’’یہ کہہ کر خودکشی کرلی ہے ایک مفلس کی بیٹی نے‘‘

راحت علی صدیقی

(افضال احمد صاحب کی ایک تحریر نگاہ سے گذری،عمدہ تحریر اعلی فکر مستحسن قدم سماج کے رستے زخم پر مرہم رکھنے کی کوشش خدا تعالیٰ نتیجہ خیز فرمائے!)

مذہب اسلام نہایت ہی معتدل مذہب ہے جہاں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی بڑی اہمیت ومرکزیت اور بلند مقام حاصل ہے اب چونکہ انسان پر سب سے زیادہ حق اس شخص کا ہوسکتا ہے جو اس کی دنیا میں آمد کا ذریعہ ہے جس کا وجود اس کے ظہور کا باعث ہے جس نے لاکھ پریشانیاں اٹھا کر تکلیف و مصائب برداشت کرکے پیدائش کے مرحلہ کوطے کیا ، بے چینی، درد کی شدت کا عالم یہ کہ طاقت ور جانور بھی اُس درد سے بلبلا اٹھے اس لئے خداوند قدوس نے سب سے زیادہ ماں کا حق بیان کیا اور پھر چونکہ باپ اسکے ساتھ شانہ بشانہ درد وتکلیف کومحسوس کرتا ہے اور اس کے ازالہ کی تدابیر بھی کرتا ہے اس لئے ماں کے بعد باپ کا حق ہے قرآن کی کئی آیتیں اس پہلو کو بے غبار کرتی ہیں اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتی ہیں،ولادت کے بعد جہاں اولاد پر والدین کے حقوق ہیں وہیں والدین کی بھی شریعت نے یہ ذمہ داری بیان کی ہے کہ بچہ کو پیدائش کے بعد ایسے ہی نہ چھوڑ دیا جائے، اس کا عمدہ نام رکھا جائے اسکی اچھی تربیت کی جائے مذہبی اور انسانی اقدار سے روشناس کرایا جائے، تہذیب وشائستگی سلیقہ مندی سے بہرہ مند کیا جائے، تعلیم کا عمدہ نظم ہوتاکہ وہ صحیح اور غلط کے فرق کو جان سکے، اچھے اور برے کے معیار کو پرکھ سکے، انسانیت کے طور طریق طرزو ادا اس میں رچ بس جائیں، زندگی کے مسائل و مصائب کو حل کرنے کی صلاحیت اس میں پیدا ہوجائے، والدین کی ذمہ داری یہیں تک محدود نہیں، والدین کی سب سے اہم اور بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ انکے لئے اچھا رشتہ تلاش کریں اور مناسب وقت پر ان کی شادی کا انتظام کریں،جس پر افضال صاحب نے روشنی ڈالی اور یہ ثابت کیا کہ والدین محض نام و نمود کی خاطر شان و شوکت اور بڑائی کے لئے اپنی اولاد کے ارمانوں سے ان کی آرزوؤں تمناؤں اور خواہشوں سے کھیلتے ہیں، ان کے جذبات کا خیال نہیں کرتے، ان کے احساسات کیا ہیں اس کی فکر دامن گیر نہیں ہوتی، محض اپنی شان و شوکت کے لئے شادیوں میں تاخیر کرتے ہیں جوکہ غلط ہے،بیشک یہ عمل نہایت مذموم ہے اور یہ طریقہ کار اسلامی نہیں ہے بلکہ غیراسلامی رسم و رواج کا اثر ہے-

