کربلا کے شہید (دوسری قسط)

عبد العزیز

حق و صدق کے فدائی:

ادھر کاروان اہل بیت منزلیں طے کر رہا تھا ادھر موی حکام ان کا مقابلہ کرنے کیلئے اقدامات کررہے تھے، قادیہ سے لے کر، جل لعلع تک اعراق کے سارے راستے پر سواروں کا تانتا بندھا ہوا تھا اور قافلۂ حق کی نقل و حرکت کی لمحہ بہ لمحہ خبریں کوفہ پہنچ رہی تھیں۔ ان اقدامات کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ اہل کوفہ اور حضرت حسینؓ کے درمیان رابطہ ٹوٹ گیا۔ کوئی شخص ادھر سے ادھر چاروں طرف پھیلے ہوئے ان شامی سواروں کے درمیان سے نہ گزر سکتا تھا۔ حاجز کے مقام پر پہنچ کر حضرت حسینؓ نے قیس بن مسہر صیداوی کو اپنی آمد کا خط دے کر بھیجا قیس قادسیہ میں گرفتار کر لئے گئے۔ ابن زیادؔ کے پاس کوفے پا بہ زنجیر پہنچے تو اس نے حکم دیا کہ قصر کی چھت پر چڑھ جاؤ اور کذاب ابن کذاب حسینؓ ابن علیؓ کو گالیاں دو ۔ اک فدائی یہ گستاخانہ کلمات سنکر تڑپ اٹھا۔ چھت پر چڑھ کر پکاریـ : ’’لوگوں! میں حسینؓ فاطمہ بنت رسول اللہؐ کے لخت جگر اور بہترین مخلوق کا ہرکارہ ہوں۔ وہ حاجز تک پہنچ چکے ہیں ان کی مدد تمہارا فرض ہے۔‘‘یہ پیغام پہنچاکر انہوں نے ابن زیاداور اس کے باپ پر لعنت بھیجی اور حضرت علی کیلئے دعائے مغفرت کی۔ ابن زیاد غیظ و غضب میں گویا پھٹ پڑا۔ حکم دیا کہ اس گستاخ کو چھت پر سے نیچے گرا کر مار ڈالا جائے۔ حکم کی فورا تعمیل ہوئی اور مسلم کے بعد حضرت حسینؓ کے اس دوسرے فدائی نے جان نثار کرکے حق وفا ادا کردیا۔
بطن رملہ سے آگے بڑھے تو ایک چشمہ پر حضرت حسینؓ کی ملاقات عبد اللہ بن مطیع سے ہوئی جو عراق سے آرہے تھے۔ کہنے لگے: ’’اے ابن رسول اللہ ، میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں، آپ اللہ اور اپنے جدّا مجد کے حرم کے باہر کیوں نکلے؟‘‘ فرمایا ’’کوفے والوں نے بلایا ہے کہ حق کو زندہ کیا جائے اور بدعتیں مٹادی جائیں۔‘‘
عبد اللہ نے عرض کی:’’خدا کیلئے آپ کوفہ تشریف نہ لے جائے آپ وہاں یقینا شہید کردئے جائیں گے:‘‘
فرمایا ’’جو کچھ اللہ نے لکھ دیا ہے، میں اس پر راضی ہوں، مشیّت الٰہی کے آگے آدمی کربھی یا سکتا ہے۔‘‘
مقام زردد میں پڑا ؤ ڈالاتو ایک خیمہ نظر آیا، دریافت فرمایا’’ کس کا خیمہ ہے؟‘‘ معلوم ہوا زبیر بن قیس کا ۔ حج سے فارغ ہوکر اب کوفہ جارہے ہیں۔ حضرت حسینؓ نے انہیں بلا بھیجا مگر انہوں نے انکار کردیا۔ ان کی بیوی بولیں: ’’سبحان اللہ، ابن رسول اللہ بلاتے ہیںاور تم نہیں جاتے!‘‘ بیوی کی یہ بات اثر کر گئی۔ حضرت حسینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دل کی دنیا بدل گئی۔ اسی وقت اپنا خیمہ اکھڑواکر حضرت حسینؓ نے خیمہ کے قریب نصب کردیا۔ بیوی کو طلاق دے دی اور کہا: ’’تم اپنے بھائی کے گھر چلی جاؤ، میں نے تو حق پر نثار ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘ پھر اپنے ساتھیوں سے مخا طب ہوئے کہ جولوگ شہادت کے طلب گار ہیں وہ میرے ساتھ آئیں اور جولوگ نہیں چاہتے وہ اپنی راہ لیں…… لیکن شہادت کی سعادت سے بہر یاب ہونے کیلئے کوئی بھی آگے نہ بڑھا اور سبھی نے کوفہ کا راستہ لیا۔ زمیرؔ نے حضرت حسینؓ کی رفاقت اختیار کرکے دین و دنیا کی سعادت قبول کرلی۔
