی بے توجہی اور لاپرواہی کا پتہ دیتی ہیں۔

مجموعی اعتبار سے کتاب لائق تعریف و تحسین ہے اور اپنے موضوع پر محیط ہے۔ ٹائٹل بھی دیدہ زیب ہے اوراق بھی معیاری ہیں، کتاب کی ضخامت کے لحاظ سے اصل قیمت بھی کچھ زیادہ نہیں ہے، چار سو صفحات کی کتاب اور اصل قیمت صرف ڈھائی سو روپے، اب اس سے سستی کیا ہوسکتی ہے؟ ناشر نور اُردو لائبریری حسن پور گنگھٹی ویشالی ہے، آپ چاہیں تو ناشر یا مؤلف سے اس نمبر: 9135703017, 8229870156 پر ربط کرکے، یا امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ سے بھی خرید سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