لیکن اس بات سے صد فی صد اتفاق ممکن نہیں کہ شادیوں کی تاخیر کا سبب محض والدین کا جھوٹی شان و شوکت کا اظہار ہے،بلکہ ہم اپنے قرب وجوار کا مشاہدہ کرتے ہیں تو تصویر کا دوسرا بھی رخ دکھائی پڑتا ہے ،بڑے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں بہت مشکل اور پیچیدہ صورت حال نگاہوں کا استقبال کرتی ہے، نجانے کتنے افراد ہیں جو راتوں کو کروٹیں لے کر گذار دیتے ہیں بیٹی کی شادی کی فکر ان کی آنکھوں میں نیند کو قریب پھٹکنے نہیں دینے دیتی، دن میں مصائب کا بوجھ ڈھوتے ہیں محنت و مزدوری کرتے ہیں جسم تھکان سے چور ہوتا ہے لیکن فکر احساس اور کڑہن انہیں بے چین کئے رہتی ہے،جب بستر پر تھکن اوڑھ کر سونے لگتے ہیں تو یہ احساس ایک بھیانک خواب کی طرح آتا ہے اور نیند کے مٹھاس سے محروم کردیتا ہے،جب کوئی اپنا قریبی یہ سوال پوچھ بیٹھے کہ میاں بچی کی شادی کب کروگے توآنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہو جاتی ہے جو ان کی بے بسی و بے کسی کی ایسی مستحکم دلیل ہے جسے کوئی فلسفی کاٹ نہیں سکتا،کوئی منطق اس کا جواب نہیں بن سکتی ،بے بسی کی ایسی بہت سی چلتی پھرتی تصویریں روزانہ دیکھتے ہیں اپنے شہر میں، پڑوس میں گائوں میں، قصبہ میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے، البتہ کچھ افراد کے ذہن میں یہ سوال جنم لے سکتا ہے مشکل کیسی؟مصائب کیسے؟شادی تو کوئی مشکل امر نہیں ،صحابہ کے ایسے بھی واقعات ہیں کہ آپ صلی اللہ کو بھی شادی کی خبر بعد میں ہوتی تھی اور آپ شکوہ نہیں فرماتے تھے،شادیاں اتنی آسان تھیں کہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا’’إن أعظم النکاح برکتہ، ایسرھا مؤنتہ‘‘ ابوداود کی یہ روایت واضح کرتی ہے کہ بابرکت نکاح وہی تھا جس پریشانی نہ ہو، چند سکوں کا خرچ بھی نہیں تھا لڑکی بالغ ہوتی تو فورا مناسب لڑکا تلاش کرکے نکاح کردیا جاتا، اس کے بعد ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق ولیمہ کرتا، آج کیا دشواری ؟ آج کیا مسئلہ ہے؟ اسلام نے تو شادی کو آسان بنایا ہے۔۔تو جواب یہ ہے کہ ہم جس معاشرہ میں ہیں اس کا معاشرتی ڈھانچہ کچھ اس طرح کا ہے جس کی جیب میں ایک روپیہ ہے وہ دو والے کی طرف دیکھ رہا ہے ،مال دار اپنے سے زیادہ مالدار کی تلاش میں ہے، لڑکے فروخت کئے جارہے ہیں، غربت و افلاس کے مارے ہوئے افراد منھ تک رہے ہیں، جوان بیٹیاں گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں-