ثعلبیہؔ کے مقام پر پہونچے تو ایک اسدی سے جوکوفہ سے آرہا تھا خبر ملی کہ مسلم بن عقیلؓ اور ہانیؔ شہید کردیئے گئے۔ یہ خبر سخت وحشت ناک تھی۔ زبان پر انا للہ و انا الیہ راجعون جاری ہوگیا۔یہاں ایک بار پھر حضرت امام حسینؓ سے عرض کیا گیا کہ کوفے کا حال نہایت دگرگوں ہے اور وہاں کوئی بھی مددگار نہیں ہے۔ اس لئے یہیں سے واپس ہوجانا چاہئے، لیکن مسلم کے بھائی مصر ی تھے کہ جب تک ہم اپنے بھائی کا بدلہ نہیں لے لیتے یا خود کٹ نہیں جاتے واپس نہیں ہوسکتے۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا :’’جب یہ لوگ نہ ہوں گے تو پھر ہماری زندگی کس کام کی؟‘‘
قافلہ پھر آگے روانہ ہوگیا۔
روزبار پہونچکر عبد اللہ بن بقطر کی شہادت کی خبر ملی۔ عبد اللہ کو آپ نے مسلمؓ کے پاس خط لیکر بھیجا تھا لیکن راستے ہی میں حصین بن نمیر کے سواروں نے انہیں گرفتار کرکے ابن زیاد کے پاس بھیجوادیا۔ اس نے قیس کی طرح انہیں بھی حضرت حسینؓ پر لعنت بھیجنے کا حکم دیا، لیکن اس فدائی نے بھی وہی نمونہ پیش کیا جو اس کے پیشتر و پیش کرچکے تھے۔ انہوں نے کہا:’’لوگوں! فاطمہ بنت رسول اللہؐ کے جگر گوشے حسینؓ تشریف لارہے ہیں۔ تم لوگ ابن مرجانہ (ابن زیاد) کے مقابلہ میں انکی مدد کرو۔‘‘ ابن زیاد نے انہیں بھی قصر امارت کی بلندی سے گروادیا۔ جس کی ساری ہڈیا چور چور ہوگئیں!
یہیں محمد بن اشعث اور عمرو بن سعد کے بھیجے ہوئے آدمی مسلم بن عقیل ؓ کا پیغام لائے کہ اہل کوفہ نے بیوفائی کی ہے، یہاں تشریف نہ لائیے!
مسلسل دل شکن خبریں پہونچیں تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا۔ راستہ میںحضرت حسینؓ جہاں سے گزررہے تھے لوگ جوق در جوق حضرت حسینؓ کے ساتھ ہوگئے تھے، آپ نے انہیں صورت حال سے آگاہ کیا۔ مسلم بن عقیل ؓ ہانی بن عمرو ہ اور عبد اللہ بن بقطر کے درد ناک قتل کی خبر سنائی اور فرمایا : ’’جن لوگوں نے ہمیں دعوت دی تھی انہوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے تم میں سے جو شخص لوٹنا چاہتا ہے خوشی سے لوٹ جائے ہماری جانب سے اس پر کوئی الزام نہیں۔ ‘‘ یہ سنتے ہی ساری بھیڑ چھٹ گئی اور صرف وہی جانثار باقی رہ گئے جو مکہ سے ر ہتھیلی پر رکھ کر چلے تھے۔
بے وفاؤں کی سرزمین میں:
اب عراق کی سرزمین شروع ہوچکی تھی۔ ذی حشم کے مقام پرپہاڑ کے دامن میں حضرت حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے پڑاؤ ڈالا تو حسرین بن یزید تمیمی ایک ہزار سواروں کا دستہ لیکر پہنچ گیا اسے شامی حکومت نے اس قافلہ حق کو گھیر کر کوفہ لانے کا حکم دیا تھا ظہر کی نماز کے بعد حضرت حسینؓ نے حرکے دستے کے سامنے حسب ذیل تقریر کی۔
’’لوگوں! میں خدا اور تم لوگوں سے عذر خواہ ہوں۔ میں تمہارے پاس خود سے نہیںآیا، بلکہ میرے پاس اس مضمون کے تمہارے خطوط اور تمہارے قاصد آئے کہ ہمارا کوئی امام نہیں آپ آئیے۔ شاید خدا آپ کے ذریہ ہمیں سیدھے راستے پر لگادے۔ اب میں آگیا ہوں، اگرتم لوگ عہد و میثاق کرکے مجھ کو اطمینان دلا دو تو میں تمہارے شہر چلوں اور اگر ایسا نہیں کرتے،ہمارا آنا تمہیں ناگوار ہے تو میں جہاں سے آیا ہوں وہیں لوٹ جاؤں۔‘‘
عصر کی نماز کے بعد قافلہ کوروانہ ہونا تھا ، کوچ سے پہلے پھر تقریر کی:
’’لوگوں! اگر تم خدا سے ڈرو اور حقدار کا حق پہچانوں تو یہ خدا کی رضامندی کا موجب ہوگا۔ ہم اہل بیت خلافت کے ان دعوے داروں کے مقابلے میںجنہیں اس کا کوئی استحقاق نہیں اور جو تم پر ظلم و زیادتی کے مستحق حکومت کرتے ہیں، خلافت کے حقیقی مستحق ہیں اگر اب تم کو ہمارا آنا ناگوار ہے اور تم ہمارا حق نہیں پہچانتے اور تمہاری رائے اس سے مختلف تھی جو تمہارے خطوط اور تمہارے قاصدوں سے معلوم ہوئی تھی تو میں لوٹ جاؤں گا۔‘‘
اس تقریر پر حر نے پوچھا:
’’قاصد اور خطوط کیسے؟‘‘
حر کے اس استعجاب پر حجرت حسینؓ نے کوفیوں کے خطوط سے بھرے ہوئے دو تھیلے منگوائے اور اس کے سامنے میں انڈیلوادیے۔ خطوط دیکھ کر حر نے کہا : ’’ہمارا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں جنہوں نے یہ خطوط لکھے ہیں ہمیں تو حکم ہوا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ساتھ رہیں اور آپ کو لے جاکر ابن زیادؔ کے پاس کوفہ پہونچا دیں۔‘‘ حضرت حسینؓ نے فرمایا ’’تمہاری موت اس سے زیادہ قریب ہے۔‘‘ پھر قافلہ کو واپس چلنے کو کہا، لیکن حر نے مزاحمت کی۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا : ’’تیری ماں تجھے روئے، تو کیا چاہتا ہے؟ ‘‘ حر نے کہا : ’’ اگر کوئی دوسرا عرب یہ کلمہ زبان سے نکالتا تو میں اسی لب و لہجے میں اسے جواب دیتا، لیکن بخدا میںآپکی والدہ کا نام عزت ہی سے لوں گا۔‘‘ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا : ’’تم کیا چاہتے ہو؟ ‘‘ حر نے کہاـ: ’’بس یہ کہ میرے ساتھ ابن زیاد کے پاس چلے چلو۔‘‘ فرمایا ’’میں تمہارا کہا نہیںمان سکتا۔‘‘
آگے بڑھ کر مقام بیضہ پر آپ نے حر کے لشکریوں سے خطاب فرمایا۔ یہ خطاب آپ کے اس مشن کی واضح طور پر نشاند ہی کرتا ہے کہ جس کی تکمیل کیلئے آپ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے۔ حر کے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی،پھر کہاـ: ’’لوگوں! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جس نے ایسے بادشاہ کو دیکھا جو ظالم ہے، خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرتا ہے، خدا کے عہد کو توڑتا ہے۔ سنت رسول کی مخالفت کرتا ہے، خدا کے بندوں میں گناہ اور زیادہ کے ساتھ حکومت کرتا ہے اور دیکھنے والے کو اس پر عملاً یا قولاً غیرت نہیں آتی تو خدا کو یہ حق ہے کہ اس بادشاہ کی جگہ اس دیکھنے والے کو دوزخ میں داخل کردے میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ ان لوگوں (بنی امیہ) نے شیطان کی اطاعت قبول کرلی اور رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ خدا کی زمین میں فتنہ و فساد پھیلا رکھا ہے۔ حدود اللہ معطل ہوکر رہ گئی ہے۔ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور اس کی حلال کی چیزوںکو حرام کردیا ہے اس لئے مجھے ان باتوں پر غیرت آنے کا زیادہ حق ہے۔ میرے پاس بلاوے کے تمہارے خطوط آئے۔ بیعت کا پیغام لیکر تمہارے قاصدآئے۔ انہوں نے کہا کہ آئیے ہم آپ کے منتظر ہیں اور آپ کو بے یارو مددگار نہ چھوڑیں گے۔ پس اگر اپنے عہد پر قائم رہوگے تو راہ راست کو اپناؤگے۔ جو شخص عہد شکنی کرتا ہے وہ گویاا اپنی ذات سے عہد توڑتا ہے۔‘‘