آج بھی ہندوستانی مسلمان ہندوانہ رسم و رواج سے آزاد نہیں ہے، آج بھی اس ملک میں جہیز کے لئے لڑکیاں جلائی جاتی ہیں آج بھی عورتوں کو ستایا جاتا ہے، مسئلہ تو اس باپ کے لئے ہے جس نے ارمانوں سے نازونخرے سے لڑکی کی پرورش کی اسے تکلیف کا احساس تک نہیں ہونے دیا، خود مشکلات جھیلیں مزدوری کی مگر بیٹی کو تعلیم سے آراستہ کیا، اسے اچھی تربیت دی، اب کیا اسے کسی راہ چلتے کے ہاتھ میں دے دیا جائے ،ہاں بو علی سینا نہیں فارابی نہیں مال و زر کا مالک نہیں مگر کیا ایسے شخص کی بھی تلاش غلط ہے جو نان و نفقہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، جس کاگھرانہ دین سے وابستگی رکھتا ہو، جس کے ماں باپ دین سے تعلق رکھتے ہوں،یہ جستجو اور تلاش بھی سائے کو پکڑنے کے مثل ہوگیا ہے، سماج میں بدتری اس امر کی غماز ہے، سلاخوں کے پیچھے سب سے زیادہ مسلمان ہیں، تعلیم وتعلم میں سب سے زیادہ پیچھے مسلمان، سماج و معاشرہ کی گرتی اقداروں نے بہت سے مسائل کو جنم دیا جن میں شادی کا مسئلہ بہت بڑا ہے، جس کے اثرات نسلوں پر مرتب ہوتے ہیں، فحاشی زناکاری اور عیاری کا ایسا باب کھلتا ہے جو سینکڑوں افراد کی عفت و عصمت کے دامن کو تار تار کردیتا ہے برائی معاشرہ کی نیو کو کھوکھلاکردیتی ہے، سماج و معاشرہ کی تعمیر کے لحاظ سے بھی شادیاں بروقت کی جائیں مگربہت مشکل ہے ڈگر پنگھٹ کی؛کون باپ ہے جو اپنی بیٹی کے ہاتھوں کو مہندی سے سجے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا؟ کس کی آرزو اور خواہش نہیں ہوتی کون تمنا نہیں کرتا کہ نواسے پوتے کھلائے؟ اس روئے زمین کا کو ن سا ایسا فرد ہے جسے اپنے بچوں کی خوشیوں سے پیار نہیں ہے؟ وہ باپ جو دن رات کا سکون غارت کرکے اولاد کے لئے سامان عیش و عشرت مہیا کرتا ہے مشکلات کی ساری دھوپ اپنے اوپر لیکر آسانی وآسائیش کا سایہ اولاد کے لئے تلاش کرتا ہے کیا یہ شخص محض اپنی عزت شان و شوکت کی نمائش کے لئے اپنی اولاد کے ارمانوں کی بلی چڑھا سکتا ہے؟کیا وہ ماں جو پانی سے بھیگے ہوئے بستر پر خود سوئے خشک بستر پر اولاد کو سلائے کیا وہ اولاد کی خوشی کو قربان کرسکتے ہیں،ماں باپ کے حالات و واقعات ان کی محبت پیار اس دعوی کو جھٹلاتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ ماں باپ اولاد کی معمولی سی خوشی کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں تو شادیوں میں ایسا کیوں ممکن ہے چند افراد اس قبیل کے مل جائیں جن کے لئے شان و شوکت ہی سب کچھ ہے مگر عام طور پر وہ افراد ہیں جو سماج کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں لاکھ کوشش کے باوجود وہ اس قید سے آزاد نہیں ہوپاتے ہیں؛ کیونکہ سماج کے ٹھیکیدار ان رسوم و رواج کو توڑنا چاہتے ہیں کیا جہیز کے خلاف کوئی گفتگو کرتا ہے کیا میراث کی حمایت میں کوئی بیان دیتا ہے؟ عمل تو دور کی بات ہے الفاظ کی دنیا قائم کرنا تو بہت آسان ہے مگر حقائق سے آنکھ ملانا تو مشکل تر امر ہے!اس مشکل مرحلہ کو آسان کیجئے ۔۔معاشرہ کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ ان حالات کو بدلے ،ہر شخص اپنے طور پر کوشش کرے، کچھ نمایاں اور بلند مرتبہ لوگ ان دیواروں کو گرائیں اور معیار بدلیں تاکہ سماج کایہ مسئلہ خود بخود حل ہوجائے، رات کی تنہائی میںکسی باپ کو آنسو نہ بہانا پڑے ،کسی ماں کے آنسوؤں سے زمیں کو لرزنا نہ پڑے اور کسی شاعر کو یہ نہ کہنا پڑے۔’’ایک مفلس کی بیٹی نے یہ کہہ کر خودکشی کرلی ہے: لو! اب  تمہاری ذمہ داری ختم ہوتی ہے‘‘!!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