یہ تقریر سن کر حر نے کہا :’’اگر آپ نے جنگ کی تو قتل کردیئے جائیں گے۔‘‘
حضرت حسینؓ نے فرمایا :’’تم مجھے موت سے ڈراتے ہو۔ کیا تمہاری بد بختی اور شقادت اس حد کو پہنچ جائے گی کہ مجھے قتل کردو گے۔ تمہارے اس بات کا جواب میں وہی دونگا جو اوسی کے چچا زائی نے اوسی کو اس وت دیا تھا جب او سی نے انہوں رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دینے سے روکا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی مدد کیلئے نکلو گے تو قتل کردیئے جاؤگے۔‘‘
اس کا جواب انہوں نے یہ دیا تھا:
’’میں تو ضرور (رسول اللہ ﷺ کے جلومیں) جاؤں گا۔ موت جو انمر د کیلئے عار نہیں ہے خصوصا جب کہ اسکی نیت نیک ہو اور وہ مسلمان کی حیثیت سے جہاد کررہا ہو۔‘‘
تلواریں اور دل:
عذاب الہجانات پہونچے، تو حضرت حسینؓ کے چار انصار ملے، جو طر ماح بن عدی کی رہنمائی میں کوفہ کی خبریں لیکر آئے تھے۔ حر نے انہیں روک کر واپس کرنا چاہا حضرت حسینؓ نے مزاحمت کی اور فرمایا ــ: ’’یہ میرے ساتھی ہیں اور انلوگوں کی طرح جو میرے ساتھ آئے ہیں۔ میں اپنی ذات کی طرح ان کی بھی حفاظت کروں گا اور تم اپنے عہد و پیمان پر قائم نہ رہے تو جنگ کروں گا۔‘‘ یہ عزم سن کر کوفی حضرت حسینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اہل کوفہ کا حال پوچھا۔ مجمع بن عدی نے کہا : ’’اشراف کوفہ کو بڑی بڑی رشوتیں دی گئی ہیں ان کی تھیلیاں روپوں سے بھردی گئی ہیں۔ اس لئے وہ آپ کے خلاف متحد مشتعل ہورہے ہیں۔ البتہ عوام کے دل میں آپ کی طرف مائل ہیں لیکن ل ان کی تلواریں آ پ پر کھینچی ہونگی۔‘‘ آپ نے اپنے قاصد قیسؔ کے قتل کی خبر سن کر آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسورواںہوگئے۔ رخسارمبارک پر لڑیاں سی بہنے لگیں اور زبان پر یہ آیت کریمہ جاری ہوگئی:
فمنہم من قضی نجہ و منہم من ینتظر و ما بدلوا تبدیلا
’’مسلمانوں میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے اپنی منت پوری کی (یعنی شہید ہوئے) اور بعض ان میں سے ایسے ہیں، جو (شہادت کے)منتظر ہیں اور انہوں نے اپنے عزم ونیت میں کوئی ردو بدل نہیں کیا۔پھر قیسؔ کیلئے دعا فرمائیـ: ’’خدایا ہمیں اور ان لوگوں کو جنت عطا فرمااور اپنی بارگاہ رحمت میںہمارے اور ان کیلئے اپنے ذخیرۂ ثواب کا بہترین حصہ جمع فرما۔‘‘
یقین و ثبات کا پیکر:
قصر بنی مقاتل میں قافلۂ حق اترا۔ تھوڑی رات گئے حضرت حسینؓ کی آنکھ لگ گئی پھر انا للہ و انالیہ راجعون و الحمد للہ رب العالمین کہتے ہوئے بیدا ر ہوگئے۔آپ کے صاحبزادے حضرت زین العابدین نے پوچھا۔’’ آپ نے اباجان! انا للہ اور الحمد للہ کیوں پڑھا؟ فرمایا:’’ میری آنکھ لگ گئی تھی کہ میں نے خواب میں ایک سواردیکھا۔ وہ کہہ رہا تھا قوم جارہی ہے اور موت اس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ خواب ہماری موت کی خبر ہے۔‘‘ شیر دل صاحبزادے نے جواب دیا: ’’ابا جان! اللہ آپ کو برے وقت سے بچائے کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟‘‘ فرمایا’’ خدا کی قسم ! ہم حق پر ہیں۔‘‘ عرض کیا ’’جب حق کی راہ میں موت ہے تو پھر کوئی پرواہ نہیں۔‘‘ فرمایا’’خدا میری جانب سے تمہیں اس عزم و استقلال کیلئے جزائے خیر دے۔‘‘    ( جاری)

تبصرے بند ہیں۔